معید یوسف کی اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تردید: ’کبھی کسی اسرائیلی اہلکار سے ملاقات نہیں ہوئی، نہ ہی کبھی اسرائیل کا دورہ کیا‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ ان کی کبھی کسی اسرائیلی اہلکار سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی انھوں نے کبھی اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔
انھوں نے کسی کا نام لیے بغیر ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘یہ جان کر افسوس ہوا ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما نے یہ اشارہ دیا کہ میں نے خفیہ طور پر اسرائیلی اہلکاروں سے ملاقات کی تھی۔’
انھوں نے کہا کہ ‘میں واضح الفاظ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری کبھی کسی اسرائیلی اہلکار سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی میں نے کبھی اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔
‘وزیرِ اعظم اس بارے میں انتہائی واضح پیغام دے چکے ہیں۔ پاکستان فلسطینیوں کے لیے ایک منصفانہ دو ریاستی حل کے لیے کھڑا رہے گا۔ اس کے علاوہ یہ سب سازشی نظریات ہیں۔’
قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اس بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام تو ظاہر نہیں کیا لیکن پیر کو قومی اسمبلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا زلفی بخاری کا ذکر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انھیں ایک اور میٹنگ کے بارے میں بھی علم ہے جس میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف بھی شامل تھے اور پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے بھی سوالات ہیں۔
معید یوسف کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب اتوار کی شب اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہایوم‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے بیرونِ ملک پاکستانی کے عہدے سے مستعفی ہونے والے زلفی بخاری نے گذشتہ برس مبینہ طور پر اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تھا اور وزیرِ اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا پیغام اسرائیلی اہلکاروں اور موساد کے سربراہ تک پہنچایا تھا۔
تاہم زلفی بخاری کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ان الزامات کو مسترد کیا گیا ہے اور انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’میں اسرائیل نہیں گیا۔‘
زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ’مزاحیہ بات یہ ہے کہ پاکستانی اخبار نے لکھا کہ اسرائیل ذرائع کے مطابق میں نے اسرائیل کا دورہ کیا جبکہ یہی خبر اسرائیلی اخبار کسی پاکستانی ذرائع کے نام سے منسوب کر رہا ہے۔ پتا نہیں یہ خیالی پاکستانی ذریعہ کون ہے۔‘
بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پیر کو حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس حوالے سے حقائق عوام کے سامنے لائے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے تو حکومت کے لیے بہت آسان ہے کہ جن دنوں کے حوالے سے الزام لگایا جا رہا ہے وہ ان دنوں میں فلائٹ کی تفصیلات عوام کے سامنے لائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘
بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ ‘یہ رپورٹ اسرائیلی اخبار کی جانب سے اسرائیل کے محکمہ دفاع کے سینسر سے اجازت کے بعد شائع کی گئی ہے۔ اس لیے ہمیں دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ جو فلائٹ کی تفصیلات خبروں میں آتی رہی ہیں ان کو عوام کے سامنے لایا جائے۔’
یہ بھی پڑھیے
زلفی بخاری کے علاوہ وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد کی جانب سے بھی حالیہ دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے پیر کو ایک ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘زلفی بخاری نے گذشتہ برس بھی یہ واضح کیا تھا کہ انھیں حکومت کی جانب سے اسرائیل نہیں بھیجا گیا، یہ اسرائیل ۔ بھارت ۔ پاکستان جعلی خبروں کا پھیلاؤ کرنے والا نیٹ ورک بہت بورنگ اور آسانی سے پہچانا جانے لگا ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘آخری مرتبہ جب یہ پروپیگینڈا کیا گیا تھا تو زلفی بخاری نے نہ صرف اسے مسترد کیا اور قانونی نوٹس بھیجا تھا بلکہ اسے رپورٹ کرنے والے ادارے مڈل ایسٹ مانیٹر نے معذرت بھی کی تھی۔’
خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ زلفی بخاری نے اسرائیل کا مبینہ خفیہ دورہ کرنے کے حوالے سے تردید کی ہو۔ گذشتہ دسمبر کو جب چند میڈیا رپورٹس میں ان کے اسرائیل کے خفیہ دورے کے حوالے سے دعوے سامنے آئے تھے تو زلفی بخاری نے انھیں یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ اس دوران ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے ساتھ تھے۔
ان افواہوں کا اس نیوز رپورٹ کے بعد آغاز ہوا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی نے مبینہ طور پر نومبر 2020 میں تل ابیب ایئرپورٹ پر اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے نامعلوم مشیر کو اسرائیل کی وزارت خارجہ لے جایا گیا جہاں انھوں نے متعدد سیاسی عہدیداران اور سفارت کاروں سے ملاقات کی اور پاکستان کے وزیر اعظم کا پیغام پہنچایا۔
Comments are closed.