امریکہ کا دیوالیہ ہونا دیگر عالمی معیشتوں کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ڈیئربیل جورڈن
  • عہدہ, بزنس رپورٹر، بی بی سی نیوز

امریکی حکومت اس وقت تاریخ کا سب سے اہم اور پرخطر داؤ کھیل رہی ہے۔ اگر ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز امریکہ کو مزید قرض لینے کی اجازت نہیں دیتے یا سادہ الفاظ میں قرض حاصل کرنے کی بالائی حد میں مزید اضافہ نہیں کرتے تو 31.4 کھرب ڈالرز کی مقروض دنیا کی سب سے بڑی معیشت دیوالیہ ہو جائے گی۔

امریکہ کو دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے یکم جون تک قرض کی حد بڑھانے سے متعلق حتمی معاہدے پر پہنچنا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتے ہیں تو امریکی چانسلر جرمی ہٹ کے بقول اس کے اثرات ’بہت تباہ کن‘ ہو سکتے ہیں۔

مگر امریکہ کو درپیش اس صورتحال کا امریکی و عالمی معیشت اور آپ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

معیشت پر اثرات

ماہرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ امریکہ قرض کی وجہ سے دیوالیہ نہیں ہو گا۔

تاہم اگر ایسا ہو جاتا ہے تو انوسٹمنٹ بینک پانمور گورڈن کے چیف اکنامسٹ سائمن فرنچ سنہ 2008 میں عالمی سطح پر بینکنگ کی شعبے میں بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تو یہ عالمی معاشی بحران کو ایک ٹی پارٹی بنا دے گا۔‘

اگر امریکہ اپنے قرض حاصل کرنے کی حد کو نہیں بڑھاتا تو وہ مزید قرض نہیں کر سکے گا اور اس کے بعد اسے حکومت کے خرچے پر اپنی عوام کو دی جانے والی مراعات، سہولیات اور دیگر ضروری ادائیگیوں کے لیے پیسوں کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اے جے بیل میں انوسٹمنٹ ڈائریکٹر روس مولڈ کا کہنا ہے کہ ’ایسے میں امریکہ لوگوں کو ویلفیئر کے تحت رقوم کی ادائیگی بند کر دے گا اور لوگوں کی مالی مدد روک دی جائے گی جو ان کی خرچ کرنے کی صلاحیت اور اپنے بلوں کی ادائیگی کو متاثر کرے گی، لہذا اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔‘

وائٹ ہاؤس کی اقتصادی امور کے مشیروں کی کونسل نے تخیمنہ لگایا ہے کہ اگر طویل عرصے تک حکومت قرض حاصل کرنے کی حد بڑھانے کے کسی معاہدے ہر نہیں پہنچتی تو اس سے امریکی معیشت اپنے موجودہ حجم سے 6.1 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیمبرج یونیورسٹی میں کوئنز کالج کے صدر اور ماہر اقتصادی امور محمد ال ایرین کا کہنا ہے کہ ’دیوالیہ پن شاید امریکی کسادبازاری کا صرف نقطہ آغاز ہو۔‘

جس کے امریکہ کے اہم تجارتی شراکت دار یعنی برطانیہ سمیت دنیا بھر پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ عالمی سطح پر سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس صورت میں یہ دنیا بھر سے کم چیزیں خریدے گا۔‘

ال ایریان نہیں سمجھتے کہ امریکہ میں کساد بازاری برطانیہ میں بھی معیشت کو سست کر دے گی لیکن سائمن فرنچ کو اس کا ’100 فیصد‘ یقین ہے۔

شرح سود میں اضافہ ہو سکتا ہے

سائمن فرنچ کا کہنا ہے کہ امریکہ کا دیوالیہ ہونا نہ صرف تجارت کو نقصان پہنچائے گا بلکہ برطانیہ میں رہن کی شرح سود میں بھی مزید اضافہ کرے گا اور اس سے برطانیہ میں بے روزگاری میں اضافہ بھی سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کافی تباہ کن ہو گا۔‘

لیکن امریکہ میں معاشی مسائل برطانیہ میں گھر کے لیے جانے والے قرضوں کو مزید مہنگا کیوں کریں گے؟

جو کوئی حکومت مزید قرض لینا چاہتی ہے تو وہ مارکیٹ میں ایک بانڈ یا آئی او یو جاری کرتی ہے۔ امریکہ میں اس قسم کے حکومتی بانڈ کو ٹریریئری بانڈ کہا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں اسے گلٹ کہتے ہیں۔ اگر کوئی سرمایہ دار حکومت سے گلٹ یا ٹریرئیری بانڈ خریدتا ہے تو وہ حکومت سے اس پر سود وصول کرتا ہے۔

سائمن فرنچ کا کہنا ہے کہ ’اگر امریکی حکومت اپنا قرض واپس نہ کر سکے یا حتی کہ اس پر سود کی رقم کی ادائیگی بھی نہ کر سکے تو سرمایہ کار اس کو دیکھتے ہوئے کہیں گے کہ اگر امریکہ دیوالیہ ہو سکتا ہے تو برطانیہ بھی ہو سکتا ہے۔

ایسے میں سرمایہ کار برطانیہ کے قرض کے لیے جاری کردہ گلٹ کو خریدتے وقت زیادہ شرح سود کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’قرض پر شرح سود میں اضافہ ، چاہے یہ رہن کا قرض ہو یا دوسرا قرض، وہ (سرمایہ دار) اس میں حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اور معاشی صورتحال اور ممکنہ دیوالیہ ہونے کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا حصے ضرور لیں گے۔ لہذا تما تر قرض کی سہولیات راتوں رات بہت مہنگی ہو جائیں گی۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے

عالمی سطح پر ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ خوردنی تیل، پیٹرول، اناج خریدنے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر امریکی حکومت دیوالیہ ہوتی ہے تو ڈالر کی قدر میں تیزی سے کمی آئے گی۔

سائمن فرنچ کہتے ہیں کہ ’یہ خبر امریکہ سے باہر کی دنیا کے لیے تو اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن سرمایہ داروں کو ان اشیا کی قیمتوں کا مقامی سطح پر تعین کرنے میں مشکل ہو گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ کے دیوالیہ ہونے سے سرمایہ داروں میں افراتفری پھیل جائے گی اور وہ سوچیں گے کہ کیا اب اگلی باری جاپان کی ہے یا برطانیہ کی یا جرمنی کی؟ ان کے علاوہ اب اور کون سا ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یقیناً ہمیں ہر چیز کی قیمت کا تعین دوبارہ سے کرنا پڑے گا اور معاشی زبان میں اسے رسک پریمیئم کہا جاتا ہے۔ آپ رسک پریمیئم کو موجودہ قیمت میں شامل کرتے ہیں اور اس وجہ سے بریڈ اور دیگر اشیا مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اگر خوراک اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا تو یہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گا۔

پینشن بھی متاثر ہو سکتی ہے

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس مولڈ کے مطابق دنیا بھر کی 60 فیصد سٹاک مارکیٹوں میں امریکی کمپنیوں کے حصص شامل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب ہے کہ اس کے قوی امکانات ہیں کہ اس ممالک کے افراد کی پینشنوں میں امریکی حصہ ہو اور شاید انھیں اس بات کا علم بھی نہ ہو۔

امریکہ کے دیوالیہ ہونے پر عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹ بری طرح متاثر ہو گی۔ لیکن یہ کوئی بہت بری خبر نہیں ہے۔

سنہ 2011 میں بھی ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز ملک کے ممکنہ دیوالیہ ہونے سے چند گھنٹوں قبل تک قرض کی حد مقرر کرنے پر ڈیڈ لاک کا شکار تھے۔ اس وقت بھی امریکی سٹاک مارکیٹ گر گئی تھی۔

لیکن یہ صورتحال قلیل مدتی تھی اور کمپنیوں کے حصص جلد ہی مزید گراوٹ سے بچ گئے تھے۔

معاشی ماہر روس مولڈ کا خیال ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔ اگرچہ اب پنشن حاصل کرنے والے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں، ’اگر آپ اسے اخراجات کے لیے آخر میں استعمال کرنے کے لیے نکالتے ہیں تو ابھی آپ کے پاس اس خسارے کو پورا کرنے کا وقت ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ