جاپان طیارہ حادثہ: عملے نے جلتے ہوئے طیارے سے 379 مسافروں کو کیسے بچایا؟
،تصویر کا ذریعہEPA
جہاز کے عملے کی ہدایات کے مطابق مسافر اپنا سامان اٹھائے بغیر جلتے ہوئی جاپان ایئرلائن کے جہاز کے ہنگامی راستوں کی طرف بھاگے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف اپنا سامان نہ اٹھانے سے انخلا کی رفتار پر بہت اہم فرق پڑا اور جب آخری مسافر کے نکلتے کے بعد ہانیدا ایئرپورٹ کے رن وے پر موجود جہاز آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔
منگل کو جاپان ایئرلائن کی پرواز 516 میں اس وقت آگ لگ گئی تھی جب لینڈنگ کے وقت اس کی ایک کوسٹ گارڈ کے طیارے کے ساتھ ٹکر ہوئی۔ کوسٹ گارڈز کے چھوٹے طیارے میں موجود چھ افراد میں سے پانچ ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ کوسٹ گارڈ طیارہ اور اس کے مسافر جاپان میں آنے والے شدید زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لیے کام کر رہے تھے۔
- مصنف, کیلی این جی اور فلورا ڈروری
- عہدہ, بی بی سی نیوز
اس کے برعکس کیبن میں دھویں کے باوجود زبردست انخلا کی وجہ سے فلائٹ 516 پر موجود تمام 379 افراد زندہ سلامت رہے۔ دنیا بھر میں لوگ اس بات پر حیران ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ بحفاظت انخلا کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔
ہوا بازی کے ماہرین اور صنعت کے پیشہ وروں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ انتہائی تربیت یافتہ اور منظم عملے، جس نے اپنی ٹریننگ کے مطابق کام کیا اور تمیز دار مسافروں کی وجہ سے ممکن ہوا جنھوں نے حفاظتی پروٹوکولز کا احترام کیا۔
لندن میں یونیورسٹی آف گرین وچ میں فائر سیفٹی انجینئرنگ گروپ کے ڈائریکٹر پروفیسر ایڈ گیلیا کہتے ہیں ’میں نے کسی بھی ویڈیو میں ایک بھی ایسا مسافر نہیں دیکھا جن کے پاس ان کا سامان ہو۔۔۔اگر لوگ کیبن سے اپنا سامان لینے کی کوشش کرتے تو یہ کافی خطرناک ہوتا اس سے انخلا سست روی کا شکار ہو جاتا۔‘
یہ دیکھنے کے لیے کہ اگر مسافر اپنا سامان ایسی صورتحال میں اپنے ساتھ لے کر جانے کی کوشش کریں تو کیا ہوتا ہے آپ کو 2016 میں دبئی کی کریش لینڈنگ کو دیکھنا ہو گا۔ ایمریٹس کی بوئنگ 777 میں اندر بنائی گئی ویڈیو میں ہنگامی سلائیڈ سے نکلنے سے پہلے پریشان مسافروں کو اپنا سامان اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مسافروں کو سلامت اور باحفاظت نکالنے کے لیے اس طیارے کے عملے کو سراہا گیا اور خوش قسمتی سے تمام 300 مسافر محفوظ رہے لیکن دبئی کی اس فلائٹ کے مناظر ٹوکیوں میں نظر آنے والے مناظر سے بالکل مختلف تھے۔
آگ لگنے سے تباہ ہوئے جاپان ایئرلائنز کی فضا سے بنائی گئی ویڈیو
حفاظتی تربیت کا ثمر
منگل کو جاپان ایئر کی اس پرواز نے ساپورو کے نیو چیتوسے ایئر پورٹ سے مقامی وقت کے مطابق سہ پہر چار بچے اڑان بھری تھی اور چھ بجے سے کچھ دیر پہلی ہی ہانیدا ایئرپورٹ پر لینڈ ہوئی تھی۔
جاپان ایئرلائنز کے ایک سابق فلائٹ اٹینڈنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فلائٹ کے مسافر ’بہت خوش قسمت ہیں۔‘
ایئرلائن کے مطابق فلائٹ 516 کے صرف ایک مسافر کو خراشیں آئیں اور دیگر 13 افراد نے جسمانی تکلیف کی وجہ سے طبی معائنے کی درخواست کی۔
سابق فلائٹ ایٹنڈنٹ نے کہا ’یہ جان کر کہ تمام مسافر محفوظ ہیں مجھے سکون آ گیا۔ لیکن جب میں ہنگامی انخلا کے طریقے کے بارے میں سوچنا شروع ہوئی تو میں نے اچانک گھبراہٹ اور خوف محسوس کیا۔ کیونکہ جیسے دونوں جہازوں کی ٹکر ہوئی اور آگ پھیلی، حالات اس سے بھی بتر ہو سکتے تھے۔‘
سابق فلائٹ اٹینڈنٹ کے مطابق تمام نئے عملے کو تین ہفتوں کی سخت انخلا کی اور حفاظتی تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بعد ہی انھیں کمرشل فلائٹس میں کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس ٹرینگ کے دوران آپ کو اپنی آواز کے انداز اور شدت کے کنٹرول کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ تربیت ہر سال دوہرائی جاتی ہے۔
10 سال قبل ایئرلائن چھوڑنے والی سابق فلائٹ ایٹنڈنٹ نے کہا ’ہم تحریری امتحان دیتے ہیں، مختلف ماضی کی مثالوں پر بحث کرتے ہیں اور مختلف حالات کے لیے عملی ٹریننگ کرتے ہیں مثال کے طور پر اگر طیارے کو پانی میں لینڈنگ کرنی پڑے یا جہاز میں آگ بھڑک اٹھے۔ مینٹیننس عملہ بھی ایسی ٹریننگ میں ساتھ ہوتا ہے۔‘
اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر مانے جانے کے لیے ہوائی جہاز بنانے والی کمپنیوں کو یہ دکھانا ہوتا ہے کہ طیارے پر موجود تمام افراد 90 سیکنڈز کے اندر جہاز سے نکل سکتے ہیں۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہم سے بات کرنے والی سابق فلائٹ اٹینڈنٹ نے کہا کہ پھر بھی عملی حالات میں یہ ممکن بنانا کہ کوئی مسافر خوف و ہراس کا شکار نہ ہو بہت مشکل ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا ’انھوں نے جو کر دکھایا ہے وہ کرنا سوچ سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ صرف یہ حقیقت کہ سب لوگ وہاں سے بحفاظت انخلا کر سکے یہ عملے اور ہدایات پر عمل کرنے والے مسافروں کے درمیان ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔‘
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہم سے بات کرنے والے ساؤتھ ایسٹ ایشین ایئرلائن کے ایک پائلٹ نے اتفاق کیا کہ عملے کی سخت تربیت نے مسافروں کے انخلا میں اہم کردار ادا کیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’مجھے کہنا پڑے گا یہ بہت زبردست تھا، ایسی صورتحال میں آپ کے پاس سوچنے کا زیادہ وقت نہیں ہوتا تو آپ بس وہ کرتے ہیں جس کی آپ کو تربیت دی ہوئی ہوتی ہے۔‘
اور طیارے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے آپ عملے اور مسافروں کی کارکردگی سے مزید متاثر ہوتے ہیں۔ پروفیسر گیلیا کے مطابق طیارے کی صورتحال انخلاء کو مزید مشکل بنا سکتی تھی۔
وہ کہتے ہیں ’حادثہ جیسے آپ سمجھتے ہیں وہسا بالکل نہیں تھا۔ طیارے کا منھ نیچے تھا یعنی مسافروں کے لیے ہلنا جلنا مشکل تھا۔‘
مسافروں کے انخلا کے لیے صرف تین ہوا سے بھرنے والی سلائڈز استعمال ہو سکیں لیکن جس طرح سے طیارہ نے لینڈنگ کی اس کی وجہ سے وہ صحیح طرح سے تعینات نہیں ہو سکے۔ پچھلہ حصہ بہت اونچا تھا جس کی وجہ سے صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی تھی۔
جاپان ایئرلائنز کا کہنا ہے کہ انخلا کے دوران طیارے کا سپیکر سسٹم بھی خراب ہو گیا تھا تو عملے کو میگافون کی مدد سے اور چیخ کر ہدایات دینی پڑیں۔
لیکن یہ اشارے بھی مل رہے تھے کہ جہاز کا ڈیزائن بھی مسافروں کو انخلا کا بہترین موقعہ فراہم کر رہا تھا۔ برطانیہ کی کرین فیلڈ یونیورسٹی میں ٹرانسپورٹ سسٹم کے ڈائریکٹر پروفیسر گراہم بریتھویٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا نظر آ رہا تھا کہ جہاز نے ’وہ کر دیا ہے جس کے لیے اسے ڈزائن کیا گیا تھا اور وہ یہ کہ اس پر سوار لوگوں کا تحفظ اور جلد انخلا کو ممکن بنانا۔‘
پروفیسر گراہم بریتھویٹ کے مطابق ایئرپورٹ پر آگ بجھانے کے عملے کا ہدف ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی آگ پر دو منٹوں میں قابو پا لیں لہذا اس عملے کا کردار بھی انخلا میں اہم رہا ہو گا۔
انھوں نے کہا ’ فائر سروس کی توجہ بالکل باہر نکلنے والے راستوں کی حفاظت اور اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز رہی ہو گی کہ لوگوں کے انخلا کے لیے کوئی واضح راستہ موجود ہو۔‘
انھوں نے بتایا کہ آخری مسافر کے انخلا کے بعد باقی آگ پر قابو پانے کے لیے کام شروع ہوا ہو گا۔
پائلٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی سے بھی سبق سیکھے گئے ہیں اور ماضی کے حادثات کے بعد سے حفاظتی قوانین مزید مضبوط بنائے گئے ہیں۔
مثال کے طور 1977 میں ٹینیرائف کے لاس روڈیوس ایئرپورٹ پر دو بوئنگ 747 کے درمیان ٹکر ہوا بازی کی تاریخ سے سب سے خطرناک حادثہ رہا ہے جس میں 583 افراد ہلاک ہوئے تھے، اس کی وجہ سے کاک پٹ کے طریقہ کار اور ریڈیو مواصلات کا جائزہ لیا گیا۔
یہ حادثہ فلائٹ کے عملے اور ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے درمیان غلط رابطے کی وجہ سے ہوا تھا۔
جاپان کے طیارے میں آگ لگنے کے بعد مسافر ہنگامی سلائیڈ سے جہاز سے نکل رہے ہیں
منگل کو ٹوکیو کے رن وے پر ہونے والی حادثے کی تحقیقات ہو رہی ہیں لیکن بدھ کو سامنے آنے والی کنٹرول ٹاور کی گفتگو کی تفصیلات کے مطابق کوسٹ گارڈز کو پرواز لینے اور مسافر تیارے کو ایک ہی وقت میں لینڈ کرنے کی اجازت دی گئی۔
اگست 1985 میں اوساکا جانے والی جاپان ایئرلائنز کی فلائٹ 123 ٹوکیو کے ہانیدا ایئرپورٹ سے پرواز لینے کے کچھ دیر بعد ہی پہاڑ پر کریش کر گئی تھی۔ بعد میں اس واقعے کی وجہ بوئنگ کی طرف سے مرمت کے کام کی خرابی کو اس حادثے کی وجہ قرار دیا۔ جہاز میں موجود 524 لوگوں میں سے چار افراد زندہ بچ پائے تھے۔
پروفیسر بریتھویٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ اُس وقت سے ایئر لائن کا ریکارڈ ’بے داغ‘ رہا ہے اور جب حفاظت کی بات آتی ہے تو اسے ’عالمی رہنما‘ مانا جاتا ہے۔
کمپنی کی انتظامیہ حفاظت کے بارے میں اتنی سنجیدہ ہے کہ 2006 میں جاپان ایئرلائنز نے ہانیدا کے قریب ایک میوزیم بنایا ہے جس میں انھوں نے حادثے کا ملبہ رکھا ہوا ہے اور اس کا مقصد اپنے ملازمین میں تحفظ کے متعلق شعور دینا ہے۔
جاپان ایئر لائن نے میوزیم کے ویب پیج پر لکھا ہے ’سوگوار خاندانوں کے درد اور غم اور (1985 کے حادثے کے بعد) ایئر لائن کی حفاظت میں عوامی عدم اعتماد کے پیش نظر، ہم نے عہد کیا کہ ہم دوبارہ کبھی بھی ایسا المناک حادثہ نہیں ہونے دیں گے،‘
’عملے کے ہر رکن کو یاد دلایا جاتا ہے کہ ہمارے کام میں قیمتی جانیں اور املاک ہمارے سپرد ہوتی ہیں۔‘
Comments are closed.