بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانوی فوج سے متعلق وزارت دفاع کے خفیہ کاغذات بس سٹاپ سے ملے

برطانیہ: بس سٹاپ پر ملنے والی ’ایچ ایم ایس ڈیفنڈر‘ اور برطانوی فوج سے متعلق وزارت دفاع کی خفیہ دستاویزات میں کیا ہے؟

  • پال ایڈمز
  • سفارتی نامہ نگار

HMS Defender

،تصویر کا ذریعہPA Media

برطانیہ میں ایک بس سٹاپ سے رائل نیوی کے جہاز ’ایچ ایم ایس ڈیفنڈر‘ اور برطانوی فوج سے متعلق وزارت دفاع کی خفیہ دستاویزات برآمد ہوئی ہیں۔

کینٹ کے بس سٹاپ سے ملنے والی ان دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ اگر یہ جہاز بدھ کو کریمیا کے ساحل کے قریب یوکرین کے پانیوں سے گزرتا ہے تو اس پر روس کا ممکنہ ردعمل کیا ہو گا۔

ان میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکہ کی سربراہی میں افغانستان میں نیٹو آپریشن ختم ہونے کے بعد وہاں برطانوی فوج کی موجودگی کے حوالے سے کیا منصوبے تشکیل دیے گئے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ’ہم اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں جس میں دفاع سے متعلق خفیہ دستاویزات عوام کے ایک فرد کے ہاتھ لگیں۔ ‘یہ بتایا گیا ہے کہ وزارت دفاع کے متعلقہ ملازم نے دستاویزات کی گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔

تقریباً 50 صفحات پر مشتمل یہ دستاویزات منگل کی صبح کینٹ کے ایک بس سٹاپ پر ملی تھیں۔

ایک برطانوی شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے رابطہ کیا جب انھیں دستاویزات کی حساسیت کا اندازہ ہوا۔ بی بی سی کا ماننا ہے کہ یہ دستاویزات، جن میں ای میلز اور پاور پوائنٹ کی پریزنٹیشنز موجود ہیں، وزارت دفاع کے ایک سینیئر اہلکار کے دفتر میں تیار ہوئیں۔

دستاویزات میں وزارت دفاع نے ’یوکرین کے پانیوں سے معصوم گزر‘ نامی مشن کا ذکر کیا ہے اور اس کا تعلق رائل نیوی کے ٹائپ 45 ڈسٹرائیر اور ایچ ایم ایس ڈیفنڈر سے ہے۔ یہ کہا گیا کہ اس جہاز پر بندوقیں اور ہیلی کاپٹر موجود ہوں گے اور ممکنہ طور پر روس اس پر جارحانہ ردعمل دے گا۔

بدھ کو کریمیا کے ساحل سے 19 کلومیٹر دور 20 روسی جنگی جہاز اور دو کوسٹ گارڈ جہاز اس برطانوی جہاز کے قریب سے گزرے تھے۔

ماسکو میں وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ گشت کرنے والے جہاز نے تنبیہ کے لیے فائر کیے تھے اور برطانوی جہاز کے راستے پر ایک جیٹ بم گرایا تھا۔ مگر برطانوی حکومت اس کی تردید کرتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کوئی وارننگ فائر نہیں کیے گئے تھے۔

برطانوی حکام نے اس مشن کو ‘آپریشن ڈیٹرائٹ’ کا نام دیا تھا۔ پیر کو اس پر اعلیٰ قیادت نے بات چیت کی تھی، جیسا کہ دستاویزات میں بتایا گیا ہے۔ حکام اس میں قیاس آرائی کر رہے تھے کہ ایچ ایم ایس ڈیفنڈر اگر کریمیا کے قریب سے گزرتا ہے تو روس کا ردعمل کیا ہو گا۔

نارتھ وڈ میں برطانوی افواج کے مستقل جوائنٹ ہیڈ کوارٹر (پی جے ایچ کیو) میں ایک اہلکار نے پوچھا کہ ’ممکنہ ‘ویلکم پارٹی’ کے بارے میں ہم کیا سمجھے ہیں۔۔۔؟’

دستاویزات میں بتایا گیا کہ روسی فورسز اور ایچ ایم ایس کوین الزبیتھ کی سربراہی میں برطانوی کیریئر سٹرائیک گروپ کے درمیان پیش آنے والے حالیہ واقعات حیرت انگیز نہیں اور ‘توقعات سے مطابقت رکھتے ہیں۔‘

مگر حکام جانتے تھے کہ یہ سب تبدیل ہونے والا ہے۔

اس میں ایک جگہ تنبیہ کی گئی تھی کہ ‘اس دفاعی سرگرمی کے آپریشنل سرگرمی میں بدلنے سے قوی امکان ہے کہ روسی نیوی اور ایئر فورس کے ساتھ واقعات بڑھ جائیں گے اور ان کی نوعیت سنجیدہ ہو جائے گی۔‘

Ministry of Defence document

پی جے ایچ کیو میں تیار کردہ سلائیڈز میں دو گزر گاہیں دکھائی گئی ہیں جن میں سے ایک کو ’اوڈیشہ سے بٹومی تک ایک محفوظ اور پیشہ ورانہ براہ راست راستہ‘ کہا گیا ہے، اس میں جنوب مغرب کے سرے کے قریب ’ٹریفک علیحدہ کرنے والی سکیم‘ (ٹی ایس ایس) کے ذریعہ ایک چھوٹا سا راستہ بھی شامل ہے۔

ایک سلائیڈ کے مطابق اس راستے پر جسے برطانیہ، یوکرین کے علاقائی پانیوں کے طور پر پہچانتا ہے، یہاں سے گزرنے کی صورت میں یوکرین کی حکومت کے ساتھ بات چیت کا موقع ملے گا۔

’محفوظ اور پیشہ ورانہ‘ سے لے کر ’نہ محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ‘ سمیت تین قسم کے روسی ردِعمل کا خاکہ پیش کیا گیا۔

اگر روس نے جارحانہ ردِعمل کا انتخاب کیا تو اس صورت میں: ریڈیو کے ذریعے انتباہ دیے جائیں گے، کوسٹ کارڈ کے جہاز 100 میٹر تک قریب آ جائیں گے اور جنگی طیارے مسلسل سر پر منڈلاتے رہیں گے۔

ایک متبادل راستے پر غور کیا گیا جو ‘ایچ ایم ایس ڈیفنڈر’ کو متنازع پانیوں سے دور رکھ سکتا ہے۔

پریزنٹیشن میں کہا گیا کہ اس راستے کا انتخاب کرنے سے تصادم سے گریز کیا جا سکتا تھا، لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ روس اسے ’برطانیہ کے خوفزدہ ہو کر بھاگ جانے‘ کے ثبوت کے طور پر استعمال کرتا اور اس سے روس کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع بھی مل جاتا کہ آخر کار برطانیہ نے کریمیا کے علاقائی پانیوں کے متعلق ماسکو کے دعوے کو قبول کر لیا ہے۔

An MoD presentation

وزراتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’وزارت دفاع عوامی توقعات کے مطابق احتیاط سے منصوبہ بندی کرتی ہے۔ جس میں آپریشنل فیصلوں پر اثرانداز ہونے والے تمام ممکنہ عوامل کا تجزیہ کرنا بھی شامل ہے۔‘

لیکن فوجی منصوبہ بندی کے علاوہ، عہدیداروں کو کشیدگی کی توقع تھی۔

یہ بھی پڑھیے

‘ایچ ایم ایس ڈیفنڈر‘ پر (بی بی سی اور ڈیلی میل کے) صحافیوں کی موجودگی، اس جہاز کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کے متعلق آزادانہ تصدیق کا آپشن فراہم کرتی ہے، اسے مدِنظر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ایک مضبوط ، جائز بیانیہ ہے۔‘

ایچ ایم ایس ڈیفنڈر کے مشن سے پیدا ہونے والے تنازع کے بعد، کینٹ میں دریافت ہونے والی دستاویزات تصدیق کرتی ہیں کہ ٹی ایس ایس راستے کا انتخاب برطانوی حکومت کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا جس کا مقصد یوکرین کی حمایت کا مظاہرہ کرنا تھا۔

اس کا تعلق بحری قوت کے مظاہرے سے ہے؟

اس واقعے میں دراصل سفارتی مقاصد کے لیے جنگی بحری جہاز استعمال کیا گیا۔ مگر اس کا بنیادی مقصد جان بوجھ کر روس کو اشتعال دلانا تھا۔ (تاہم ایسے کوئی جذبات دستاویزات میں بیان نہیں کیے گئے۔)

سنہ 2014 میں روس کی جانب سے کریمیا کو ضم کیے جانے کے بعد یہ سب نیویگیشن کی آزادی اور یوکرین کی خود مختاری کی واضح حمایت کا عندیہ تھا۔

Map showing Crimea, Ukraine and Russia and the warship's path

اقوام متحدہ کے 1982 کے لا آف دی سی کے مطابق غیر ملکی بحری جہاز پر مسافر ‘معصوم’ ہے اگر وہ اس ریاست کے ساحل کے لیے امن یا سلامتی کے لیے نقصان دہ نہیں۔

دنیا کی نظروں میں یہ ریاست یوکرین ہے، روس نہیں۔ مگر دستاویزات میں صرف اس بارے میں بات نہیں ہوئی۔

اس میں ہتھیاروں کی برآمد کے بارے میں اطلاعات دی گئیں اور حساس تبصرے بھی شامل ہیں کہ ایسے کون سے علاقے ہیں جہاں برطانیہ اور یورپی اتحادیوں کے درمیان مقابلہ ہو سکتا ہے۔

اس میں درج کچھ بیانات کو دفاعی سیکریٹری بین والس سے منسوب کیا گیا ہے جس میں بریگزٹ کے بعد پریشانی جھلکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی ہتھیاروں کے چھ رکنی یورپی ادارے او سی سی اے آر کو یورپی کمیشن کی جانب سے ‘ہائی جیک’ ہونے نہیں دیا جانا چاہیے۔

اس میں امریکہ اور برطانیہ کے درمیان پیر کو ہونے والی بات چیت کے بریفنگ نوٹس موجود ہیں جس میں ابتدائی مہینوں کے دوران صدر جو بائیڈن کی کارکردگی پر تبصرے کیے گئے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ صدر بائیڈن کی توجہ شروع میں چین اور انڈو پیسیفک کی طرف تھی اور دستاویزات کے مطابق ‘گذشتہ انتظامیہ کا کافی زیادہ تسلسل اب بھی موجود ہے۔‘

اس میں تجویز دی گئی کہ برطانیہ کو امریکہ سے کیا مانگنا چاہیے۔ ’ہمیں یہ ملاقات اس مقصد کے لیے استعمال کرنی چاہیے کہ دیکھا جائے انتظامیہ کتنی تیار ہے اور آیا اتحادیوں سے مشاورت کی خواہش عمل میں بھی نظر آتی ہے۔‘

HMS Defender

،تصویر کا ذریعہEPA

حساس فوجی تجاویز

کئی صفحوں پر حساس اور خفیہ کا نشان لگایا گیا تھا۔ حکومت کے مطابق خفیہ ظاہر کرنے کا یہ طریقہ نچلی سطح پر استعمال ہوتا ہے ‘جہاں معلومات کو خفیہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کی واضح اور جواز بخش ضرورت ہوتی ہے۔’

لیکن ایک دستاویز پر ‘سیکرٹ یو کے ائیز اونلی’ لکھا تھا جس میں بین والیس کے پرائیویٹ سیکریٹری کا حوالہ دے کر افغانستان میں برطانوی فوجی سرگرمیوں کے لیے انتہائی حساس تجاویز دی گئی ہیں۔ یہ معلومات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب امریکہ کی سربراہی میں نیٹو افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا ہونے جا رہا ہے۔

دستاویز میں کئی جگہوں پر امریکہ کی برطانوی معاونت کے مطالبے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس میں بتایا گیا کہ آیا مکمل انخلا کے بعد برطانیہ کی سپیشل فورسز افغانستان میں ہی موجود رہتی ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ پہلی ہی کچھ فورسز افغانستان میں چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

دستاویزات کی حساسیت کی وجہ سے بی بی سی نے یہ تفصیلات نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس سے افغانستان میں برطانوی یا دوسرے اہلکاروں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

مگر اس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے۔

یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ افغانستان میں برطانیہ کی کسی بھی قسم کی موجودگی کو مسلح افراد کے پیچیدہ نیٹ ورک کی جانب سے ہدف بنایا جاسکتا ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ ‘مکمل انخلا کا راستہ بھی موجود ہے۔’

ان دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ افغانستان پہلے ہی زیادہ خطرناک ملک بنتا جارہا ہے۔

’وہ ماحول جسے ہم اور امریکہ پورے ملک میں خوشگوار جانتے ہوئے اس سے لطف اندوز ہوتے تھے، نیٹو افواج کی تعداد میں کمی اس صورتحال کو خراب کر رہی ہے۔‘

یہ بھی کہا گیا ہے کہ فروری 2020 میں امریکہ کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد سے اب تک کوئی بھی برطانوی ہلاک نہیں ہوا ہے، لیکن اس خیال کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مستقبل بھی ایسا ہی ہو گا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ دستاویزات بہت سے اہم موضوعات سے متعلق ہیں اور یہ برطانوی وزارت دفاع کے لیے ایک شرمندگی کا موقع ہے۔

فی الحال اس واقعے کی تفصیلی تحقیقات جاری ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ منگل کی صبح بس سٹاپ پر سڑک کنارے بارش کے دوران یہ کاغذات وہاں کیسے پہنچے۔

دفاع کے لیے لیبر کے شیڈو سیکریٹری جان ہیلی کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ یہ دستاویزات وزارت دفاع سے باہر کیسے گئیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ والس تحقیقات کو جلدی سے مکمل کر کے دارالعوام کو رپورٹ کریں اور عوام کو یہ یقین دلائیں کہ کسی بھی فوجی مشن کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.