ترکی میں ’موٹاپے کا علاج‘ جو طبی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ اب موت کا باعث بن رہا ہے
موٹاپا کم کرنے کی شرجری، پہلے اور بعد
بی بی سی کی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ اب تک موٹاپہ کم کرنے کا آپریشن (گیسٹرک سلیو) کروانے کے لیے ترکی جانے والے سات برطانوی شہریوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ کئی افراد ترکی میں ’گیسٹرگ سلیو‘ آپریشن کروانے کے بعد مختلف طبی مسائل کے ساتھ واپس آئے ہیں۔ موٹاپے کو کم کرنے کے آپریشن میں مریض کے معدے کا ستر فیصد حصہ نکال دیا جاتا ہے۔
برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق موٹاپے کو ختم کرنے کے لیے گیسٹرگ سلیو آپریشن کیے جاتے ہیں لیکن چونکہ برطانیہ میں ایسے آپریشن کی تاریخ ملنے میں برسوں لگ جاتے ہیں اس لیے لوگ علاج کے لیے دیگر ممالک کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر چلنے والے پرکشش اشتہارات بھی لوگوں کو سلیو آپریشن کے لیے بیرون ملک سفر کرنے پر راغب کر رہے ہیں۔
بیلفاسٹ سے تعلق رکھنے والی کیٹی (فرضی نام) نے پہلی بار ایک آن لائن اشتہار دیکھنے کے بعد ترکی جانے کا فیصلہ کیا۔
بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح انھوں نے سوشل میڈیا پر وزن کم کرنے سے پہلے اور بعد کی ویڈیوز دیکھی تھیں۔ ٹک ٹاک ہیش ٹیگ #gastric اشتہار کو گذشتہ تین سالوں میں برطانیہ میں 292 ملین بار دیکھا گیا ہے۔
کیٹی اکتوبر 2021 میں سرجری کے لیے ترکی روانہ ہوئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس عمل کے فوراً بعد وہ تکلیف میں تھیں لیکن ترک کلینک نے انھیں بتایا تھا کہ ان کے معدے میں صرف گیس پھنسی ہوئی تھی۔
کیٹی شدید تکلیف میں واپس برطانیہ پہنچیں اور پھر انھیں کچھ روز بعد سیپسس (شدید انفیکشن) اور نمونیا کے ساتھ ہسپتال لے جایا گیا۔
کیٹی کو تقریباً ایک سال تک ہسپتالوں کا چکر لگاتے گزر گیا اور اس دوران وہ چھ دفعہ سیپسس کا شکار ہوئیں۔ بلآخر این ایچ ایس کے ڈاکٹروں نے ان کی پوری سلیو کو ہی نکالنے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس عمل کی وجہ سے اب مسلسل تھکی رہتی ہیں اور اپنی نوکری بھی برقرار نہیں رکھ پائی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میری اب تک کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ اس نے میری زندگی برباد کر دی ہے۔‘
بی بی سی نے مہینوں تک اس پر تحقیق کی۔
برطانوی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو علاج کی غرض سے ترکی گئے اور صحت کے متعدد مسائل کے ساتھ واپس آئے۔
نارتھمبریا ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے کنسلٹنٹ شان ووڈکاک کے مطابق ہر ہفتے ترکی سے ایک مریض نیوکاسل ایئرپورٹ پہنچ رہا ہے جہاں سے اسے سیدھا ہسپتال جانا پڑتا ہے۔
معروف سرجن اور برٹش اوبیسٹی اینڈ میٹابولک سرجری سوسائٹی کی کونسل کے رکن ڈاکٹر احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے ترکی سے واپس آنے والے ایسے مریضوں کا علاج کیا ہے جن کی وہ سرجری کی گئی جس کے بارے میں وہ انھیں بتایا بھی نہیں گیا تھا۔
اس علاج کے لیے کتنے لوگ ترکی جاتے ہیں، اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے سنہ 2019 سے سات ایسے برطانوی شہریوں کی موت ہو چکی ہے جو موٹاپے کے علاج کے لیے ترکی گئے تھے۔
ان میں سے ایک پچپیس سالہ جو تھورنلی بھی تھے۔ جو تھورنلی کے والدین کو ان کی موت کی خبر اس وقت ملی جب پولیس ان کے گھر آئی اور بتایا کہ ان کے بیٹے کی ترکی میں موت واقع ہو گئی ہے۔
پولیس افسران نے جو تھورنلی کے والدین کو ترکی کے ایک کلینک کا ٹیلی فون نمبر دیا جس پر جو تھورنلی کے والد نے فون کیا۔
ایک ڈاکٹر نے جو تھورنلی کے والد کو بتایا کہ ان کا بلڈ پریشر کم تھا جس کی وجہ انھیں دل کا دورہ پڑا ہے۔
جب جو تھورنلی کی لاش واپس برطانیہ پہنچی تو پوسٹمارٹم کرنے پر پتہ چلا کہ سرجری کے موقع پر اس کا خون بہنے سے موت واقع ہوئی ہے۔
جو تھورنلی کے والد بتاتے ہیں کہ انھوں نے ترکی میں ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کوئی جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
جو تھورنلی کے دوستوں کا کہنا ہے کہ اس نے انھیں بتایا کہ وہ وزن کم کرنے کی ہ کوشش میں ناکامی کی وجہ سے پریشان تھے۔
ترکی کے کچھ کلینکس میں اس علاج کے لیے بکنگ صرف ایک وٹس ایپ مسیج کے ذریعے ہو جاتی ہے۔
ترکی میں اس سرجری پر دو ہزار پاؤنڈ کی لاگت آتی ہے جبکہ برطانیہ کے پرائیوٹ ہسپتالوں میں اس پر دس ہزار پاؤنڈ خرچ آتا ہے۔
بی بی سی کو یہ پتہ چلا ہے کہ ترکی میں کلینک ایسے لوگوں کا بھی آپریشن کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں جنھیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
برطانیہ میں کسی کے موٹاپے کو کم کرنے کے آپریشن کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی باڈی میس انڈیکس (بی ایم آئی) چالیس ہو۔
کسی انسان کے بی ایم آئی کا تعین اس شخص کے قد اور وزن کو ایک فارمولے میں استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے جس میں ان کے وزن کو ان کے قد سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک صحت مند بی ایم آئی کو 20 اور 25 کے درمیان سمجھا جاتا ہے۔
ہم نے 27 ترک کلینکس سے رابطہ کیا کہ آیا وہ کسی ایسے شخص کو علاج کے لیے قبول کریں گے جن باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) نارمل ہو یعنی 20 اور 25 کے درمیان سمجھا جاتا ہے۔
ہم نے جن کلینکس سے رابطہ کیا ان میں سے چھ کلینکس 24.5 کے بی ایم آئی والے کسی شخص کی سرجری کرنے پر تیار تھے۔
اس کے علاوہ بی بی سی کو یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ کلینکس جنھوں نےعلاج سے انکار کیا تھا وہ مریضوں کو سرجری کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے وزن بڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
ایک نے کہا کہ ’سلیو کی سرجری کے لیے آپ کو چھ کلو گرام وزن بڑھانے کی ضرورت ہے. ایک اور شخص نے پوچھا: ’آپ کتنی جلدی وزن بڑھا سکتے ہیں؟‘
ڈاکٹر احمد کا کہنا ہے کہ یہ عمل ’لاپرواہی‘ اور ‘غیر اخلاقی’ اقدام ہے۔ میں نے کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کیا جہاں کسی کو اپنا وزن بڑھانے کے لیے زیادہ کھانے کے لیے کہا جا رہا ہو۔ انھیں عام بی ایم آئی پر کسی بھی قسم کی سرجری کی پیش کش نہیں کرنی چاہیے۔‘
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ موٹاپے کے نئے علاج کی آزمائش کر رہی ہے اور لوگوں کو تجویز دی کہ ترکی کا سفر کرنے والے افراد خطرات اور دیکھ بھال کے بعد اپنی ضروریات پر غور کریں۔
ڈاکٹر احمد کا کہنا ہے کہ اس سرجری کی فراہمی میں ناکامی کی وجہ سے این ایچ ایس کو موٹاپے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صحت کی پیچیدگیوں سے نمٹنے اور ناکام سرجری کے بعد مہنگی دیکھ بھال کے دوہرے اخراجات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ انگلینڈ میں وزن کم کرنے کی سرجریوں کی تعداد تین سال قبل 6818 آپریشنز سے ایک تہائی کم ہو کر 2022 میں صرف 4409 رہ گئی ہے۔
لیکن ڈاکٹر احمد کو شبہ ہے کہ وزن میں کمی کی ’سیاحت‘ جاری رہے گی جبکہ این ایچ ایس کی طویل انتظار کی فہرستیں بھی ایسی ہی رہیں گی۔
’اگر آپ کو صحت مند بنانے کے لیے علاج کے لیے اتنا طویل انتظار کرنا پڑے گا، تو ایسا کون کرے گا؟‘
Comments are closed.