لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانے کے سرکاری تحائف کی خفیہ نیلامی روکنے کیلئے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے خفیہ نیلامی کی پالیسی غیر آئینی قرار دے دی۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ حکومت اس پر قانون سازی کرے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانے کی چیزیں پبلک پراپرٹی ہیں۔
چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ کیا آئین اس پروسیجر کو سپورٹ کرتا ہے؟ کیا اس میں پیپرا رولز پر عمل ہو جاتا ہے؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پالیسی بتا سکتا ہوں۔
چیف جسٹس قاسم خان نے استفسار کیا کہ کیا پالیسی بنیادی حقوق اور پیپرا رولز کے خلاف جا سکتی ہے؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 2 ریاستوں کی اہم شخصیات کے مابین گفٹ دیئے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ شخصیات کا نہیں بلکہ ریاست کا ریاست کو تحفہ ہوتا ہے، وہ ریاستِ پاکستان کے لیے گفٹ لیتے ہیں، اگر یہ لوگ (حکمراں) عہدوں پر نہ ہوں تو کیا گفٹ لے سکتے ہیں؟ وہ تمام قابلِ عزت ہیں جنہیں ریاستِ پاکستان کیلئے گفٹ ملتے ہیں، تشویش اس بات پر ہے کہ کروڑوں کی چیز کو کوڑیوں کے بھاؤ کیوں بیچتے ہیں۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ ان چیزوں کا عجائب گھر بنا دیں، عوام کو بولی میں شامل نہ کرنا دھتکارنے کے مترادف ہے، پنجابی میں کہتے ہیں کہ تہاڈی اوقات نہیں ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کو حق دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی چیزیں لینے کے بعد 4 چیزیں عوام کو دے دیتے ہیں۔
Comments are closed.