جاپان: 47 برس سے سزائے موت کے قیدی کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا فیصلہ

جاپان

،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, شائمہ خلیل اور سائمن فریسر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹوکیو

ایک جاپانی شخص جسے تقریباً نصف صدی سے سزائے موت کی سزا ہوئی ہے کے مقدمے کی سماعت دوبارہ سے ہو گی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق آئواؤ ہاکامادا جو اب 87 برس کے ہیں، دنیا کے سب سے طویل عرصے تک سزائے موت پانے والے قیدی ہیں۔ انھیں 1968 میں اپنے باس، اس کی بیوی اور ان کے دو بچوں کو 1966 میں قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سابق پروفیشنل باکسر نے 20 دن کی پوچھ گچھ کے بعد اعتراف جرم کیا تھا جس دوران انھوں نے کہا کہ انھیں مارا پیٹا گیا۔ بعد ازاں وہ عدالت میں اعتراف جرم سے مکر گئے تھے۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے جاپان کے قانونی نظام میں اعترافی بیان پر انحصار پر تنقید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پولیس اکثر طاقت کے ذریعے یہ بیان حاصل کرتی ہے۔

دوبارہ مقدمے کی سماعت میں، جج اس بات پر فیصلہ دیں گے کہ آیا قاتل کے پہننے والے لباس پر پائے جانے والے خون کے دھبوں سے ملنے والا ڈی این اے آئواؤ ہاکامادا سے ملتا ہے۔

ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ثبوت من گھڑت ہیں۔

انھیں سنہ 1966 میں ٹوکیو کے مغربی علاقے شیزوکا میں ایک میزو یا سویا بین پروسیس کرنے والی فیکٹری میں اپنے مالک اور ان کے خاندان کو قتل کرنے اور لوٹنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقتولین کو آگ لگانے کے بعد چاقو کے وار کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔

سنہ 2014 میں، ہاکامادا کو جیل سے رہا کیا گیا اور ایک ضلعی عدالت نے دوبارہ مقدمہ چلانے کی اجازت دی تھی۔ عدالت نے پایا تھا کہ تفتیش کاروں کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ اس کے بعد ٹوکیو کی ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

لیکن اپیل کی ایک درخواست کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں نے ہائی کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت کی، جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ آیا کہ اب دوبارہ مقدمے کی سماعت ہونی چاہیے۔

ہاکاماڈا کی 90 سالہ بہن ہیڈیکو جنھوں نے برسوں سے اپنے بھائی کی حمایت میں مہم چلائی ہے کا کہنا ہے ’میں 57 سال سے اس دن کا انتظار کر رہی تھی اور بالآخر وہ آ گیا ہے۔ آخرکار میر ے کندھوں سے بوجھ اترا ہے۔‘

ہاکامادا کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دہائیوں تک جیل میں رہنے سے ان کی ذہنی حالت بگڑ گئی ہے۔

جاپان

،تصویر کا ذریعہAFP

امریکہ کے بعد جاپان وہ واحد ترقی یافتہ ملک ہے جہاں آج بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہاکامادا کے مقدمے کی دوبارہ شنوائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے طویل عرصے سے انصاف فراہم کرنے کا ایک موقع قرار دیا ہے۔

ایمنسٹی گروپ جاپان کے ڈائریکٹر ہدیکی ناکاگاوا کا کہنا تھا کہ ’ہاکامادا کی سزا کی بنیاد جبری طور پر لیے گئے اعترافی بیان پر تھی‘ اور اس کے خلاف استعمال کیے جانے والے دیگر ثبوتوں پر بھی شدید تحفظات ہیں۔

اگر خصوصی اپیل دائر کی جاتی ہے تو مقدمے کی دوبارہ سماعت کے عمل میں برسوں لگ سکتے ہیں، تاہم وکلاء اس نظام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

جاپان میں وکلاء نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن استغاثہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ’سپریم کورٹ میں خصوصی اپیل دائر کیے بغیر مقدمے کی دوبارہ سماعت کا عمل تیزی سے شروع کریں۔‘

جاپان فیڈریشن آف بار ایسوسی ایشنز کے سربراہ موتوجی کوبایشی نے کہا ہے کہ ’ہم ہاکامادا کے مقدمے میں مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے، جن کی عمر 87 سال ہو چکی ہے اور وہ 47 سال سے قید کے باعث ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں۔‘”

BBCUrdu.com بشکریہ