افغانستان میں جہاں بزرگوں نے حالات کے مدوجزر دیکھے، وہاں اس سرزمین کے نوجوان بھی زمانے کے نشیب و فراز سے چار وناچار گزرے۔
ایک افغان شہری نے جیو نیوز کو بتایا کہ جب پہلی بار طالبان 1996 میں افغانستان میں آئے تو اس وقت میری عمر تقریباً 20 سال تھی۔
افغان شہری نے ایک تصویر نکالی اور بتایا کہ یہ اُس وقت کی ہے، میرے ساتھ دوست کھڑے ہیں۔
دلفریب ماضی اور نوجوانی کی خوبصورت یادوں میں جھانکتے محمد عیسیٰ نے افغانستان میں کم و بیش 35 برس قبل طالبان کو آتے اور ایوان اقتدار پہ قابض ہوتے دیکھا۔
محمد عیسیٰ نے مادر وطن افغانستان میں گزارے اپنے بچپن، جوانی کی دہلیز پہ رکھے قدم اور ماضی کے جھروکوں سے متعلق اُس نے جیو نیوز سے گفتگو کی۔
کابل میں رہائش پذیر محمد عیسیٰ نے طالبان کا پہلا 6 سالہ دور دیکھا، پاکستان میں بھی کئی سال محنت مزدوری کی اور پھر واپس اپنے وطن آ کر آباد ہوا۔
آج یہاں اس کا اپنا کاروبار ہے، عیسیٰ کے نزدیک اس دفعہ کے طالبان گزشتہ طالبان سے مختلف ہیں۔
اس دور میں جو طالبان تھے نا، وہ تقریباً ان پڑھ تھے، اس دور میں جو آئے ہیں نا، یہ سب پڑھے لکھے ہیں یہ سب جانتے ہیں۔
محمد عیسیٰ بھی دیگر افغانوں کی طرح افغان سر زمین پہ اب امن، امن اور صرف امن چاہتا ہے، اسے امید ہے کہ اب کی بار اس کی دھرتی پہ امن کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔
ابھی ان لوگوں کے سیٹل ہونے میں تھوڑا سا وقت لگے گا اور ہم اپنی طرف سے کوشش کریں کہ اس ان سٹیل ہونے تک ہم صبر کریں۔
کابل کے کوچہ و بازار کسی نئی جنگ کے نہیں، اب مستقل امن، استحکام اور خوشحالی کے متقاضی ہیں۔
Comments are closed.