’جب یروشلم کی مسجد الاقصیٰ کی حفاظت پگڑی والے ہندوستانی فوجی کر رہے تھے‘: اسرائیل میں مدفون پاکستانی اور انڈین فوجیوں کی داستان

Alaqsa

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سکھ فوجی جو یروشلم میں برطانوی فوج کا حصہ تھے

  • مصنف, گرجوت سنگھ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

لائل پور کے پال سنگھ، پٹیالہ کے آسا سنگھ، اجنالہ کے مگھر سنگھ، گوالیار انفنٹری کے سیتا رام اور غازی آباد کے بشیر خان کی قبریں یا آخری یادگاریں ان کی جائے پیدائش سے ہزاروں میل دور یروشلم کے ایک مقبرے میں موجود ہیں۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ایسے سینکڑوں فوجی جو برطانوی فوج کا حصہ تھے مشرق وسطیٰ میں مارے گئے۔

اس وقت فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی آخری یادگاریں موجودہ اسرائیل میں واقع چار قبرستانوں میں بنائی گئی تھیں۔

یہی نہیں بلکہ ان کی یاد کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے ناموں کے ساتھ پتھر بھی نصب کیے گئے تھے۔ برطانوی فوج کا ایک بڑا حصہ ہندوستانی فوجیوں پر مشتمل تھا۔

یہ فوجی غیر منقسم پنجاب کے ساتھ ساتھ موجودہ انڈیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

ان کے نام اسرائیل کے تل ابیب میں ہندوستان کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ کتابچہ ’اسرائیل میں ہندوستانی فوجیوں کی یادگار‘ میں بھی درج ہیں۔

یہ کتابچہ اسرائیل میں اس وقت کے ہندوستانی سفیر نوتیج سنگھ سرنا کے دور میں چھپا تھا۔

جارج رٹ ہاٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یروشلم میں یہودی کوارٹر کے باہر تعینات سکھ فوجی

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے۔

حماس کی طرف سے اسرائیل میں دراندازی اور اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی جوابی کارروائی میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ یہ تناؤ اب بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

سوشل میڈیا اور اخبارات بھی اس جنگی مسئلے کی تاریخ پر بحث کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

20ویں صدی کے آغاز میں موجودہ اسرائیل میں تعینات ہندوستانی فوجیوں کی تصاویر کو لے کر سوشل میڈیا پر بھی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

Israel

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

،تصویر کا کیپشن

الاقصیٰ مسجد کے باہر ڈیوٹی پر مامور ہندوستانی فوجی

مسجد اقصیٰ کے باہر پگڑی والے فوجی بھی تعینات تھے

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں پگڑی والے ہندوستانی فوجی بھی موجودہ اسرائیل میں مسجد اقصیٰ یا ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے باہر تعینات دکھائی دے رہے ہیں۔

نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ یا ٹیمپل ماؤنٹ یہودی اور عرب دونوں برادریوں کے لوگوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت بھی عرب اور یہودی برادریوں کے درمیان تناؤ تھا۔ کبھی مسلح حملے اور بم دھماکے ہوتے تھے۔

اس وقت یہ علاقہ برطانوی قبضے میں تھا۔ انڈین فوجیوں کو غیر جانبدار سمجھا جاتا تھا، اس لیے انھیں یہاں تحفظ کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ فوجی یہاں آنے والے لوگوں کی تلاشی لیتے تھے۔

Indian soldiers

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

،تصویر کا کیپشن

یروشلم کے پرانے مرکزی دروازوں میں سے ایک ’لائنس گیٹ‘ کے باہر تعینات ہندوستانی فوجی

پنجابی سپاہیوں کا کردار

فوجی تاریخ دان مندیپ سنگھ باجوہ بتاتے ہیں کہ برطانوی فوج میں غیر منقسم ہندوستان کے مختلف حصوں کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ غیر منقسم پنجاب کے فوجی بھی شامل تھے۔

یہاں کے سپاہیوں نے جنگ حیفہ اور بہت سی دوسری لڑائیوں میں حصہ لیا۔

ہندوستانی فوجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مندیپ سنگھ باجوہ بتاتے ہیں کہ اس وقت زیادہ تر ہندوستانی فوجی پگڑی والے تھے اور بعض اوقات یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ زیادہ تر فوجی پنجابی یا سکھ تھے۔

تاہم سکھوں نے اپنی آبادی کے لحاظ سے اس میں بڑا حصہ ڈالا۔ سکھوں نے سینائی-فلسطین مہم میں بھی اہم کردار ادا کیا، ان کا کردار مغربی محاذ، عراق (اس وقت میسوپوٹیمیا کہلاتا تھا) میں بھی نمایاں تھا۔

دوسری عالمی جنگ تک زیادہ تر ہندوستانی فوجی پگڑیاں پہنتے تھے۔ ہندوستانی فوجیوں کے لباس میں تبدیلی دوسری عالمی جنگ کے دوران شروع ہوئی تھی۔

چند سال قبل اسرائیلی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ نہ صرف سکھ فوجیوں کے اعزاز میں بلکہ تمام ہندوستانی فوجیوں کے اعزاز میں ہے۔

امپیریل وار میوزیم فوٹوگرافک آرکائیو / آکسفورڈ یونیورسٹی

،تصویر کا ذریعہImperial War Museum Photographic Archive/Oxford University

مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ یہاں لڑی جانے والی ’بیٹل آف حیفہ‘ پہلی عالمی جنگ کی بہت اہم جنگ تھی۔

ہندوستانی فوجیوں نے سنہ 1918 کی جنگ حیفہ میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ حیفہ کی جنگ برطانوی فوج اور سلطنت عثمانیہ کی فوج کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ تھی۔

برطانوی سلطنت کے لیے لڑنے والی فوج میں گھڑ سواروں کی بڑی تعداد تھی۔ انھوں نے ترک افواج کو شکست دی۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت برطانوی فوج میں ہندوستانی ریاستی افواج کے یونٹ شامل تھے، انھیں ’امپیریل سروس ٹروپس‘ بھی کہا جاتا تھا۔

حیفہ کی جنگ میں جودھ پور، لانسر اور میسور لانسرز نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔

ان یونٹس کا تعلق جودھ پور خاندان اور میسور خاندان سے تھا۔

Muslims

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

،تصویر کا کیپشن

یروشلم کے جنگی قبرستان میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے ہندوستانی فوجیوں کی یادگار

مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ پٹیالہ خاندان سے تعلق رکھنے والے پٹیالہ لانسر ’جنگ حیفہ‘ کے دوران فوج کا حصہ تھے، لیکن انھوں نے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔

حیفہ کی جنگ میں پنجابی فوجیوں کے کردار کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں کہ اس میں سکھ فوجی ملوث تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فخر کی بات ہے کہ عالمی جنگوں میں پنجابی یا ہندوستانی فوجیوں نے بڑا کردار ادا کیا لیکن حیفہ کی جنگ میں سکھوں کی شمولیت کا دعویٰ درست نہیں ہے۔‘

اسرائیل
،تصویر کا کیپشن

بابا فرید (حضرت فرید الدین گنج شکر) 1200 میں اس مقام پر تشریف لائے

بابا فرید سے جڑی جگہ

نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران فلسطین میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی۔ نوتیج سرنا کتاب ’دی ہیروڈز گیٹ-اے یروشلم ٹیل‘ کے مصنف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہندوستانی فوجی لیبیا، لبنان، مصر اور دیگر علاقوں سے آرام اور صحت یابی کے لیے یروشلم آتے تھے۔

انھوں نے انڈین ہاسپیس میں آرام کیا جسے بابا فرید ہاسپیس بھی کہا جاتا ہے۔ بابا فرید (حضرت فرید الدین گنج شکر) 1200 میں اس مقام پر تشریف لائے۔

انڈین ہاسپس
،تصویر کا کیپشن

انڈین ہاسپیس جسے بابا فرید ہاسپیس بھی کہا جاتا ہے

فلسطین میں ہندوستانی فوجیوں کا کیا کردار تھا؟

رام اللہ

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

،تصویر کا کیپشن

رام اللہ جنگی قبرستان میں انڈین فوجیوں کی یادگار

ہندوستانی فوجی پہلی جنگ عظیم کے دوران فلسطینی علاقوں میں کئی اہم لڑائیوں کا حصہ تھے۔ یہاں تک کہ ہندوستانی فوج کے میجر دلپت سنگھ کو آج بھی حیفہ کی جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔

ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کے مطابق ’غیر منقسم ہندوستان کے فوجیوں نے مشرق وسطیٰ بالخصوص فلسطین میں ہونے والی دونوں عالمی جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔‘

ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کے مطابق تقریباً 1,50,000 ہندوستانی فوجیوں کو موجودہ مصر اور اسرائیل بھیجا گیا تھا۔

یہاں کے فوجیوں نے ستمبر اکتوبر 1918 کی فلسطین مہم میں حصہ لیا۔

’کامن ویلتھ وار گریز کمیشن‘ کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں 1,302,394 ہندوستانی فوجی شامل تھے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والوں کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل میں ہندوستانی فوجی

فلسطین میں ہندوستانی فوجیوں کی آمد

فوجی تاریخ دان مندیپ سنگھ باجوہ نے نشاندہی کی کہ فلسطین ایک اہم جگہ تھی جہاں برطانوی افواج نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ لڑی۔

سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں سینا، شام، اردن تک پھیلی ہوئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ بیلفور اعلامیہ اسی جنگ کے دوران جاری کیا گیا جس نے موجودہ اسرائیل کی بنیاد ڈالی۔

نوتیج سرنا نے کہا کہ جب برطانوی جنرل ایلنبی نے سنہ 1917 میں یروشلم پر قبضہ کیا تو ہندوستانی فوجی ایلنبی کی فوج کا حصہ تھے۔

India

،تصویر کا ذریعہNotej Sarna

،تصویر کا کیپشن

نوتیج سرنا 2008 سے 2012 تک اسرائیل میں ہندوستان کے سفیر تھے

یہ بھی پڑھیے

مقامی لوگ ان فوجیوں کو کس طرح یاد کرتے ہیں

Indian army

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

نوتیج سرنا نے کہا کہ حیفہ کے لوگ میجر دلپت سنگھ کے اعزاز میں مجسمہ بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کا ساتھ دیا۔

اس لیے 23 ستمبر کو ’یوم حذیفہ‘ کے موقع پر سالانہ تقریب کا آغاز کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ حیفہ قبرستان میں حیفہ کی جنگ میں شامل فوجیوں کی یادگار نہیں بلکہ دوسرے فوجیوں کی یادگار ہے۔

انھوں نے کہا کہ جن فوجیوں کی یادگار حیفہ قبرستان میں نصب ہے، اس دن انھیں یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ’جنگ حیفہ‘ میں شامل فوجیوں کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔

اب اس کا دورہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ حکومتی نمائندے بھی کرتے ہیں۔

نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ اگرچہ وقت گزرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ فوجیوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔

’اب بھی جو لوگ حیفہ میں آباد ہیں وہ ان سپاہیوں کو یاد کرتے ہیں جو ’حیفہ کی جنگ‘ میں لڑے تھے۔ حیفہ ہسٹوریکل سوسائٹی بھی ہے، جو ان پر کام کرتی ہے۔‘

یادگار

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

،تصویر کا کیپشن

حیفہ انڈین قبرستان میں مسلمان فوجیوں کی یادگار

انڈین فوجیوں کی قبریں کہاں ہیں؟

اسرائیل میں ایسے چار قبرستان ہیں جہاں انڈین فوجیوں کو دفن کیا گیا ہے یا ان کے لیے یادگاری پتھر لگائے گئے ہیں۔

’یروشلم انڈین وار سیمیٹری‘ میں جولائی 1918 سے جون 1920 کے درمیان دفن 79 ہندوستانی فوجیوں کی قبریں ہیں، جن میں سے ایک کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

’حیفہ انڈین وار سیمیٹری‘ میں پنجاب، اتر پردیش، اوڈیشہ، حیدرآباد میں رہنے والے فوجیوں کی آخری یادگاریں بھی ہیں۔

Sikh

،تصویر کا ذریعہIndian Embassy in Israel

،تصویر کا کیپشن

حیفہ انڈین قبرستان میں ہندو اور سکھ فوجیوں کی یادگار

’رم اللہ جنگی قبرستان‘ میں سب سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی تدفین کی گئی ہے۔ اس قبرستان میں 528 قبریں ہیں۔ پہلی عالمی یادگار بھی یہاں قائم ہے۔

’خیات بیچ وار قبرستان‘ سنہ1941 میں قائم کیا گیا تھا، اس میں دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے 691 فوجیوں کی قبریں ہیں، جن میں سے 29 ہندوستانی تھے۔

نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کی یادگاریں ’کامن ویلتھ گریز کمیشن‘ نے قائم کی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ان قبرستانوں میں حیفہ ایک اہم قبرستان ہے۔

حیفہ کی جنگ سنہ 1918 میں ہوئی۔ میسور، جودھ پور، بیکانیر لانسر یونٹوں نے اس میں حصہ لیا۔ یہ ان یونٹوں کی یاد میں نیو دہلی میں تین مجسموں کی یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں۔

یہ ضروری نہیں کہ فوجی اسی علاقے میں مرے یا انھیں یہیں دفن کیا گیا ہو۔ کبھی کبھی فوجیوں کی یادگار کے طور پر ان قبروں میں ان کے نام کے پتھر نصب کیے جاتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان فوجیوں کا تعلق ہندو، مسلم اور سکھ مذاہب سے تھا۔

’ہم نے ان جگہوں کی نشاندہی کی، معلومات اکٹھی کیں، تصویریں لیں اور کتابچہ کو اس طرح شائع کیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے دولت مشترکہ کے جنگی قبروں سے متعلق قائم کیے گئے کمیشن کے ساتھ مل کر کام کیا اور اب جب بھی ہندوستانی حکومت کے نمائندے وہاں جاتے ہیں تو وہ احترام کے طور پر ان مقامات کا دورہ بھی کرتے ہیں۔‘

فوجی تاریخ کے ماہر مندیپ سنگھ باجوہ

،تصویر کا ذریعہX/MandeepSinghBajwa

،تصویر کا کیپشن

فوجی تاریخ کے ماہر مندیپ سنگھ باجوہ

فوجی تاریخ کے ماہر مندیپ سنگھ باجوہ نے کہا کہ کامن ویلتھ وار گریز کمیشن تقریباً 60 ممالک میں بنی برطانوی سلطنت کے فوجیوں کی قبروں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

انڈیا بھی ان اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ