انڈیا: سورت کی اربوں ڈالر کی ہیروں کی صنعت جسے غیر یقینی نے گرہن لگا دیا
’چار پانچ ماہ پہلے کمپنی کے مینیجر نے فون کیا اور کہا کہ ملازمین کی تعداد کم کرنی ہے، اس لیے آپ استعفیٰ دیں۔
’میں گھر میں اکیلی کمانے والی ہوں، شوہر نہیں ہے، دو بچے سکول میں پڑھتے ہیں۔ ایک بچہ معذور ہے، باپ نہیں ہے، جبکہ ماں کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہے۔ جب سے میری نوکری گئی ہے میں اب بھی نوکری کی تلاش میں ہوں۔‘
یہ اس خاتون کا درد ہے جو انڈیا کے شہر سورت کی ہیروں کی کمپنی میں کام کرتی تھی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہیروں کی صنعت میں کساد بازاری ان جیسی کئی خواتین کو متاثر کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق سورت کی ہیروں کی صنعت میں سست روی کی وجہ سے پچھلے کچھ مہینوں میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس سے پہلے کہ انڈسٹری کورونا بحران سے نکلتی روس یوکرین جنگ اور اس دوران دنیا بھر میں کساد بازاری نے صورتحال مزید خراب کر دی ہے۔
دنیا میں فروخت ہونے والے 90 فیصد ہیروں کو گجرات کے جنوبی شہر سورت میں کاٹ کر پالش کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق سورت کی ہیروں کی صنعت کی مالیت تین لاکھ کروڑ روپے (سالانہ) ہے اور یہ ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتی ہے۔
سورت کی ہیروں کی صنعت نے پورے گجرات میں 12-15 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔
نئے بحران کے دوران ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھنے والی ایک خاتون ملازم نے کہا کہ ’اب تک ہزاروں لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ کساد بازاری جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے سیٹھ کا سامان نہیں بک رہا ہے، اس لیے عملے نے خام مال کی قیمت بھی بڑھا دی ہے۔ ایسے لوگوں کو رکھا جا رہا ہے جو دو یا تین طرح کے کام کر سکیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جب مجھے برطرف کیا گیا تو مجھے کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ میں کافی عرصے سے نوکری کی تلاش کر رہی ہوں، لیکن مجھے کوئی کام نہیں ملا۔‘
اس صورتحال کی وجہ سے زندگی میں جو مشکل صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’مشکلیں تو آرہی ہیں لیکن کوئی چارہ نہیں فیکٹری والوں کا کہنا تھا کہ جب ہیرا آئے گا، مزید کام ہو گا تو بلا لیں گے لیکن مہینوں بعد بھی کوئی فون نہیں آیا۔‘
سورت کی ہیروں کی صنعت میں مندی کا سامنا کرنے والی ایک اور خاتون کارکن نے اپنی حالت زار بیان کی، لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
انھوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’اگر فیکٹری کے مالک کو برا لگا تو اس نے دوبارہ کام پر نہیں بلانا۔‘
حال ہی میں امریکہ نے روسی کان کن کمپنی ’الروسا‘ پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ یہ پابندیاں یوکرین کی جنگ کے بعد روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی صورت میں لگائی گئی تھیں۔
’الروسا‘ ہیروں کا دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔ الروسہ سے ہیرے اینٹورپ کے راستے سورت آتے ہیں۔
سورت میں ان ہیروں کو کاٹ کر پالش کیا جاتا ہے۔ سورت آنے والے کھردرے ہیروں میں سے تقریباً 30 فیصد روسی کانوں سے آتے ہیں۔
خراب ہونے کا خطرہ
جنوبی گجرات چیمبر آف کامرس کے سابق صدر پروین بھائی ناناوتی نے کہا کہ ’روس یوکرین جنگ نے پوری دنیا میں بین الاقوامی تجارت کو متاثر کیا ہے۔ پہلے امریکہ نے الروسا پر پابندی عائد کی اور اب بیلجیئم بھی اس پر پابندی لگانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘
بیلجیئم کی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے روس سے بیلجیم میں ہیروں کے داخلے پر پابندی کی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔
حال ہی میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے بیلجیئم کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے روسی ہیروں پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں دکان میں ہیرے سے زیادہ امن ضروری ہے۔‘
اینٹورپ کو ہیروں کی عالمی تجارت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ زیلنسکی نے بیلجیئم کی پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ اینٹورپ کو روسی ہیروں کی تجارت پر پابندی لگائے۔
امریکہ کے بعد بیلجیئم کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پراوین ناناوتی کا کہنا ہے کہ ’اگر ایسا ہوا تو ہیروں کی 30 فیصد تجارت منہدم ہو جائے گی۔
’جنگ سے تجارت پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے اور اگر بیلجیئم نے بھی پابندیاں لگائیں تو صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اینٹورپ کے بعد اب کھردرے ہیرے دبئی سے بھی آتے ہیں۔ انڈیا اور خاص طور پر سورت میں، کھردرے ہیرے روس، جنوبی افریقہ اور کینیڈا اور دیگر جگہوں سے آتے ہیں۔
تاہم، مصنوعی ہیروں کو متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سرمایہ کاروں میں شکوک و شبہات اور تشویش بھی ہے، اس لیے زیادہ تر سرمایہ کاری روک دی گئی ہے۔
امریکی اور یورپی سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں الروسا کی ٹیم سورت آئی تھی۔ ایسے میں قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ وہ یہاں اپنا دفتر کھولیں گے۔
سورت ڈائمنڈ ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ممبر اور گجرات جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل کے ریجنل ڈائریکٹر دنیش ناودیا کہتے ہیں کہ جب ہیروں کی طلب سے کم رسد ہوتی ہے تو مسائل کا ہونا فطری بات ہے۔
دنیش ناودیا کا کہنا ہے کہ ’میں نے اینٹورپ میں تاجروں سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں پابندی کے حوالے سے بیلجیئم کی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی وضاحت موصول نہیں ہوئی ہے۔ روس کی الروسا کمپنی پر پہلے ہی امریکہ کی جانب سے پابندی لگائی جا چکی ہے۔ بیلجیئم حکومت کا یہ اقدام تشویشناک ہے۔‘
ان کے بقول ’افریقی کانوں نے پیداوار میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ روس سے آنے والا خام مال پتلا ہے اور اس میں زیادہ ہیرے پائے جاتے ہیں۔ جب کہ 29 فیصد کھردرے ہیرے روس سے نہیں آتے، اس کا مطلب صرف 71 فیصد سپلائی ہے۔ قدرتی طور پر یہ کاروبار کو متاثر کرنے والا ہے۔‘
اس صورتحال سے پیدا ہونے والے بحران کے بارے میں دنیش ناودیا کہتے ہیں کہ ’اس کا اثر مینوفیکچرر پر بھی پڑتا ہے۔
’مثال کے طور پر 100 ملازمین کے ساتھ چلنے والی فیکٹری کو ملازمین کی تعداد کم کرنی پڑتی ہے۔ کاروبار کم ہوتا ہے اور کام بھی کم ہوتا ہے۔‘
بی بی سی گجراتی نے سورت کے ایک ہیروں کے تاجر سے بھی بات کرنے کی کوشش کی جو روس کی الروسا کمپنی سے کھردرے ہیرے خریدتا تھا۔
امریکی پابندیوں کا دوہرا نقصان
سورت میں ’لکشمی ڈائمنڈ‘ کمپنی کے چونی بھائی گجیرا نے کہا کہ ’ہم روس سے کھردرے ہیرے منگواتے تھے، وہاں الروسا سے خام مال ملتا تھا۔ لیکن جنگ کے بعد یہ کافی حد تک رک گیا ہے۔ پابندیاں لگائیں تاکہ امریکی شہری روس سے ہیرے نہ خرید سکیں، اسی لیے اگر کھردرے ہیرے روس سے انڈیا اور خاص طور پر سورت آتے ہیں تو پھر اسے تیار کرکے کس کو بیچا جائے یہ بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ امریکہ تیار ہیروں کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی ہے۔‘
کارکنوں کو نکالنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’سپلائی کم ہے اور ڈیمانڈ بھی کم ہے۔ اور روس سے جو خام مال آتا ہے وہ مہنگا ہے۔
’اس وقت کام صرف ڈی ٹی سی سائٹس اور کینیڈا سے آنے والے سامان پر ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے عملہ کم کرنا پڑا۔‘
ماہرین کا خیال ہے کہ سورت کی ہیروں کی صنعت کو عالمی غیر یقینی صورتحال، روس یوکرین جنگ اور دیگر عوامل نے گرہن لگا دیا ہے۔
صنعت سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک پر جنگ کے اثرات کے باعث تیار مال کی فروخت میں مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہیروں کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے بحران بڑھ گیا ہے۔
سورت میں رتنا کلاکار وکاس سنگھ کے صدر بلو بھائی ویکریا بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے اس کے اثرات جاری ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کام کم ہو گیا ہے۔ پہلے جیسا کام دستیاب نہیں ہے۔ کساد بازاری جاری ہے۔ جن کی نوکریاں کہیں اور گئی ہیں ان کو واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
جیمز اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل (جی جے ای پی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق کٹے ہوئے اور پالش شدہ ہیروں کی برآمدات میں مارچ میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی۔
فروری کے مہینے میں بھی یہی صورتحال تھی۔ مارچ میں کل برآمدات 1.6 ارب ڈالر رہیں۔ اس عرصے کے دوران، ہیرے کی کارکردگی دیگر جواہرات اور زیورات کے مقابلے سب سے زیادہ خراب رہی جس کی برآمدات میں زبردست کمی واقع ہوئی۔
Comments are closed.