بگرام اڈے پر امریکی فوج کی دو دہائیوں کی تصاویر
سنہ 2001 میں امریکی فوجی کرسمس عشائیے تناول کرنے سے پہلے بگرام فوجی اڈے پر۔
امریکہ اور نیٹو کے لیے افغانستان میں بگرام ایئر بیس (فوجی اڈہ) تقریبا دو دہائیوں سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف فوجی کارروائیوں کا مرکز بنا رہا ہے۔
اس اڈے پر دسمبر 2001 کے دوران امریکہ کی زیرقیادت اتحادی افواج منتقل ہوئی تھیں اور پھر اس جگہ کو ایک بہت بڑا فوجی اڈہ بنا دیا گیا جس میں دس ہزار فوجی رکھنے کی صلاحیت موجود تھی۔
حال ہی میں صدر جو بائیڈن نے 11 ستمبر تک تمام امریکی افواج کو واپس اپنے ملک لانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد امریکہ اور نیٹو افواج نے بگرام کو خالی کر دیا ہے۔
طالبان نے اڈے سے دستبرداری کی خبروں کا خیرمقدم کیا ہے۔
افغان فوج اب طالبان کے خلاف جاری لڑائی کے لیے بگرام اڈے کے ایک حصہ کو اپنے استعمال میں لے آئے گی۔
مئی 2002 میں ایک آرمی سارجنٹ اڈے کے قریب مقامی بچوں میں امریکی فوج کی افغانستان میں اچھی سرگرمیوں کے بارے معلومات کے اشتہارات تقسیم کر رہا ہے۔
دسمبر 2001 میں امریکی ایلیڈر کے اڈے کے باہر مقامی لوگوں کے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔
اس ایئر فیلڈ کو سوویت یونین نے سنہ 1950 میں تعمیر کیا تھا، جو 1980 کی دہائی میں روس کا مرکزی اڈہ بن گیا تھا، جب اس نے افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم کیا اور اس کے دفاع کا آغاز کیا۔
سنہ 2001 میں جب امریکہ نے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو امریکہ کو یہ اڈہ وراثت میں ملا تھا۔
اُس وقت بگرام کھنڈرات کی صورت اختیار کر چکا تھا، لیکن امریکیوں نے اس اڈے کو دوبارہ تعمیر کیا اور یہ بالآخر یہ پھیلتا ہوا 30 مربع میل (77 مربع کلومیٹر) تک پہنچ گیا۔
اس اڈے پر دو رن وے مو جود ہیں، جس میں نیا والا رن وے دو میل سے زیادہ لمبا ہے، جہاں بڑے کارگو اور بمبار طیارے اتر سکتے ہیں۔ ایک موقع پر اس اڈے پر تیراکی کے تالاب، سینما گھر اور گرم حمام اور یہاں تک کہ برگر کنگ اور پیزا ہٹ جیسے فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹس بھی موجود رہے ہیں۔
امریکی فوجیوں کی مارچ سنہ 2002 میں مشرقی افغانستان میں لڑائی کے بعد بگرام واپسی۔
جارج ڈبلیو بش مارچ سنہ 2006 میں اڈے پر فوجیوں کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے پوز بناتے ہوئے۔
برگر کنگ کا ایک ٹریلر سنہ 2004 میں بگرام پہنچایا گیا تھا۔
بگرام میں ان افراد کے لیے ایک جیل بھی شامل تھی، جنھیں امریکی فوجوں نے جنگ کے عروج پر حراست میں لیا تھا، جو کیوبا میں بدنام زمانہ امریکی فوجی جیل کے بعد افغانستان کے گوانتاناموبے کے نام سے جانا جاتا تھا۔
یہ ایک ایسی جگہ تھی جس کی نشاندہی امریکی سینیٹ کی ایک رپورٹ میں سی آئی اے کی طرف سے القاعدہ کے مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کے سلسلے میں ہوئی میں تھی، جب اس جیل میں کیے جانے والے تشدد کے استعمال کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
جارج ڈبلیو بش، باراک اوبامہ اور ڈونلڈ ٹرمپ سب نے بطور صدر اپنے دورِ اقتدار میں اِس اڈے کا دورہ کیا۔
امریکی فوجی جون سنہ 2006 میں اس اڈے پر خودکش حملے کے مقام کی حفاظت کرتے ہوئے۔
11 ستمبر کو ہونے والے حملوں کی دسویں برسی کے موقع پر ایک امریکی فوجی اڈے پر دعا کے دوران اپنا سر تھامے ہوئے ہے۔
بگرام کا فوجی اڈہ، سنہ 2013 میں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 650 امریکی فوجیوں کو ملک میں رکھے جانے کی توقع ہے، جو سفارتی اہلکاروں کو تحفظ فراہم کریں گے اور کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت میں مدد کریں گے۔ یہ ملک کے لیے ایک اہم نقل و حمل کا مرکز ہے۔
اڈے پر کنٹرول رکھنے کے لیے افغان فورسز کی قابلیت کابل میں سیکیورٹی کو برقرار رکھنے اور طالبان پر دباؤ رکھنے کے لیے بہت اہم ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے
افغان اُمور کے ماہر نشانک موٹوانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ‘بگرام اڈے سے غیر ملکی افواج کا انخلا اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان اب تنہا ہے، اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، اور وہ طالبان کے حملوں سے اپنا دفاع کرنے کے لیے تنہا ہے۔’
‘واپس اپنے اپنے وطن پہنچنے کے بعد، امریکی اور اتحادی افواج اب یہ دیکھیں گی کہ جن مرد اور خواتین کے ساتھ انھوں نے 20 برسوں سے زیادہ عرصے تک افغانستان کی تعمیرِ نو کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی اور جنگ لڑی، وہ سب کچھ کھو جانے کا خطرہ ہے۔’
پچھلے مہینے اڈے کے ساتھ والے قریبی گاؤں کا ایک شخص وہا کباڑ میں ملنے والے ایک ٹیڈی ریچھ کے ساتھ۔
جمعرات کے روز ایک افغان خاتون اڈے کی دیوار کے قریب سے گذر رہی ہے۔
رواں سال اپریل میں افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے سپاہی بگرام اڈے کے باہر ایک چوکی پر پہرا دے رہے ہیں۔
ان تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
Comments are closed.