نئے ورلڈ آرڈر کی چاپ؟

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, عاصمہ شیرازی
  • عہدہ, صحافی و تجزیہ کار

ایک ایسے وقت میں جب دُنیا گول گول گھومتے گھومتے اُلٹا چکر لگا رہی ہے، جب انہونی ہونی میں بدل رہی ہے، عجائب رونما ہو رہے ہیں، ہم وہیں موت کے کنویں کے مسافر دائرے میں موت کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ہم سمندر میں ہیں اور ساحل سے لڑ رہے ہیں، ہمالیہ پہ کھڑے ہیں اور آسمان سے جھگڑ رہے ہیں، لہروں کی اُٹھان کے مخالف، ہواؤں کی سرسراہٹ پر تنقید، فضاؤں کی وسعتوں سے ناخوش۔۔۔ نہ خود کو بدلنے کو تیار، نہ ہی منزل کا پتہ لگانے کی لگن۔

ہمارے اردگرد بہت کچھ بدل رہا ہے۔ کیا دُنیا نئے ورلڈ آرڈ کی جانب بڑھ رہی ہے یا امکان کے خانے میں کچھ قُفل کُھل رہے ہیں؟

اس گزرے ہفتے میں وہ ہوا ہے جس کی نہ توقع تھی اور نہ ہی امکان۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ دو ممالک جن کی ’کٹی‘ اقوام عالم میں مشہور تھی اور وہ جو ایک دوسرے کو دیکھنا تک گوارا نہ کرتے تھے اب تعلقات بحال کر رہے ہیں، یعنی ایران اور سعودی عرب نے برسوں سے منقطع سفارتی رابطے بحال کر لیے اور اُن دونوں کے درمیان ہنستے مُسکراتے چینی سفارتکار جو کہانی سُنا رہے ہیں وہ دُنیا کے لیے دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی۔ چین نے یہ انہونی کیسے کی اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چین نے ایسا کیوں کیا؟

ایک ایسے وقت میں جب ایک بحران خطے کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور کئی تبصرہ نگار اس بات کی پیش گوئی کر رہے تھے کہ اسرائیل اور ایران کے مابین لڑائی کسی بھی لمحے شروع ہو سکتی ہے تو عین اُس لمحے چین نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسے معاہدے کی بُنیاد رکھی جس پر آج اقوام عالم انگُشت بدنداں ہے۔

چین توانائی کے لیے دونوں ملکوں پر بھروسہ کرتا ہے جبکہ سعودی عرب بھی جانتا ہے کہ اب اُسے امریکہ کی بجائے خطے پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔ نئے معاشی نظام میں روس کے ساتھ بڑھتی تجارت بھی سعودی عرب کے لیے انتہائی اہم ہے جبکہ چین ایک قدرتی اتحاد کی راہ نکال سکتا ہے۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

’انتخابات کی سیاسی رسہ کشی کے بیچوں بیچ آئین عملاً بے عمل ہے جبکہ عالمی سطح پر جمہوریت متروک ہوتی دکھائی دے رہی ہے‘

سعودی عرب جس تیزی کے ساتھ زمینی حقائق کو سمجھ رہا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ دوسری جانب ایران عالمی اور معاشی تنہائی کا خاتمہ چاہتا ہے پس یہ سب کہانی معیشت کی ہے جس کے گرد عالمی نظام گھوم رہا ہے۔

چین اس وقت ایک ایسی طاقت ہے جو نظام بدل سکتی ہے یعنی ایسی طاقت جو ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے اور جو ’نئے عالمی نظام، نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جاری کرنے کے لانچنگ پیڈ پر موجود ہے اور ہواؤں میں نئے ورلڈ آرڈر کی سر سراہٹ۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

آئیے وطن عزیز کی جانب، ہم اس وقت سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کا شکار ہیں۔ گو یہ لڑائی اپنے عروج پر ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کشمکش ابھی اور بڑھے گی یہاں تک کہ چیزیں بگڑ کر بننا شروع نہ ہو جائیں۔

چین نے حال ہی میں بُرے وقت میں پاکستان کا ہاتھ تھاما ہے، ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف ہمارا بازو مروڑ رہا تھا چین آگے بڑھا اور یہی کچھ سری لنکا کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ سی پیک کے تعطل کے بعد پاکستان کافی حد تک امریکی اثرورسوخ کے ماتحت رہا ہے مگر گذشتہ ایک سال کے حالات و واقعات نے ایک بار پھر پاک چین تعلقات کو ’ضرورت ایجاد کی ماں‘ کے طور جوڑنا شروع کیا ہے۔

پاکستان کو خطے میں اعتماد سازی کے لیے چند اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ اس اعتماد سازی کے لیے پاکستان کو ماضی کی ’غلطیوں‘ کو درست کرنا ہو گا، اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ حال ہی میں پاکستان اور ایران کے درمیان گوادر کے لیے ایک سو میگاواٹ بجلی معاہدہ اور روس کے ساتھ حتمی مراحل تیل کی بات چیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کی جا سکتا۔

خطے میں پاکستان کی اہمیت اور ضروریات چین کے ساتھ ازسر نو اسٹریٹجک تعلقات کا تقاضا کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کو چند پیمانوں پر پورا اُترنا ہے۔ دو عالمی قوتوں کے ’تقاضوں‘ کے درمیان اہم فیصلوں کا ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔ موجودہ حالات میں چین کے ساتھ مؤثر تعلقات اسی وقت ممکن ہیں جب سیاسی بحران کا خاتمہ ہو، سیاسی استحکام کے تقاضے البتہ الگ ہیں۔

انتخابات کی سیاسی رسہ کشی کے بیچوں بیچ آئین عملاً بے عمل ہے جبکہ عالمی سطح پر جمہوریت متروک ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ممکنہ نئے ورلڈ آرڈر میں ہم اور ہمارا جمہوری نظام کہاں کھڑا ہو گا؟

BBCUrdu.com بشکریہ