بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

استنبول کینال پراجیکٹ: ’یہ کسی فوارے کا نہیں اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے‘

استنبول کینال پراجیکٹ: صدر اردوغان نے 15 ارب ڈالر کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا

استنبول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ترکی کے صدر طیب اردوغان نے 26 جون کو متنازع ’استنبول کینال‘ (یعنی نہر استنبول) پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا ہے۔ اس منصوبے پر 15 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا تھا ’ہم اس پراجیکٹ کو استنبول کے مستقبل کو بچانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم ترکی کی ترقی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہے ہیں۔‘

صدر اردوغان نے منصوبے کا افتتاح اس پراجیکٹ میں شامل ایک بڑے پُل کا سنگ بنیاد رکھ کر کیا۔ اس بڑے منصوبے کا مقصد آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کے دباؤ کو کم کرنا اور تجارتی مقاصد کے لیے ایک متبادل بحری روٹ فراہم کرنا ہے۔

صدر اردوغان کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ استنبول کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ’یہ کسی فوارے کی افتتاحی تقریب نہیں بلکہ یہ اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے۔‘

صدر اردوغان نے پہلی مرتبہ اپریل 2011 میں اس منصوبے کا اعلان کیا تھا اور اسے ’بڑے بجٹ کے کریزی منصوبے‘ کی حیثیت سے سراہا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کا موازنہ پاناما یا سوئز کینال سے نہیں کیا جا سکتا ہے (یعنی یہ ان دونوں منصوبوں سے بہتر اور بڑا منصوبہ ہے)۔

نہر استنبول کی گہرائی 25 میٹر، لمبائی 45 کلومیٹر ہو گی اور اس سے ہر روز تقریباً 160 بحری جہاز گزر سکیں گے۔

اس منصوبے کے ناقدین نے اس پراجیکٹ کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد اس منصوبے کے قابل عمل پر سوالات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ اس کے موحولیات پر بُرے اثرات ہوں گے۔

روئٹرز کے مطابق صدر اردوغان کی جانب سے پُل کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد وہاں موجود مزدوروں نے 1.6 کلومیٹر طویل پُل کے پلرز میں کنکریٹ بھرا جبکہ اس موقع پر موجود ہجوم میں شامل افراد ترکی کے پرچم لہراتے رہے۔

رجب

،تصویر کا ذریعہEPA

صدر طیب اردوغان اس منصوبے کو آبنائے باسفورس کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ آبنائے باسفورس وہ واحد بحری راستہ ہے جو بحیرۂ اسود کو بحیرۂ روم سے ملاتا ہے جہاں اکثر بحری جہازوں کی بھیڑ رہتی ہے۔

اس راستے سے پہلے ہی سالانہ 43 ہزار کے لگ بھگ بحری جہاز گزرتے ہیں جبکہ حکام کے مطابق ماحولیات کو زیادہ نقصان نہ پہنچانے کی غرض سے یہاں سے صرف 25 ہزار بحری جہاز سالانہ گزرنے چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں کو بعض اوقات طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اندازوں کے مطابق سنہ 2050 تک آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں کی تعداد 78 ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔

ترکی کی حکومت نے رواں برس مارچ میں استنبول کینال کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ یہ نہر آبنائے باسفورس کے مغرب میں واقع ہو گی اور اس کا بہاؤ استنبول کے شمال سے جنوب کی جانب ہو گا اور یہ 45 کلومیٹر طویل ہو گی۔

اس نہر کے منصوبے کی سرکاری ویب سائٹ پر اس نہر کو بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آبنائے باسفورس کی بحری ٹریفک، بڑے جہازوں کی بڑی تعداد، جو ‘خطرناک’ مواد وہ لے کر جاتے ہیں، استنبول شہر کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق سو سال پہلے آبنائے باسفورس سے گزرنے والی کشتیوں کی سالانہ تعداد 3000 یا 4000 ہوتی تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 45 سے 50 ہزار ہو گئی ہے۔

استنبول

،تصویر کا ذریعہReuters

منصوبے پر ملک کے اندر تنقید

رواں برس اپریل میں ترکی کی بحریہ کے 10 ریٹائرڈ ایڈمرلز کو صدر طیب اردوغان کے ’استنبول کینال‘ منصوبے پر کھلے عام تنقید کرنے کے الزامات کے تحت پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اس گرفتاریوں کے بعد ترک سیاست میں ایک بھونچال آ گیا تھا۔

حراست میں لیے جانے والے یہ افراد ان 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز میں شامل تھے جنھوں نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے تھے جس کے ذریعے ترک حکومت کو متنبہ کیا گیا تھا کہ نہر کے اس منصوبے سے آبنائے باسفورس پر بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔

ترکی کے صدر اردوغان نے افسران کے اس اعلامیے کو ’بدتمیزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس (خط) سے ’بغاوت کی بو‘ آ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اگرچہ اس منصوبے پر ہونے والی بحث نے مقامی سیاسی تقسیم کو ہی آشکار کیا تھا لیکن اس سے ڈارڈینیلیز اور باسفورس کے آبی راستوں کے متعلق قوانین پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں، جن کے امریکہ اور روس پر ممکنہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔

استنبول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مونٹریکس کنونشن: ترکی میں پانی کی گزرگاہوں کا 85 سالہ معاہدہ کیا ہے؟

گرفتار ہونے والے ریٹائرڈ ایڈمرلز نے متنبہ کیا تھا کہ نہر کے اس منصوبے سے مونٹریکس کنونشن کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت ترکی کو اپنی سرحدوں کے اندر آبنائے باسفورس کا کنٹرول دیا گیا تھا اور وہاں کمرشل شپنگ اور بحریہ کے جہازوں کی کارروائیوں سے متعلق حدود مقرر کی گئی تھیں۔

انھوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ اس سے متعلق ایسے کسی بھی اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے اس معاہدے پر بحث چھڑ سکتی ہو اور ایسا کرنا ترکی کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

ترکی میں پانی کی گزرگاہوں کا معاہدہ مونٹریکس معاہدہ کہلاتا ہے جو سنہ 1936 میں طے پایا تھا۔ اس بین الاقوامی معاہدے کے تحت سامان لے جانے والے جہاز ترکی کی آبی گزرگاہوں سے گزر سکتے ہیں اور یہ ترکی کو استنبول، ڈارڈانیلیز، بحیرہ مرمرہ اور باسفورس پر خود مختاری دیتا ہے۔

یہ ان ممالک کے جنگی جہازوں پر پابندیاں بھی عائد کرتا ہے جن کے ساحل بحیرہ اسود کے کنارے پر نہیں ہیں۔ انھیں ‘نان ریپریئن’ ریاستیں کہا جاتا ہے، جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

ان پابندیوں میں ان ریاستوں کے جہازوں کے مجموعی وزن (زیادہ سے زیادہ 45000 ٹن) اور بحیرہ اسود میں ان کے قیام کی مدت (21 دن) کی حد شامل ہے۔

بحیرہ اسود کی ریپریئن اور غیر ریپریئن ریاستوں کے طیارہ بردار بحری جہازوں کو ان گزرگاہوں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے، اور صرف ریپریئن ریاستوں سے تعلق رکھنے والی آبدوزیں ہی یہاں سے گزر سکتی ہیں۔

بحیرہ اسود کی کسی بھی ریپریئن ریاست کو اپنے فوجی جہازوں کے گزرنے سے آٹھ دن قبل ترک حکام کو مطلع کرنا ہوتا ہے جبکہ ترکی کی وزارت خارجہ کے مطابق کسی نان ریپریئن ریاست کو گزرنے سے 15 دن پہلے ایسا کرنا ہوتا ہے۔

استنبول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس اور امریکہ کس طرح اس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟

مونٹریکس کنونشن اور استنبول کینال کے حوالے سے امریکہ اور روس کے موقف سرکاری طور پر واضح نہیں ہیں۔

تاہم ترک تجزیہ کار اکثر کہتے ہیں کہ اس معاملے پر واشنگٹن اور ماسکو کے مابین جیو پولیٹیکل طاقت کا کھیل جاری ہے۔

ریٹائرڈ ایڈمرلز کے اعلامیہ کو شائع کرنے والی ویب سائٹ ’وریانسین ٹی وی‘ نے ماضی قریب میں ایسے متعدد مضامین شائع کیے تھے جن میں بتایا گیا کہ امریکہ بحیرہ اسود تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مونٹریکس کنونشن کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

رواں برس چار اپریل کو سینیئر صحافی مراد یتکین نے اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ ’مونٹریکس کنونشن نے ہمیشہ ہی امریکہ کو پریشان کیا ہے کیونکہ وہ بحیرہ اسود میں روس کے خلاف زیادہ بڑے جنگی جہاز بھیجنا چاہتا ہے۔‘

حزبِ مخالف کے سیکولرسٹ اخبار ’کم حریت‘ کے کالم نویس مہمت علی گلر کہتے ہیں کہ ’مونٹریکس کنونشن کو ختم کرنے کے مطالبے کا مقصد ترکی اور روس کے مابین تعاون کو روکنا ہے۔‘

انقرہ میں روسی سفیر الیکسی یارخوف کے ’سپوتنک ترکی‘ میں چھ اپریل کو شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ماسکو یہ توقع نہیں کرتا کہ استنبول کینال مونٹریکس کنونشن کی شرائط کو متاثر کرے گا۔

تاہم حکومت کی حامی کچھ آوازیں اس معاہدے کو ’بیڑیوں‘ سے تشبیہہ دیتی ہیں جو ترکی کو ترقی کرنے سے روک رہی ہیں۔

حکومت کے حامی اسلامک اخبار ’ینی آکت‘ کے کالم نگار حاجی یاقسیلکی نے سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا ہمیں 100 سال پہلے دستاویز پر دستخط کرنے کی سزا دی جائے گی، صرف اس لیے کہ کچھ لوگ طاقتور ترکی نہیں چاہتے؟‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.