باہمی مفادات یا حکمت عملی: امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت اور مدد کیوں کرتا ہے؟

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ماریانا سانچیز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز برازیل، واشنگٹن

’اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں۔۔۔‘ امریکی صدر جو بائیڈن نے حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ایسے کئی بیانات دیے ہیں جن میں وہ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کا اظہار کرتے نظر آئے۔

اور یہ حمایت بیانات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں بہت سے عملی اقدامات بھی سامنے آ چکے ہیں: حملے کے بعد کے ابتدائی چار دنوں میں امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے تین بار فون پر بات کی، امریکی بحریہ کے سب سے جدید طیارہ بردار جنگی جہاز ’جیرالڈ فورڈ‘ کو خطے میں بھیجنے کا حکم دیا اور اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ نامی دفاعی نظام کے لیے درکار سامان سمیت اسلحے سے لدا جہاز بھی اسرائیل بھجوایا۔

امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو اسرائیل کے دورے پر بھیجا گیا جبکہ امریکی صدر نے امریکی کانگریس سے اسرائیل کے لیے دفاعی امداد کا پیکج منظور کروانے سے متعلق بھی بیان دیا۔

امریکی سیاست میں یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ امریکہ کا اسرائیل کے حوالے سے یہ موقف دہائیوں پرانا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل سب سے زیادہ امریکی وسائل حاصل کرنے والا ملک ہے۔ رواں سال مارچ میں شائع ہونے والی امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1946 سے سنہ 2023 تک امریکہ نے اسرائیل کو 260 ارب ڈالر کی امداد دی جس میں سے نصف عسکری امداد تھی۔

اسرائیل کے لیے امریکی حمایت صرف دو طرفہ امور تک محدود نہیں رہی۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر امریکہ نے بارہا اسرائیل کے حق میں اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کیا ہے۔

سان فرانسسکو یونیورسٹی کے سینٹر آف مڈل ایسٹ سٹڈیز کے بانی پروفیسر سٹیفن زونز کا کہنا ہے کہ ’اقوام متحدہ کی تاریخ میں امریکہ نے 80 سے زیادہ بار ویٹو کا حق استعمال کیا جن میں سے نصف اسرائیل کو بچانے کے لیے تھے۔ کئی بار امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’تاریخی اعتبار سے زیادہ تر ممالک اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کو نشانہ بنانے پر بھی تنقید کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عام شہریوں کو بمباری سے ہلاک کرنا غلط ہے۔ لیکن دوسری جانب امریکہ اسرائیل کا نام نہیں لیتا، صرف فلسطینیوں پر تنقید کرتا ہے۔‘

حماس کے حالیہ حملوں کے بعد امریکی صدر نے اسرائیل کی جوابی کارروائیوں پر براہ راست تنقید سے گریز کیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں پانی سمیت بجلی، ایندھن اور خوراک کی فراہمی بھی بند کر دی گئی ہے اور یہاں شدید بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔

آخر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اتنے گہرے تعلقات کی بنیاد کیا ہے؟

تاریخی جڑیں

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ہولوکاسٹ کے نتیجے میں ایک اسرائیلی ملک کے قیام کے مطالبے کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہوئی جو یہودیوں کا 50 سالہ پرانا مطالبہ تھا۔ تاہم یہ ملک ایک ایسے خطے میں قائم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جہاں فلسطینی عرب صدیوں سے آباد تھے۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکہ اور سویت یونین دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے طور پر اُبھرے تھے جو عالمی اثرورسوخ کے لیے کوشاں تھے۔ اس وقت جنگ کی تباہ حالی کے باعث یورپی طاقتیں کمزور پڑ چکی تھیں۔ ایسے میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو دنیا میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی والے ملک کے طور پر امریکہ نے فورا اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

حالیہ اندازوں کے مطابق اسرائیل میں تقریبا 65 لاکھ یہودی جبکہ امریکہ میں 60 لاکھ یہودی آباد ہیں۔

اس وقت سویت یونین نے بھی اسرائیل کی حمایت کی تھی۔ تقریبا دو دہائیوں تک امریکہ اور سویت یونین کی جانب سے اسرائیل کی حمایت ایک پیمانے پر ہی ہوتی رہی حتی کہ جب اسرائیل نے 1956 میں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ سوئز بحران کے دوران مصر پر حملہ کیا تو امریکہ اور سویت یونین دونوں نے ہی اس حملے کی مذمت کی۔

تاہم ایک دہائی بعد امریکی پوزیشن میں سرد جنگ کے عروج کے دوران تبدیلی واقع ہوئی جب یہ واضح ہوا کہ خطے میں سویت یونین کے مفادات کو شکست دینے میں اسرائیل فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب اسرائیل نے چھ روزہ جنگ میں سویت یونین کے حمایت یافتہ عرب اتحاد، جس میں مصر، اردن اور شام شامل تھے، کو شکست دی تو اس کے بعد سے اسرائیل کے لیے امریکہ سفارتی اور معاشی امداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آنے والی دہائیوں میں اسرائیلی اور امریکی یہودی برادریوں میں تعاون بھی کافی اہم رہا۔

سنہ 2021 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر چار میں سے ایک امریکی یہودی اسرائیل میں رہ چکا ہے یا متعدد بار اسرائیل کا دورہ کر چکا ہے۔ اسے سروے کے مطابق ہر 10 میں سے چھ امریکی یہودیوں کا اسرائیل سے جزباتی لگاؤ سامنے آیا۔

سٹیفن زونز کہتے ہیں کہ دونوں معاشروں میں تعلق امریکی حمایت کی وضاحت کرنے میں مدد کرتا ہے۔

ایک طاقتور اقلیت

اگرچہ یہودی امریکی معاشرے میں اقلیت میں ہیں مگر ایک عام امریکی کے مقابلے میں یہ معاشی اور علمی اعتبار سے طاقتور ہیں۔

سنہ 2020 میں ہونے والے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی یہودیوں میں سے نصف کی سالانہ آمدن ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں اتنی آمدن رکھنے والے افراد کی تعداد صرف 19 فیصد ہے۔ امریکہ میں بسنے والے یہودیوں میں سے 23 فیصد کی سالانہ آمدن دو لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ 36 فیصد امریکی یہودی ہائی سکول کے بعد پوسٹ گریجوئیٹ ڈگری حاصل کر چکے ہیں جبکہ امریکہ میں عام طور پر صرف 14 فیصد لوگ ہی اتنے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔

معاشی درجے اور علمی قابلیت کی وجہ سے یہودی امریکی سیاست میں بھی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ امریکی کانگریس میں آبادی کے تناسب کے حساب سے یہودی کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ موجودہ اسمبلی میں 34 کانگریس اراکین یہودی ہیں جو مجموعی طور پر 6.4 فیصد بنتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی آبادی میں خود کو یہودی قرار دینے والے افراد صرف دو فیصد ہیں۔

دوسری جانب امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) ایک طاقتور لابی گروپ ہے۔ گذشتہ سال اس گروپ پر الزام لگا تھا کہ اس نے ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی امیدوار کی دوڑ میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاکہ فلسطین کے حمایتی بائیں بازو کے امیدواروں کو شکست دی جا سکے۔ اے آئی پی اے سی کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات اسرائیلی مفادات میں اٹھائے جاتے ہیں۔

تاہم سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکی سیاست میں یہودی ووٹرز یا سیاست دانوں کا کردار اتنا اہم نہیں کہ وہ عالمی سیاست میں ملک کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں۔

سنہ 2019 کے صدارتی الیکشن سے قبل گیلپ کے فرینک نیوپورٹ نے لکھا تھا کہ ’اگرچہ ری پبلکن امیدوار یہودی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر فتح کے لیے یہ کافی نہیں۔‘

اپنے تجزیے میں انھوں نے لکھا تھا ’یہودی بہتر تعلیم رکھنے کی وجہ سے مجموعی طور پر ووٹ دینے کے لیے کسی اور کمیونٹی کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں نکلتے ہیں۔ لیکن اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ چند ریاستوں میں ان کا ووٹ اہم ہے، جیسے فلوریڈا اور پنسلوینیا، تو یہ واضح ہے کہ صدارتی انتخابات میں مجموعی طور پر ان کا ووٹ فیصلہ کن نہیں اور نہ ہی بہت زیادہ فرق ڈال سکتا ہے۔‘

پروفیسر سٹیفن زونز کا کہنا ہے کہ ’رچرڈ نکسن، جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ وہ تین صدور تھے جنھوں نے اسرائیلی ایجنڈا کی سب سے زیادہ حمایت اور مدد کی لیکن انھیں امریکی میں یہودی کمیونٹی کی کُھلی حمایت حاصل نہیں تھی۔‘

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مفادات اور حکمت عملی

40 سال قبل امریکی سیکریٹری خارجہ الیگزینڈر ہیگ نے کہا تھا کہ ’اسرائیل امریکہ کا سب سے بڑا جنگی طیارہ بردار جہاز ہے جو ڈوب نہیں سکتا، جس پر کوئی امریکی فوجی سوار نہیں اور یہ ایک ایسے خطے میں موجود ہے جو امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔‘

امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ بیان آج کے اعتبار سے بھی اہم ہے اور اسرائیل کے لیے غیر مشروط امریکی حمایت کی وضاحت کرتا ہے۔

کونسل آف فارن ریلیشنز کی کالی روبنسن کا کہان ہے کہ ’مشرق وسطیٰ توانائی کی وجہ سے، ایرانی اثر ورسوخ کی وجہ سے اور سویت یونین کی وجہ سے امریکہ کے لیے بہت اہم ہے اور اسی لیے اسرائیل کی حفاظت کو یقینی بنانا ہر امریکی انتظامیہ کی ترجیح رہا ہے۔‘

سرد جنگ تو ختم ہو چکی لیکن امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات نہیں بدلے۔ اس کی ایک وجہ خطے میں درپیش اہم مسائل ہیں۔

ایران اپنے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے خطے میں امریکہ کے لیے بڑا درد سر رہا ہے جو اسرائیل پر حماس کے حملوں کا حامی بھی ہے۔ اگرچہ اسرائیل اور امریکہ نے حالیہ حملوں میں ایرانی کردار کے بارے میں اشاروں میں بات کی ہے لیکن اب تک امریکی خفیہ ادارے کوئی ٹھوس شواہد تلاش نہیں کر پائے۔ حال ہی میں ایران نے روس اور چین سے تعلقات مضبوط کیے ہیں اور امریکہ کے لیے اسرائیل کی اہمیت مذید بڑھ چکی ہے۔

پروفیسر سٹیفن زونز کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کے پاس طاقتور فضائیہ ہے جو خطے میں فضائی کنٹرول رکھتی ہے۔ انھوں نے لبنان، اردن سمیت کئی ممالک میں بائیں بازو اور اسلامی انقلابی تحریکوں کو کچلنے میں مدد کی۔ موساد اور سی آئی اے بھرپور تعاون کرتے ہیں اور اسرائیل ایسی پارٹیوں کو اسلحہ بھی فراہم کرتا ہے جن کو امریکہ سیاسی وجوہات کی بنا پر براہ راست مدد فراہم نہیں کر سکتا جیسا کہ نکارا گوا یا گوئٹے مالا یا کولمبیا۔ وہ ایک طرح سے امریکی مفادات کے حق میں ایک ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔‘

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

نئی نسل میں اسرائیلی حمایت میں کمی؟

پروفیسر سٹیفن زونز کا کہنا ہے کہ امریکہ میں یہ تاثر اب تک قائم ہے کہ اسرائیلی ایک ایسی قوم ہیں جنھوں نے صدیوں کی جلا وطنی کے بعد اپنی ریاست بنائی جو ایک جمہوری ملک ہے اور ارد گرد کی عرب آمریتوں سے کافی مختلف ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کئی معاملات میں امریکہ کے قیام کے اصولوں پر ہی بنا جیسا کہ ایک مذہبی اقلیت جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے آزاد اور خوشحال ملک بنایا۔‘

تاہم یہ تاثر امریکہ کی نئی نسل میں منتقل نہیں ہو رہا۔ جولائی 2022 کے ایک سروے کے مطابق 65 سے 60 کی عمر کے 67 فیصد امریکی اسرائیل کے بارے میں مثبت خیالات رکھتے ہیں لیکن 18 سے 29 سال کی عمر کے امریکی شہریوں میں یہ تناسب کم ہو کر 41 فیصد رہ جاتا ہے۔

اس کی ایک وجہ اسرائیل میں دائیں بازو کی حکومتوں کی پالیسیاں اور غرب اردن میں آباد کاریوں کا تسلسل بتایا گیا ہے۔

پروفیسر سٹیفن زونز کے مطابق ’نوجوان آبادی میں اسرائیلی رویے سے جڑے منفی تاثرات اب تک امریکی سیاست پر اثر انداز نہیں ہو سکے کیوں کہ سیاسی اور حکومتی میدان میں فیصلے کرنے والے اب تک اس نسل کے والدین اور دادا کی نسل کے لوگ ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ