روس اور امریکہ کے درمیان بحیرۂ اسود میں تباہ شدہ امریکی ڈرون کا ملبہ تلاش کرنے کی دوڑ

ّڈرون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, اینٹونیٹ ریڈفورڈ اور جوناتھن بیلی
  • عہدہ, دفاعی نامہ نگار، بی بی سی نیوز

روس نے بدھ کو کہا کہ وہ بحیرۂ اسود میں گر کر تباہ ہونے والے امریکی ڈرون کی باقیات کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

منگل کو ایک بڑا ایم کیو 9 ریپر امریکی ڈرون روسی لڑاکا طیاروں سے تصادم کے بعد بحیرہ اسود میں گر کر تباہ ہوا تھا

امریکہ کا کہنا ہے کہ ایک روسی لڑاکا طیارے کی جانب سے اس ڈرون کے پروپیلر کو نقصان پہنچائے جانے کے بعد اس نے تباہ شدہ ڈرون کو ’ناقابل پرواز‘ ہونے کے بعد بحیرۂ اسود میں گرایا تھا۔ لیکن ماسکو نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔

سرکاری ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے روسی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نکولائی پیٹروشیف نے تصدیق کی کہ ماسکو ڈرون کے ملبے کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روسی سیکرٹری پیٹروشیف کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں جانتا کہ ہم اسے تلاش کر پائیں گے یا نہیں لیکن یہ کرنا ہو گا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بحیرہ اسود میں ڈرون کی موجودگی اس بات کی ’تصدیق‘ ہے کہ امریکہ اس جنگ میں براہ راست ملوث ہے۔

واشنگٹن کے سینیئر اہلکار جان کربی نے کہا کہ امریکہ بھی ڈرون کے ملبے کی تلاش کر رہا ہے، لیکن اس بات پر زور دیا کہ اگر روس نے انھیں اس تلاش میں شکست دی تو ’مفید انٹیلی جنس سے فائدہ اٹھانے کی ان کی صلاحیت انتہائی کم ہو جائے گی۔‘

امریکی فوج کے اعلیٰ ترین فوجی جنرل مارک ملی نے اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ’ مناسب اقدامات‘ کیے ہیں کہ گرائے گئے ڈرون سے کچھ حاصل نہ ہو سکے۔

انھوں نے کہا کہ ڈرون کے ملبے کی تلاش کا عمل کافی مشکل ہو گا، کیونکہ جہاں یہ گر کر تباہ ہوا وہاں پانی کی گہرائی 4,000 فٹ سے 5,000 فٹ کے درمیان ہے۔

امریکی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ واقعہ منگل کی صبح پیش آیا اور روسی لڑاکا طیاروں اور امریکی ڈرون کا آمنا سامنا تقریباً 30-40 منٹ تک جاری رہا۔

ایک بیان میں امریکی فوجی حکام کا کہنا تھا تصادم سے پہلے دو روسی لڑاکا طیاروں نے کئی مرتبہ ڈرون پر لاپرواہی اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں ایندھن پھینکا۔

پینٹاگون کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائیڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی ’ڈرون ناقابل پرواز اور بے قابو ہو چکا تھا، اسی لیے ہم نے اسے مار گرایا‘ اور ہوسکتا ہے کہ اس تصادم کے دوران روسی طیاروں کو بھی نقصان پہنچا ہو۔

تاہم روس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کہ دو ایس یو 27 جنگی طیاروں نے امریکی ڈرون سے کوئی رابطہ یا آمنا سامنا کیا تھا۔

Drone

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون دوران پرواز ’ایک تیز مینوور‘ کے بعد گر کر تباہ ہوا اور روس نے امریکی ڈرون سے روسی طیاروں کے کسی بھی قسم کے رابطے میں آنے کی تردید کی ہے۔

روسی وزارت دفاع نے یہ بھی کہا کہ امریکی ڈرون طیارہ اپنے ٹرانسپونڈرز کو بند کر کے پرواز کر رہا تھا۔ ٹرانسپونڈر مواصلاتی آلات ہیں جو طیارے کو ٹریک کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

امریکی وزیر دفاع، لائیڈ آسٹن نے تصدیق کی کہ انھوں نے ڈرون گرائے جانے کے اگلے دن اپنے روسی ہم منصب سرگئی شوئیگو سے بات کی تھی۔

دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کے مابین ٹیلیفونک رابطے کے بعد جاری بیان میں روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ شوئیگو نے اس واقعے کا ذمہ دار ’روسی فیڈریشن کے مفادات کے خلاف جاسوسی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں‘ کو قرار دیا۔ بیان میں کریمیا کے ساحل پر امریکی ڈرون پروازوں کو ’اشتعال انگیز‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ ماضی میں اپنے جہاز یا ڈرونز کے کریش ہونے کے بعد ان کے ملبے کو دوبارہ حاصل کرنے کے غیر معمولی اقدامات اٹھائے ہیں۔

انھوں نے اپنے سٹیلتھ جنگی طیارے ایف -35 کے بحیرۂ جنوبی چین میں ڈوبنے کے بعد اس کا ملبہ تہہ سے نکالا تھا۔

مگر اس مرتبہ بظاہر پینٹاگون اپنے ریپر ڈرون کو کھونے کے بارے میں زیادہ پرسکون دکھائی دیتا ہے۔ شاید اس لیے کیونکہ یہ پرانی ٹیکنالوجی ہے اور اس سے پہلےبھی یہ متعدد ضائع ہو چکے ہیں۔

اور جنگی علاقے کے قریب روسی بحری جہاز اور آبدوزوں کی موجودگی میں گہرے پانیوں میں گرائے گئے ڈرون کے ملبے کی تلاش کی کوشش، جنگ میں کشیدگی کا خطرہ پیدا کر سکتی ہے۔

سنہ 2014 میں روس کی طرف سے کریمیا کے الحاق کے بعد سے خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

روس کے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملے کے بعد سے امریکہ اور برطانیہ نے جاسوسی اور نگرانی کے لیے ڈرون پروازیں بڑھا دی ہیں، اگرچہ یہ ڈرون ہمیشہ بین الاقوامی فضائی حدود میں پرواز کرتے ہیں۔

تباہ شدہ ریپر ڈرون ممکنہ طور پر نگرانی کے آلات سے لیس ہو سکتا ہے جیسا کہ الیکٹرونک ڈیٹا حاصل کرنے کی صلاحیت سے لیس ٹیکنالوجی۔

امریکی محکمہ دفاع نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ نگرانی کے دوروں کو معلومات اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو یورپ کے لیے سکیورٹی کو بہتر بنانے اور ’اتحادیوں‘ کی مدد کرتے ہیں۔

امریکہ نے مبینہ طور پر اس سے قبل یوکرین کے ساتھ انٹیلی جنس شیئر کی تھی، جس میں اسے بحیرۂ اسود میں روسی جہاز کو ڈبونے میں مدد کرنا بھی شامل تھا۔

یوکرین کے وزیر خارجہ نے بی بی سی کے رپورٹر جیمز لینڈل کو بتایا کہ بحیرۂ اسود پر امریکی ڈرون کو مار گرانے جیسے واقعات اس وقت تک ناگزیر ہیں جب تک کہ روس کریمیا سے نکل نہیں جاتا۔

اسے ایک ’معمول کا واقعہ‘ قرار دیتے ہوئے، ڈیموترہ کیولیبا نے کہا کہ ’جب تک روس کا کریمیا پر کنٹرول ہے، اس قسم کے واقعات ناگزیر رہیں گے اور بحیرہ اسود محفوظ جگہ نہیں رہے گا۔‘

روس نے 2014 میں کریمیا کا الحاق کر لیا تھا لیکن اب بھی زیادہ تر ممالک اسے یوکرین کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔

ڈرون

،تصویر کا ذریعہEPA

بی بی سی نے دیمترو سے سوال کیا کہ کیا ڈرون تصادم کے واقعے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی مزید محتاط ہو سکتے ہیں؟ ان کا جواب میں کہنا تھا کہ ’اگر مغرب اپنی کمزوری ظاہر کرنا چاہتا ہے تو ایسے واقعے کے بعد وہ یقیناً مزید احتیاط کریں گے لیکن مجھے نہیں لگتا ان کا کوئی ایسا ارادہ ہے۔‘

’ان کا ارادہ بظاہر کشیدگی بڑھانے کا نہیں ہے لیکن وہ روس کے روائتی بیانات کے دباؤ میں جھکنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے ہیں۔‘

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جہاں بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے وہاں امریکی فوج ’پروازیں اور آپریشن جاری رکھے گی۔‘

امریکی ڈرون حادثہ ایک پر خطرے واقعہ ہے۔

واشنگٹن میں روسی سفیر اناتولی انتونوف کی امریکی حکام کی جانب سے طلبی کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ماسکو نے ڈرون کے واقعے کو ’اشتعال انگیزی‘ کے طور پر دیکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کریمیا کے نقطہ نظر سے ’ہماری سرحدوں کے قریب امریکی فوج کی ناقابل قبول سرگرمی تشویش کا باعث ہے۔‘

بدھ کو کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ اس واقعے پر ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کوئی اعلیٰ سطحی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن روس تعمیری بات چیت کے لیے کبھی انکار نہیں کرے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ