امریکہ کا سلیکون ویلی بینک دیوالیہ کیسے ہوا اور دنیا میں بینکوں کے شیئرز کی قیمتیں کیوں گِر رہی ہیں؟
امریکہ کا سلیکون ویلی بینک دیوالیہ کیسے ہوا اور دنیا میں بینکوں کے شیئرز کی قیمتیں کیوں گِر رہی ہیں؟
- مصنف, ڈینیئل تھامس اور نتالی شرمن
- عہدہ, بزنس رپورٹر، بی بی سی نیوز
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے امریکہ کے مالیاتی نظام کے محفوظ ہونے کی یقین دہانی کے باوجود سوموار کو دنیا بھر کے بینکوں کے شیئرز (حصص) کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔
یہ اس وقت ہوا جب امریکہ کے قرض دینے والے سیلیکون ویلی بینک (ایس وی بی) اور سگنیچر بینک دیوالیہ ہو گئے اور امریکی حکام کو صارفین کی سرمایہ کاری کو محفوظ کرنے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانا پڑے۔
ان دو بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے بینکنگ سسٹم کی حفاظت کے لیے ’تمام ضروری اقدامات‘ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
امریکی صدر کی اس یقین دہانی کے باوجود سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ دوسرے بینکوں بھی دیوالیہ پن کی اس لہر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اور بظاہر انھی خدشات کی وجہ سے عالمی سطح پر بینکوں کے شیئرز کی قیمتوں میں تیزی سے کمی واقع ہونے لگی ہے۔
منگل کے روز جاپان کے ٹوپکیس بینکس کا شیئر انڈیکس سات فیصد تک گِرا اور منگل کا دن اس بینک کے لیے گذشتہ تین برسوں کے دوران بدترین تھا۔
سوموار کے روز سپین کے سینٹینڈر اور جرمنی کے کامرز بینک نے ایک موقع پر اپنے حصص کی قیمتوں میں 10 فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھی۔
چھوٹے امریکی بینکوں کو دیگر بڑے یورپی بینکوں کے مقابلے میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ سب اس یقین دہانی کے باوجود ہوا جو ان بینکوں نے اپنے صارفین کو دے رکھی تھی کہ انھیں ممکنہ نقصانات سے بچانے کے لیے بینکوں کے پاس کافی وسائل دستیاب ہیں۔
حصص بازار کے اتار چڑھاؤ نے ان قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے کہ امریکہ کا فیڈرل ریزرو اب شرح سود میں اضافہ جاری رکھنے کے اپنے منصوبوں کو روک دے گا، جو کہ افراط زر پر قابو پانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ جن لوگوں اور کمپنیوں نے سلیکون ویلی بینک میں رقم جمع کرائی ہے وہ سوموار سے اپنی تمام نقدی تک رسائی حاصل کر سکیں گے کیونکہ حکومت نے ان کے سرمائے کی مکمل حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
اس صورتحال کے پیش نظر بہت سے کاروباری صارفین کو فنڈز منجمد ہونے کے بعد اپنے عملے اور سپلائرز کو ادائیگی نہ کرنے کے امکان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بی بی سی کے شمالی امریکہ کے ٹیکنالوجی نمائندے جیمز کلیٹن نے کیلیفورنیا کے مینلو پارک میں ایس وی بی بینک کی برانچ کے باہر اپنے فنڈز تک رسائی کے لیے سارا دن قطار میں کھڑے لوگوں سے بات کی۔
چونکہ بینک اب وائر ٹرانسفر کی سہولیات فراہم نہیں کر رہا تھا اس لیے وہ اپنی رقم کیشیئر چیکس کے ذریعے نکال رہے تھے۔
سلیکون ویلی بینک کیسے دیوالیہ ہوا؟
ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کو قرض دینے کے لیے عالمی سطح پر معروف سلیکون ویلی بینک کو امریکی حکام نے جمعہ کے روز بند کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اس بینک کے اثاثے بھی ضبط کر لیے۔ سنہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد یہ کسی امریکی بینک کی سب سے بڑی ناکامی تھی۔
یہ بینک زیادہ سود کی شرح سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے اپنے اثاثوں کی فروخت سے رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بینک کے معاشی پریشانیوں میں گھرنے کی بات سے صارفین اپنے فنڈز کو نکالنے کے لیے دوڑ پڑے جس سے بینک میں نقدی کا بحران پیدا ہو گیا۔
اتوار کے روز امریکی حکام نے نیویارک میں سگنیچر بینک کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا، جس کے بہت سے کلائنٹس کرپٹو کرنسی کے لین دین میں شامل تھے اور اسی وجہ سے اسے سب سے زیادہ خطرے والے ادارے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
صدر بائیڈن نے وعدہ کیا کہ ڈپازٹس کو کور کرنے سے ٹیکس دہندگان پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا کیونکہ اسے اس فیس سے پورا کیا جائے گا جو ریگولیٹرز بینک سے لیتے ہیں۔
اعتماد بحال کرنے کی ایک کوشش کے طور پر امریکی ریگولیٹرز نے بینکوں کے لیے بحران میں ہنگامی فنڈز لینے کے ایک نئے طریقے کو بھی متعارف کرایا ہے۔
اس کے باوجود یہ تشویش ہے کہ گذشتہ ہفتے ایک اور امریکی قرض دہندہ ’سلور گیٹ بینک‘ کے بیٹھ جانے کے بعد جو مشکلات سامنے آئی ہیں وہ دوسری فرموں کے لیے بھی مشکلات کی علامت ہیں۔
کیپٹل اکنامکس کے پال ایش ورتھ نے کہا ہے کہ امریکی حکام نے ’اس چھوت کی بیماری (دیوالیہ پن) کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جارحانہ انداز میں کام کیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’لیکن متعدی بیماری ہمیشہ ہی غیر معقول خوف کی وجہ بنتی ہے۔ اس لیے ہم اس بات پر زور دیں گے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ اقدامات کافی ہوں گے۔‘
سٹاک بروکرز اے جے بیل کے مالیاتی تجزیہ کار ڈینی ہیوسن نے کہا کہ ’راحت کی پہلی لہر کی جگہ ان خدشات نے لے لی ہے کہ زیادہ شرحوں کا دور کچھ بینکوں کے لیے ہضم کرنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے جتنا پہلے سوچا گیا تھا۔‘
سیاسی نتائج
سیلیکون ویلی بینک کی ناکامی نے دوبارہ اس قسم کے مباحث کو جنم دیا ہے جو سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد دیکھے گئے تھے۔ اور یہ مباحث اس بارے میں ہیں کہ حکومت کو بینکوں کو ریگولیٹ کرنے اور ان کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول کا کہنا ہے کہ بینک کے اس طرح سے بیٹھ جانے کا مکمل اور شفاف طور پر جائزہ لیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
صدر بائیڈن نے سخت قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ کاروں اور بینک رہنماؤں کو بخشا نہیں جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’انھوں نے جان بوجھ کر خطرہ مول لیا۔۔۔ اور سرمایہ داری تو اسی طرح کام کرتی ہے۔‘
اس کے باوجود ریپبلکن سینیٹر ٹم سکاٹ نے، جنھیں 2024 میں ممکنہ صدارتی امیدوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس بچانے والے اقدام کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا: ’حکومتی مداخلت کا کلچر مستقبل کے اداروں کو ضرورت سے زیادہ خطرات مول لینے کے بعد حکومت پر انحصار کرنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتا۔‘
شمالی امریکہ میں بزنس کی نمائندہ میشیل فلیوری کا تجزیہ
ایک بار پھر لوگ بینکوں کو لے کر پریشان ہیں۔ ایک بار پھر بیل آؤٹ کے بارے میں شدید بحث چھڑ گئی ہے۔ لیکن یہ سنہ 2008 نہیں ہے۔
2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بینکوں کی اصلاح پر توجہ مرکوز کی گئی تھی اور اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ’یہ اتنا بڑا ہے کہ ناکام نہیں ہو سکتا۔‘ آج مسائل درمیانے اور چھوٹے سائز کے بینکوں کے گرد مرکوز ہیں۔
دیوالیہ ہونے والے دونوں بینکوں یعنی سیلیکون ویلی بینک اور سگنیچر بینک میں ایک ہی چیز مشترک تھی اور وہ ان کے کاروباری ماڈلز تھے جو ایک شعبے کے گرد ہی بہت زیادہ مرتکز تھے اور وہ ایسے اثاثوں کے لیے زیادہ کمزور تھے جن کی قدریں بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے دباؤ میں آتی تھیں۔
ان پر تنقید یہ ہے کہ انھیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے تھا لکین ایسا نہیں ہوا۔ امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول نے شرح سود میں اضافے کے لیے فیڈرل ریزرو کے ارادے کا اشارہ دینے کے لیے کافی حد تک کام کیا ہے۔
چونکہ زیادہ تر بینک بہت زیادہ متنوع ہیں اور ان کے پاس کافی نقد رقم بھی ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ باقی بینکنگ سیکٹر کے لیے خطرہ کم ہے۔ لیکن اس بات سے ریگولیٹرز یہ دیکھنے سے باز نہیں رہیں گے کہ کیا غلط ہوا اور کن اصولوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے بینکوں پر دباؤ ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی معیشت کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور مہنگائی کے خلاف جنگ کا نتیجہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
Comments are closed.