مارک فری ریچز: مغوی امریکی شہری کی افغانستان سے بازیابی کے لیے امریکہ پاکستان کی جانب کیوں دیکھ رہا ہے؟
- خدائے نور ناصر
- بی بی سی، اسلام آباد
فائل فوٹو
فروری 2020 کی ایک رات افغانستان میں موجود امریکی افواج نے انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر ایک خفیہ آپریشن کی تیاری شروع کی۔ مگر جس وقت اس آپریشن کے لیے نکلنا تھا عین اُسی وقت شدید سردی اور حد نگاہ کم ہونے کی وجہ سے آپریشن کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا۔
جب موسم صاف ہوا تو ایک ہیلی کاپٹر میں نیوی سیلز کے اہلکار سوار ہوئے اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔
لیکن موسم کی خرابی کے باعث ہونے والی چند گھنٹوں کی تاخیر کی وجہ سے امریکی فوج اپنے ’ٹارگٹ‘ کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس آپریشن کا ٹارگٹ چند روز قبل اغوا کیے گئے ایک امریکی شہری مارک فری ریچز کو اغوا کاروں کے چُنگل سے آزاد کروانا تھا۔
مگر جب آپریشن کیا گیا تو معلوم ہوا کہ امریکی شہری کو وہاں سے منتقل کیا جا چکا تھا۔
کابل میں موجود امریکی سفارتخانے کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق امریکی شہری مارک فری ریچز کو دارالحکومت کابل سے نامعلوم مسلح افراد نے فروری 2020 میں اغوا کیا تھا جبکہ ’نیوز ویک‘ جریدے کی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارک کو جنوب مشرق میں واقع صوبہ خوست سے اغوا کیا گیا تھا۔
خوست حقانی نیٹ ورک کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور اس کی سرحد پاکستان میں واقع قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے ملتی ہے۔
مارک اس وقت کہاں موجود ہیں، فی الحال کسی کے علم میں نہیں۔
58 سالہ مارک فری ریچز افغانستان میں کانٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے
19 جون کو اے بی سی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مغوی امریکی شہری کی رہائی کے لیے امریکی حکام کے زیر غور تین آپشنز ہیں: جس میں پہلا آپشن افغان قیدیوں کی رہائی کے بدلے مارک کی رہائی جبکہ دوسرا ایک ہائی رسک ریسکیو آپریشن کے ذریعے مغوی کی بازیابی جبکہ تیسرا آپشن پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کو دباؤ یا مراعات دے کر مغوی امریکی شہری کی رہائی کو ممکن بنانا۔
21 جون کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان نے کہا تھا کہ اسلام آباد امریکہ اور دیگر ممالک کے افغانستان میں موجود مغوی شہریوں کی بازیابی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرے گا مگر ایسا صرف اور صرف ’اخلاقی فرض‘ کے تحت کیا جائے گا نہ کہ کسی دھونس یا لالچ کے تحت۔
سفارتخانے کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب امریکی میڈیا میں پاکستان پر دباؤ ڈال کر مارک کی بازیابی کی بابت رپورٹس شائع ہوئی تھیں۔
مگر امریکہ کیوں اپنے مغوی کی بازیابی کے لیے پاکستان کی مدد حاصل کرنے پر غور کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ ضروری ہے کہ مارک فری ریچز کون ہیں؟
مغوی امریکی کون ہے؟
کابل میں امریکی سفارتخانے کے مطابق فروری 2020 کے پہلے ہفتے میں افغان دارالحکومت کابل سے اغوا ہونے والے 58 سالہ مارک فری ریچز افغانستان میں کانٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وہ سنہ 2010 میں امریکہ سے افغانستان آئے تھے۔
سفارتخانے کے مطابق وہ اغوا سے قبل کابل میں مقیم تھے اور کنسٹرکشن کے کام کے سلسلے میں کسی سے ملنے گئے اور لاپتہ ہو گئے۔
امریکی شہری مارک فری ریچز سنہ 1981 سے سنہ 1989 تک امریکی نیوی سے منسلک رہے تھے تاہم امریکی حکام کے مطابق وہ اب کسی بھی امریکی فوجی منصوبے سے وابستہ نہیں تھے بلکہ نجی حیثیت میں بطور کنٹریکٹر کام کر رہے تھے۔
لنکڈ اِن پر اپنے آپ کا انٹرنیشنل لاجسٹک سپورٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے طور تعارف کروانے والے مارک فری ریچز گذشتہ گیارہ برسوں سے افغانستان سمیت عراق اور سوڈان میں ایک سول انجینیئر اور کانٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
کابل میں حکام کے مطابق مارک وہاں زیادہ تر پانی کے منصوبوں پر کام کرتے تھے۔
امریکی حکام کا ذرائع کی بنیاد پر دعویٰ ہے کہ مارک فری ریچز کو فروری میں مسلح افراد نے اغوا کے بعد اُسی سال مئی میں طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے حوالے کیا تھا۔
طالبان کے قطر دفتر اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے پاس فی الحال کوئی بھی غیر ملکی قیدی نہیں ہے۔
رواں برس 23 اپریل کو امریکی حکام نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ مغوی امریکی شہری کی رہائی کے بدلے طالبان نے امریکہ میں قید افغانستان کے صوبہ قندھار سے تعلق رکھنے والے بڑے منشیات فروش حاجی بشیر نورزئی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ذرائع کے مطابق جون 2020 میں ملا عبدالغنی برادر نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فونک بات چیت میں گوانتاناموبے میں قید طالبان قیدیوں کے ساتھ ساتھ حاجی بشیر نورزئی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم یہ ذرائع بھی مارک کے طالبان کی قید میں ہونے کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔
البتہ افغانستان میں بعض طالبان اور افغان حکام ذرائع کا کہنا ہے کہ مارک فری ریچز گذشتہ سال اغوا کے بعد افغان صوبے غزنی میں طالبان کی حراست میں زخمی بھی ہوئے تھے اور ضلع اندڑ میں واقع ایک پرائیوٹ کلینک میں اُن کا علاج ہوا تھا۔
ایف بی آئی کی جانب سے مارک کے اغوا کے بعد جاری کردہ ایک پوسٹر جس میں ان کی تفصیلات درج ہیں
یہ بھی پڑھیے
’پاکستان سے مدد کی درخواست‘
گذشتہ کئی دنوں سے امریکی میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ مارک فری ریچز کی بازیابی کے لیے امریکہ کو پاکستان سے مدد مانگنی چاہیے یا پھر پاکستان پر دباؤ ڈال کر شہری کی رہائی کو ممکن بنایا جائے۔
افغانستان سے امریکی اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کی اعلان کے بعد مارک فری ریچز کے خاندان اور بیشتر امریکیوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکی حکومت اپنے مغوی شہری کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہے۔
مغوی امریکی شہری کا خاندان اور بیشتر امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے افواج کے انخلا سے پہلے ہی مارک فری ریچز کی رہائی ممکن ہے اور اگر امریکی افواج افغانستان سے نکل گئیں تو اُن کی رہائی اور مشکل ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ افغانستان میں ایک اور امریکی شہری پاول اڈوین اوربے بھی ابھی تک لاپتہ ہیں جنھیں 2016 میں افغانستان میں لاپتہ ہوئے تھے۔
پاکستان سے مدد کی درخواست کیوں؟
امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ مارک فری ریچز طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے قبضے میں ہیں لیکن تاحال اُن کے اغوا کے بعد اُن کی کوئی بھی ویڈیو یا کوئی تصویر میڈیا کو طالبان یا ان سے منسلک کسی بھی گروپ کی جانب سے جاری نہیں کی گئی ہے۔
امریکی حکام کا ماننا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں اور حقانی نیٹ ورک کی تحویل میں ہیں۔
افغان اُمور کے ماہر اور صحافی سمیع یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس معاملے میں اس لیے پاکستان سے مدد لینا چاہے گا کیونکہ اُن کے خیال میں پاکستان طالبان کو اپنی بات سمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور افہام و تفہیم سے یہ مسئلہ حل کر سکتا ہے۔
کابل میں مقیم افغان تجزیہ کار ماریہ توتا خیل سمجھتے ہیں کہ طالبان پاکستان کی پیدا کردہ قوت ہیں۔ اُن کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے اب بھی پاکستان میں مراکز ہیں اور وہ اپنے ذرائع سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکی شہری کو بھی ان مراکز میں رکھا ہے۔
ماریہ توتاخیل کے مطابق ‘طالبان ایک عرصے سے ایسے ہی غیر ملکیوں اور افغان حکومت کے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں، جن کی رہائی کے بدلے وہ یا تو اپنے قیدی رہا کرواتے ہیں یا پھر پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔’
دوسری جانب اسلام آباد میں مقیم صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکیوں کی پاکستان سے مدد طلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی طالبان کی قید سے غیر ملکیوں کی رہائی میں پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
طاہر خان بتاتے ہیں کہ ‘اکتوبر 2018 میں پاکستان نے کہا تھا کہ اُن کی سکیورٹی فورسز نے ایک غیر ملکی جوڑے کو بازیاب کرایا ہے۔’ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت اُن کی معلومات یہ تھیں کہ اس جوڑے کو مذاکرات کے ذریعے رہائی ملی تھی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ وہ رہا ہوئے اور پاکستان سے پھر اپنے ملک چلے گئے۔
امریکی شہری کیٹلن کولمین اور اُن کے کینڈین نژاد شوہر جوشوا بوائل
اس غیرملکی جوڑے کو اکتوبر 2012 میں افغان دارالحکومت کابل کے قریب صوبہ وردگ سے نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کیا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اس جوڑے کو حقانی نیٹ ورک نے اغوا کیا تھا۔
امریکی شہری کیٹلن کولمین اور اُن کے کینڈین نژاد شوہر جوشوا بوائل کا اپنے خاندان والوں کو آخری ای میل آٹھ اکتوبر 2012 کو موصول ہوئی تھی، جس میں جوشوا بوائلے نے بتایا تھا کہ وہ افغانستان کے ایک خطرناک علاقے میں ہیں۔
اس ای میل کے بعد پانچ سال تک اُن کا اپنی فیملیز کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا، تاہم 12 اکتوبر 2018 کو پاکستانی فوج نے اس جوڑے کی رہائی کی خبر دی اور بتایا گیا کہ امریکی انٹیلیجنس کی معلومات پر اس جوڑے کو سابقہ قبائلی علاقے کرم میں تین بچوں سمیت بازیاب کرایا گیا۔
اس غیر ملکی جوڑے کے ہاں دوران اغوا ان پانچ برسوں میں چار بچوں کی ولادت ہوئی تھی، جس میں سے ایک بچی کی وفات ہوگئی تھی۔
طاہر خان کے مطابق نہ صرف مغویوں کی بازیابی بلکہ امریکی افغانستان کے ہر مسئلے کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان واحد ملک ہے جن کا طالبان پر اثر و رسوخ ہیں۔
Comments are closed.