بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

امریکہ کی افغانستان میں جنگ کی قیمت کسے اور کتنی ادا کرنا پڑی؟

افغانستان میں دو دہائیوں تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق 10 اہم سوالوں کے جوابات

افغان جنگ

،تصویر کا ذریعہBBC/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کے خاتمے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا

بیس برسوں کی جنگ کے بعد امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ہو گیا ہے۔ کابل کے قریب بگرام کا فوجی اڈّہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے طالبان اور القاعدہ کے خلاف فوجی کارروائیوں کا مرکز تھا۔

امریکہ کی قیادت میں مغربی افواج افغانستان میں دسمبر سنہ 2001 میں داخل ہوئی تھیں، اور بگرام کے فوجی اڈے کو ایک بہت ہی بڑے اور جدید فوجی اڈے کے طور پر جس میں دس ہزار فوجیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی، اس کی تعمیر بعد میں کی گئی۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد اب امریکیوں نے یہ اڈہ خالی کر دیا ہے۔ اس دوران طالبان افغانستان بھر میں مختلف ضلعوں پر قبضہ کرتے ہوئے تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔

اس جنگ کی سب کو بہت ہی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے، یہ قیمت نہ صرف مالی صورت میں چکائی گئی بلکہ قیمتی انسانی جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔ لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے مقاصد کیا تھے اور کیا امریکہ نے وہ تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں؟

نقشہ

،تصویر کا کیپشن

امریکی صدر جو بائیڈن کے گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد اب امریکیوں نے بگرام کا یہ فوجی اڈّہ خالی کردیا ہے

امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیوں کیا تھا؟

امریکہ پر گیارہ ستمبر، سنہ 2001 کے حملوں میں جب کئی مسافر طیاروں کو ہائی جیک کیا گیا اور انھیں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں، ورجینیا کے شہر آرلنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع کی عمارت پینٹاگان سے ٹکرا دیا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار شہری ہلاک ہوئے تھے۔ ایک چوتھا طیارہ پینسیلوینیا میں ہائی جیک ہوا تھا لیکن وہ ایک میدان میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

امریکی حکومت نے ان حملوں کا ذمہ دار القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قرار دیا۔ افغانستان کے شدت پسند طالبان جو اُن دنوں افغانستان کی انتظامیہ پر قابض تھے، انھوں نے اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دی ہوئی تھی اوراُسے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پس منظر میں گیارہ ستمبر کے حملے کے ایک ماہ بعد امریکہ نے طالبان اور القاعدہ دونوں کو شکست دینے کے لیے افغانستان پر فضائی بمباری کا آغاز کیا۔

اس کے بعد کیا ہوا؟

اس کے دو مہینوں کے اندر امریکہ، اس کے بین الاقوامی اور افغان اتحادیوں نے طالبان کی حکومت کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کر دی، طالبان کو شکست ہوئی اور ان میں سے چند عناصر پاکستان کے افغانستان سے متصل قبائل علاقوں میں روپوش ہو گئے۔

لیکن طالبان اور القاعدہ کے جنگجو صرف غائب ہو گئے، لیکن ان کا اپنے ملک میں اثر و رسوخ بڑھنا شروع ہو گیا اور انھوں نے وہاں اپنی پوزیشنوں کو مستحکم کرنا شروع کر دیا۔ ان کے گروہوں نے وہاں منشیات کی سمگلنگ، تجارت، کان کنی اور محصولات کے ذریعے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں سے کروڑوں ڈالر بھی جمع کرنا شروع کر دیے۔

قندھار میں امریکی افواج

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکی اس طویل ترین جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں

اس کے بعد سنہ 2004 میں افغانستان میں امریکہ کی حمایت یافتہ نئی حکومت تشکیل پائی، لیکن اس کے بعد بھی طالبان کے تباہ کن حملوں کا سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا۔ بین الاقوامی افواج نے نئی کمک کی مدد سے ان حملوں پر قابو پانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اس جنگ میں افغان فوجیوں اور شہریوں کا بے انتہا نقصان ہوا۔

تو کیا افغانستان کی جنگ سنہ 2001 میں شروع ہوئی؟

اس کا مختصر جواب تو نفی میں ہے۔ افغانستان حالتِ جنگ میں گذشتہ کئی دہائیوں سے پھنسا ہوا ہے، یہاں تک کہ امریکہ کی مداخلت سے بھی کہیں پہلے سے۔ سنہ 70 کی دہائی میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی حمایت کے لیے سویت یونین کی افواج نے مداخلت کی تھی۔ سویت فوجوں کو افغانستان میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا — یہ مزاحمت افغان مجاہدین کہلانے والے گروہوں کی طرف سے ہوئی تھی جنھیں امریکہ، پاکستان، چین اور سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی۔

سویت فوجیوں کا افغانستان سے سنہ 1989 میں انخلا ہو گیا، تاہم ملک میں خانہ جنگی جاری رہی۔ اس کے بعد جس قسم کی افغانستان میں افراتفری مچی اُس میں طالبان ایک نئی طاقت بن کر اُبھرے (لفظ ‘طالب’ کی جمع ‘طالبان’ ہے جس کے معنی ‘طالبِ علم’ ہے)۔

طالبان اتنے طاقتور کیسے بنے؟

طالبان افغانستان کے جنوب مغربی علاقوں اور شمالی پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں موثر گروہ بن کر ابھرنا شروع ہوئے۔ اُس افراتفری کے ماحول کے پس منظر میں طالبان نے یہ اعلان کیا کہ وہ بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑیں گے اور ملک میں لاقانونیت کو ختم کریں گے۔ اس دور میں افغانوں کی اکثریت ملک میں خانہ جنگی اور لاقانونیت سے پریشان تھے۔

افغانستان میں لڑکیوں کا سکول

،تصویر کا کیپشن

کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ پھر سے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا

طالبان نے جلد ہی اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا اور نہ صرف اسلامی حدود کی حمایت کی بلکہ کئی علاقوں میں انھیں جاری بھی کیا۔ ان سزاؤں میں قتل اور زنا کے مجرموں کو سرِعام سزائے موت اور چوری جیسے جرائم میں ملوث افراد کے ہاتھ قلم کرنا شامل تھیں۔

مردوں کے لیے داڑھیاں رکھنا ضرور قرار دیا گیا تھا اور عورتوں کو بُرقعے پہننا لازمی تھا۔ افغانستان میں برقعے کا مطلب سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم کو چہرے سمیت ڈھانپنا لیا جاتا ہے۔

طالبان نے اپنے زمانے میں ٹیلی ویژن اور سینماؤں پر پابندی لگا دی تھی، اور دس برس سے زیادہ عمر کی بچیوں کے سکول جانے کو ناپسندیدہ قرار دیا۔

تو کیا طالبان کا خاتمہ کبھی نہیں ہوا تھا؟

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بسا اوقات طالبان بہت زیادہ شکست و ریخت کا شکار رہے ہیں، لیکن ان کا یہ کمزور دور کبھی بھی زیادہ عرصے تک نہیں رہا۔

سنہ 2014 میں، جو کہ سنہ 2001 سے شروع ہونے والی جنگ کے شدید ترین دور کا خاتمہ تھا — اور جب امریکی فوجی افغانستان میں لامحدود عرصے تک مقیم رہنے کے خیال سے تھک چکے تھے، انھوں نے لڑائی والی کارروائیاں ختم کردیں اور طالبان سے جنگ کا کام افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا۔

افغانستان میں امریکہ افواج کی تعداد. 2002 - 2020. Chart showing US troop levels in Afghanistan from 2002 to 2019 دسمبر 2020 تک کے اعداد و شمار.

لیکن امریکہ اس حکمت عملی نے طالبان کو دوبارہ سے ابھرنے کا ایک موقع دیا اور انھوں نے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور حکومت کے غیر فوجی اہداف کو اپنے بموں سے نشانہ بنا کر تباہ کیا۔

سنہ 2018 میں بی بی سی کو معلوم ہوا کہ طالبان افغانستان کے 70 فیصد حصے پر فعال تھے۔

اس جنگ کی قیمت کیا چکانا پڑی؟

اس جنگ میں برطانیہ اور دیگر اقوام کے 450 فوجیوں سمیت، امریکہ کے دو ہزار تین سو ہزار فوجی ہلاک ہوئے اور بیس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔

لیکن اس جنگ کی اصل قیمت افغان عوام کو چکانا پڑی ہے، بعض تحقیقات کے مطابق، افغان سیکیورٹی فورسز کے ساٹھ ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہو چکے ہیں۔

تقریباً ایک لاکھ گیارہ ہزار غیر فوجی افغان ہلاک یا زخمی ہوئے۔ افغانوں کی ہلاکت یا ان کے زخمی ہونے کی تعداد اُس وقت سے جمع ہونا شروع ہوئی جب اقوام متحدہ نے سنہ 2009 سے ایک منظم طریقے سے اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے۔

امریکی فوجی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

افغانستان میں امریکہ کی جنگ دو دہائیوں کی جاری رہی

ایک تحقیق کے مطابق امریکہ کو اس جنگ کا ایک کھرب ڈالر کا خرچا برداشت کرنا پڑا ہے۔

طالبان سے معاہدہ؟

سنہ 2020 میں فروری کے مہینے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان میں ‘امن قائم کرنے کے ایک معاہدے’ پر دستخط ہوئے تھے، اس کے لیے کئی برسوں سے کوششیں جاری تھیں۔

اس معاہدے کے مطابق، امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو کی افواج افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا اس شرط پر کریں گے کہ طالبان القاعدہ کو یا کسی بھی دوسرے شدت پسند گروہ کو دوبارہ افغانستان میں اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں واپس آنے کی اجازت نہیں دے گا۔

گذشتہ برس کے ان معاہدوں کے نتیجے میں طالبان اور افغان حکومت دونوں نے قیدیوں کو رہا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اس معاہدے کے بعد چند مہینوں کے اندر طالبان کے 5000 ارکان کو افغان حکومت نے رہا کیا تھا۔

امریکہ نے بھی طالبان پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کا وعدہ کیا تھا اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر طالبان پر عائد شدہ اضافی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے کوششیں کرنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکہ نے اس معاہدے کے لیے طالبان سے براہ راست مذاکرات کیے تھے، جس میں افغان حکومت شامل نہیں تھی۔ اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ‘اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو واپس اپنے وطن لائیں۔’

کیا تمام امریکی فوجی واپس جا رہے ہیں؟

بگرام کے فوجی اڈّے سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا ہو چکا ہے اور اب اس کی حفاظت افغان سیکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، تقریباً 650 امریکی فوجی اس انخلا کے بعد بھی افغانستان کی سرزمین پر موجود رہیں گے۔ اس کا بنیادی کام سفارتی عملے اور کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈّے کی حفاظت کرنا ہوگا، جو زمینی طور پر سمندر سے کٹے ہوئے اِس ملک کی ٹرانسپورٹ کے لیے بہت ہی اہم مرکز ہے۔

افغانستان میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد. 2009-2020. .

اب حالات کیسے ہیں؟

اس معاہدے کے بعد طالبان اپنے حملوں کی حکمتِ عملی میں تبدیلی لائے ہیں، اب وہ مختلف شہروں اور فوجی چوکیوں پر حملے کرنے کے بجائے اپنے مخالف اہلکاروں کو نشانہ بنا کر قتل کر رہے ہیں تاکہ وہ افغان عوام کو خوفزدہ کرسکیں۔

اب وہ تیزی سے بڑے بڑے علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں جس سے وہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے پسِ منظر میں کابل کی موجودہ حکومت کے خاتمے کا خطرہ بن رہے ہیں۔

افغانستان میں القاعدہ ابھی بھی فعال ہے جبکہ دولتِ اسلامیہ نے اپنے حملوں کا سلسلہ بھی تواتر کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔

اب کابل کے مستقبل کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے، لیکن افغان صدر اشرف غنی کا اصرار ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز میں ہر قسم کی شورش پر قابو پانے کی مکمل صلاحیت ہے۔

افغانستان میں دو دہائیوں کی جنگ کا فائدہ کیا ہوا؟

بی بی سی کے سیکیورٹی امور کے نامہ نگار، فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ ‘اس سوال کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس بات کو اہمیت دیتے ہیں؟’

برطانیہ کے سکیورٹی کے سینیئر ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے جنگ شروع ہوئی افغانستان سے ایک بھی بین الاقوامی سطح کا دہشت گردی کے بڑا حملے کی منصوبہ بندی نہیں ہوئی ہے۔

فرینک گارڈنر کہتا ہے کہ ‘اس لیے اگر انسدادِ دہشت گردی کے بین الاقوامی میعار کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو مغربی ملٹری اور سیکیورٹی کی افغانستان میں موجودگی کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔’

افغانی خواتین

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

کابل کے ایک ہسپتال کے باہر ایک ٹرک بم کی وجہ سے ہلاکتوں کے بعد کا منظر

لیکن اب بیس برس کے بعد بھی طالبان کو شکست نہیں دی جا سکی ہے اور وہ آج بھی ایک جنگجو طاقت ہیں۔

بعض رپورٹوں کے مطابق، اتحادی فوجوں کے آنے کے بعد اس برس جون میں بد ترین تشدد کے واقعات ہوئے تھے جن میں کئی زندگیاں ضائع ہوئی تھیں۔ اور اتنے برسوں کی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابی اب خطرے میں ہے جس کی وجہ سے سکول، سرکاری عمارات اور دیگر تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔

گارڈنر کا کہنا ہے کہ ‘القاعدہ، دولتِ اسلامیہ اور دیگر عسکریت پسند تنظیمیں ختم نہیں ہوئی ہیں، یہ اب دوبارہ سے زور پکڑ رہی ہیں اور بلا شک و شبہ بقیہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کی توقع سے ان کے حوصلوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.