تلور کا شکار اور پسنی کا ابوظہبی: ’اب صرف شیخ صاحب کا انتظار ہے کہ وہ کب آئیں گے‘
تلور سے متعلق کئی تحریریں پہلے بھی لکھی جا چکی ہیں اور یہ سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ آخر کیوں اس کے شکار کے لیے پاکستان اپنے تین صوبوں یعنی سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں مختلف جگہیں مختص کرتا ہے؟ پاکستان کو اس سے کیا فائدہ ملتا ہے؟ اور یہ سوال بھی کہ کیا یہ سلسلہ کبھی ختم ہو گا؟
لیکن اس سوالات کے جواب جاننے سے قبل پسنی شہر کے حاجی حنیف کی بات کرتے ہیں۔ حاجی حنیف رواں برس شیخ سرور کی فروری میں پسنی آمد سے پہلے ہی تمام تر تیاریاں مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔
ہر سال صرف ایک ہفتے یا دس دن کے لیے ان کی زندگی کا تمام تر دارومدار پسنی آنے والے شیخ ہوتے ہیں۔ اسی ایک ہفتے کے دورے سے پسنی کے 30 اور خاندان بھی منسلک ہیں۔
پسنی کا ابوظہبی
حاجی حنیف جو پسنی میں متحدہ عرب امارات سے آنے والے شیخوں کی رہائش کا سارا نظام بھی سنبھالتے ہیں
بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر پسنی کے پرانے ایئرپورٹ سے پہلے ایک لمبی سڑک آتی ہے جہاں سٹرک کی ایک جانب باڑ اور دوسری جانب ریتلی زمین ہے۔
اس سٹرک پر تقریباً تین کلومیٹر چلنے کے بعد متحدہ عرب امارات کی نمبر پلیٹ والی ایک جیپ ہمارے سامنے آ کر رُکی اور اس میں بیٹھے ڈرائیور نے پوچھا کہ کیا ہم لوگ حاجی حنیف سے ملنے آئے ہیں؟
اب یہاں سے لے کر حاجی حنیف کے کمپاؤنڈ تک پہنچنے میں تقریباً تین اور کمپاؤنڈ گزرے جو جدید طرز پر بنے ہوئے تھے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ ہم لوگ پسنی کے راستے ابوظہبی پہنچ گئے ہیں۔
بظاہر ایک عام سے گیٹ سے گزرنے کے بعد بائیں ہاتھ کئی نئی اور پرانی گاڑیاں، ٹرک اور پیجارو گاڑیاں کھڑی دکھائی دیں اور دوسری جانب اُوپر دیکھنے پر ایک سیڑھی نطر آئی جہاں سے ایک آدمی دو کبوتروں کو اٹھائے اُتر رہا تھا۔
ہمیں ایک مہمان خانے میں بٹھا دیا گیا جہاں پر موجود ٹی وی پر متحدہ عرب امارات کا ایک چینل لگا ہوا تھا جس پر بازوں کی ریس دکھائی جا رہی تھی۔ اور ایک باز کے پہلے نمبر آنے پر عربی میں شاید اس کی تعریف بھی کی جا رہی تھی۔
حاجی حنیف کے آتے ہی کمرے میں عطر کی خوشبو پھیل گئی اور بیٹھتے ہی انھوں نے سنہ 1988 سے لے کر 1990 کی دہائی میں ہونے والی شکاری مہموں کی تصاویر مجھے تھما دیں۔حاجی حنیف مسلم سینٹا کلاز جیسے لگتے ہیں جو اپنے علاقے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
’1983 میں ہمارا ٹرانسپورٹ کا کام، سپیئر پارٹس کی دکان اور پان کا کیبن تھا۔ شیخ صاحب کو گاڑی کرائے پر دینے کے بعد وہ پھر دوبارہ ہمارے ہی پاس آئے۔ پھر میں اور میرا خاندان ان (شیخ) کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ ہمارے علاوہ دس گیارہ بندے اور ہیں جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ان کی رہائش کا بندوبست اور خیال رکھتے ہیں۔‘
اگر تاریخ دیکھیں تو زیادہ تر محققین پاکستان میں تلور کے شکار کی باقاعدہ شروعات کا وقت سنہ 1973 سے شروع کرتے ہیں۔ 1970 کی دہائی سے باقاعدہ طور پر تلور کے شکار کے لیے خلیجی ممالک سے عرب شیخ اور حکمران خاندانوں نے پاکستان آنا شروع کر دیا تھا۔
ان دوروں کو نجی دوروں کا نام دیا گیا، جسے پاکستان نے ماضی میں ان ممالک سے اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ اسی دہائی میں خلیجی ممالک میں تیل کی پیداوار کے نتیجے میں دولت آئی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے شیخ نجی دوروں کے لیے زیادہ سے زیادہ پاکستان آنے لگے۔
سنہ 1983 میں ہی شیخ سرور دوبارہ آئے، اور اس بار انھوں نے حاجی حنیف کو خود بلایا۔ کرتے کرتے حاجی حنیف سے ان کی دوستی ہو گئی۔
حاجی حنیف بتاتے ہیں کہ ’پھر شیخ نے میرے گھر میں اپنی تقریباً 20 گاڑیاں کھڑی کر دیں۔ تاکہ گاڑیوں کی حفاظت ہو سکے۔ اور ہماری ذمہ داری اور بڑھ گئی۔ شکار کے بعد یہ اپنی گاڑیاں واپس لے کر چلے جاتے تھے۔ لیکن اب کچھ گاڑیاں یہیں رہتی ہیں۔‘
سنہ 1984 میں حاجی حنیف نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اسی شہر میں یعنی پسنی میں اپنا گھر بنائیں۔
’اُس وقت یہ لوگ جنگلوں میں ٹینٹ لگاتے تھے۔ آہستہ آہستہ حکومتِ بلوچستان سے یہ جگہ الاٹ ہوگئی۔ شکار کرنے کے لیے بھی اور رہائش کے لیے بھی۔ اور پھر یہ بھی طے پایا کہ اُن کے آنے پر اُن کا خیال میں رکھوں گا۔‘
سنہ 1989 میں حکومتِ بلوچستان نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں الاٹمنٹ شروع کر دی۔ اس الاٹمنٹ کے بعد پسنی، پنجگور اور گوادر میں متحدہ عرب امارات سے شیخ آنے لگے۔ جھل جھاؤ (آواران کے پاس علاقوں) کو قطر کے شیخوں کو الاٹ کیا گیا، اور چاغی کے علاقے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے لیے الاٹ ہوئے۔
حاجی حنیف نے بتایا کہ ’ہم نے یہاں پر پیسے جمع کیے۔ یہاں سے گوادر، تربت اور پھر کوئٹہ دستاویز بھیج کر منظوری لی۔ اس وقت نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے وزیرِ اعلی تھے۔ پھر وہاں سے الاٹمنٹ آرڈر لیا۔ پھر گھروں یعنی شیخ کی رہائش گاہوں کے لیے تعمیرات شروع ہوئیں۔ پھر ہم لوگوں نے درخت لگائے۔ شیخ لیموں، چیکو، بہت شوق سے کھاتے ہیں تو اس لیے یہاں درخت لگائے گئے ہیں۔‘
اسی طرح پنجگور میں حاجی زاہد، گوادر میں شے صدیق اور لالا نذر کے خاندان متحدہ عرب امارات سے آنے والے دیگر عرب شیخوں کی حفاظت اور رہائش کا انتظام کرتے ہیں، جس کے عوض انھیں معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اور اسی مہمان نوازی کے نتیجے میں علاقہ مکینوں کے لیے شیخوں کی جانب سے کنواں، پانی کی سپلائی کے لیے پائپ، ڈسپنسری یا سکول قائم کیا گیا ہے۔
پسنی کے جس کمپاؤنڈ میں ہم انٹرویو کر رہے تھے اس کے بارے میں حاجی حنیف نے بتایا کہ سب سے پہلے اس گھر کی دیوار بنائی گئی۔ ’پھر ان کی گاڑیوں کا گیراج بنایا گیا۔ گیراج کے بعد ہم نے شیخ سے پوچھا کہ آپ کو بھی کوئی کمرے چاہییں؟ ان کی رضامندی پر یہاں پانچ سے چھ کمرے تعمیر کیے گئے۔‘
اس وقت صرف اس کمپاؤنڈ میں 25 افراد جبکہ شیخ کے آنے پر 35 افراد کام کرتے ہیں۔ اس کمپاؤنڈ کے باہر ہر شخص کو مختلف ذمہ داریاں سونپی جاتی ہے۔ جہاں ایک ملازم کو صرف تلور کو ڈھونڈنے کے لیے 35 ہزار روپے دیے جاتے ہیں، وہیں 35 دیگر افراد کو شیخ کے آنے پر 50 ہزار روپے فی کس تک مچھلی لانے، لیموں کے باغ کی حفاظت کرنے، باز کی ٹریننگ کرنے اور باتھ روم کی صفائی کرنے کے عوض دیے جاتے ہیں۔
حاجی حنیف کہتے ہیں کہ ’میرے تینوں بیٹے میری مدد کرتے ہیں۔ ایک بیٹا گیراج کی حفاظت کرتا ہے، ایک تلور کو ڈھونڈتا ہے اور تیسرا شیخ کے باڈی گارڈ کے طور پر حفاظتی کام سنبھالتا ہے۔ میں گھر کا انچارج ہوں۔ ان کی رہائش کا ذمہ دار ہوں اور بنیادی طور پر اُن کا ملازم ہوں۔‘
حاجی حنیف نے کھجور کی پلیٹ اپنے چھوٹے بیٹے سے لیتے ہوئے ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا ’یہ تمام تر سرگرمی ہفتہ دس دن کی ہوتی ہے اور اس دوران کئی گھر آباد ہو جاتے ہیں۔‘
خیموں کی تصاویر دکھاتے ہوئے حاجی حنیف نے بتایا کہ ’سنہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں ہم سب شکار کے لیے صبح سویرے نکل جاتے تھے۔ جس کے بعد ایک مقام پر باز کو ہوا میں چھوڑا جاتا۔ زیادہ تر ان کے لوگ پہلے ہی یہ پتا لگا چکے ہوتے ہیں کہ کس جگہ تلور کتنی دیر کے لیے آتا ہے۔‘
’جیسے ہی باز کو چھوڑا جاتا ہماری گاڑیاں اس کے پیچھے دوڑتیں ۔ اب ریت ہو یا جھاڑیاں آئیں، ہمیں گاڑی اسی باز کے پیچھے بھگانی ہوتی ہے۔ اور جیسے ہی باز تلور کو پکڑ لیتا ہے۔ ہم لوگ بھی اُتر جاتے ہیں اور انھیں خیموں میں بیٹھ کر اسے پکا کر کھا لیتے ہیں۔‘
موجودہ حالات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’اب ہم لوگ پہلے سے ہی تلور پکڑ کر رکھ لیتے ہیں کیونکہ اب ان کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔‘
لیکن پھر انھوں نے جلدی سے بتایا کہ اس کے لیے شیخ روس میں پیسے لگا کر اس پرندے کی نگہداشت اور بریڈنگ کا انتظام بھی کر رہے ہیں۔
یہ بتاتے ہی حاجی حنیف ہمیں پورے کمپاؤنڈ کا دورہ کرانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
’یہاں ہر کام کرنے کا معاوضہ ملتا ہے‘
کچن میں داخل ہوئے تو وہاں صفائی کا کام جاری تھا اور ایک شخص بالکل سامنے رکھے چھ بڑے چولہوں کی گیس چیک کرنے اور صفائی کرنے میں مگن تھا۔
کچن سے نکل کر ہم لوگ الٹے ہاتھ پر مُڑے جہاں ایک قطار سے کمرے اور اس کے بالکل برابر ایک پنجرہ بنا ہوا تھا۔ جہاں چار کمروں میں کپڑوں کی صفائی کے لیے واشنگ مشینوں کا انتظام کیا گیا تھا، وہیں دوسری جانب بڑے پنجرے میں دو آدمی ایک باز کو اٹھائے کھڑے تھے۔
اس باز کی آنکھوں پر چھوٹی سا خول چڑھایا گیا تھا اور اس کے سامنے سے ایک کبوتر کو ہٹایا جا رہا تھا۔
دو ٹرینرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حاجی حنیف نے بتایا کہ ’ان کو صرف اس باز کی ٹریننگ کے لیے یہاں ایک ماہ رکھا جاتا ہے۔ کبوتر کو اس باز کے آگے اڑا کر دیکھا جاتا ہے کہ وہ کتنی جلدی کبوتر کو دبوچ سکتا ہے۔ اگر باز ایسا نہ کر پائے تو ٹریننگ جاری رہتی ہے یا پھر نئے باز لائے جاتے ہیں۔ یہاں ہر کام کا معاوضہ ملتا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ مقامی لوگوں کو کام ملے۔‘
وہاں سے سامنے ہی ایک بڑے سے نارنجی کپڑے پر لیموں صاف کیے جا رہے تھے۔ اور اسی کے دوسری طرف باغ میں ایک مالی پانی دے رہا تھا۔
اس دوران حاجی حنیف نے بتایا کہ اکثر آس پاس تعینات فوجیوں کی بیگمات بھی ہمارا گھر دیکھنے کے لیے آتی ہیں۔ اب ہم لوگ اس تقریباً 20 ایکڑ کے پلاٹ کے بیچ و بیچ کھڑے تھے جب حاجی حنیف نے سوال کیا ’حالانکہ یہاں دیکھنے کے لائق کیا ہے؟‘
یہاں کے لوگوں پر اس شکار اور اس کے عوض معاوضہ دینے کا کوئی اثر پڑا ہے؟
اس سوال پر حاجی حنیف مختلف منصوبے اور ان کے تحت بننے والی چیزیں گنوانا شروع ہو گئے۔
’پسنی میں ڈسپنسری نہیں تھی تو شیخ نے وہ بنوا کر دی۔ کالج کو بس دی، گاؤں میں سکول کھولا، واٹر سپلائی دیا، اورماڑہ میں مسجد بنائی ہے۔ پسنی ہسپتال میں ایک حصہ تعمیر کیا ہے جو اب کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اب صوبائی حکومت اس کا کتنا خیال رکھتی ہے وہ تو ان کو بہتر پتا ہو گا۔‘
میں نے پوچھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی اسی طرح شیخ کا خیال کریں جیسا کہ آپ اتنے سالوں سے رکھتے آئے ہیں؟
’نہیں، نہیں میرا یہ خیال نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بچے اپنا کاروبار کریں۔ ابھی تو خیر میرا ہاتھ بٹاتے ہیں۔۔۔ لیکن میرا یہ دل نہیں ہے۔‘
حاجی حنیف یہ بات کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے رُک گئے کیونکہ ان کی آواز اچانک سے بھاری ہوگئی تھی۔ ’وہ اپنا مستقبل سنبھالیں، بزنس کریں، کاروبار کریں۔ میں تو بڈھا ہوگیا اُن کے ساتھ۔ وہ تو بڈھے نہیں ہوئے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہاں ایرانی سامان آتا ہے، کراچی سے سامان آتا ہے اور اس کی فروخت ہوتی ہے۔ اسی کی خرید و فروخت سے کاروبار چلتا ہے۔
’لیکن اہم بات یہ ہے کہ شاہی خاندان کا آنا ہمارے لیے، ہمارے علاقے کے لیے اور ملک کے لیے بہت اچھا ہے۔۔۔ ان کے آنے پر ہم تمام تر سامان انھیں بازاروں سے لیتے ہیں۔ ہم نے تو تمام تر تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اب صرف شیخ صاحب کا انتظار ہے کہ وہ کب آئیں گے۔‘
Comments are closed.