’اب امریکہ جانے کی بات سے ہی کانپ جاتا ہوں‘ جب نوجوانوں کو انڈونیشیا میں یرغمال بنایا گیا
- مصنف, سربجیت سنگھ دھالیوال
- عہدہ, نامہ نگار بی بی سی پنجابی
کچھ عرصہ قبل 35 برس کے سکھجندر اپنے جیسے لاکھوں نوجوانوں کی طرح امریکہ جا کر بہتر زندگی گزارنے کا خواب دیکھ رہے تھے مگر اب جب کوئی امریکہ کا نام بھی لیتا ہے تو وہ کانپ اٹھتے ہیں۔
سکھجندر کے مطابق ’اب میں امریکہ کے نام سے بھی ڈرتا ہوں۔ میرے سامنے کوئی بیرون ملک جانے کی بات کرے تو خوف سے میرا جسم کانپنے لگتا ہے، ایسے میں میرا سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔‘
اس کی وجہ سکھجندر کی طرف سے امریکہ کا خطرناک اور ناتمام سفر اختیار کرنا تھا۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک رشتہ دار نے ترن تارن کے رہنے والے سکھجندر کا تعارف بالی میں رہنے والے سنی کمار نامی نوجوان سے کرایا۔ سکھجندر کے مطابق سنی کمار نے انھیں میکسیکو کے راستے غیر قانونی طور پر امریکہ بھیجنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
منصوبہ یہ تھا کہ سکھجندر کو پہلے بالی آنا ہوگا اور وہاں سے آگے کا راستہ طے کیا جائے گا۔ ساری ڈیل 45 لاکھ روپے میں طے پائی۔
پنجاب جیسی ریاستوں میں بیرون ملک بھیجنے کے نام پر دھوکہ دہی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن سکھجندر کا اعتماد اس وقت پختہ ہو گیا جب انھیں بغیر کوئی ایڈوانس لیے بالی کا ٹکٹ بھیج دیا گیا۔
یہاں سکھجندر کی کہانی نے ایسا موڑ لیا جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بالی پہنچ کر سنی کمار مجھے ایک گھر میں لے گئے اور قید کر دیا۔ انھوں نے مجھے تقریباً 23 دن تک قید رکھا۔‘
سکھجندر کے مطابق یہاں ان کی اتنی مارپیٹ کی گئی کہ انھیں اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنا پڑا کہ وہ امریکہ پہنچ گئے ہیں اور سنی کو 45 لاکھ روپے بھیج دیے جائیں۔ 45 لاکھ کھونے کے بعد ان کا امریکہ کا خواب چکنا چور ہو گیا لیکن وہ کافی کوشش کے بعد واپس گھر پہنچ گئے۔
ترن تارن کے جسوندر سنگھ کی بھی کہانی اس سے مختلف نہیں ہے۔ 5 اکتوبر 2022 کو وہ اس گینگ کی آڑ میں بالی بھی پہنچ گئے اور آخر کار 18 دن تک غنڈوں کی قید میں رہنے کے بعد انھیں بھی 45 لاکھ روپے دے کر جان بچانا پڑی۔
موہالی پولیس کے ڈی ایس پی دلشیر سنگھ کے مطابق امریکہ کے نام پر نہ صرف پنجاب کے نوجوانوں کو دھوکہ دیا گیا بلکہ انڈیا کی چار ریاستوں کے نوجوان انڈونیشیا کے شہر بالی میں سرگرم انسانی سمگلنگ گینگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔
گینگ کیسے کام کرتا تھا؟
نوجوانوں کے ساتھ دھوکہ دہی کے واقعات اور پولیس کی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس گینگ کا پنجاب میں اپنا کوئی دفتر نہیں ہے۔ آپ کو پنجاب میں ہر جگہ بیرون ملک لے جانے والے ایجنٹوں اور کمپنیوں کے اشتہارات ملیں گے لیکن اس گینگ کا ابھی تک کوئی اشتہار نہیں ملا۔
یہ گروہ صرف لوگوں کو پھنسانے کے لیے موبائل فون کا استعمال کرتا تھا۔ عام طور پر جب غریب یا متوسط گھرانوں کے نوجوانوں کو بغیر کوئی رقم ادا کیے بالی کا ٹکٹ دیا جاتا تھا تو ان کا اعتماد بڑھ جاتا تھا۔
نوجوان یہ سوچ کر بالی پہنچتے تھے کہ یہاں سے میکسیکو کے راستے انھیں امریکہ لے جایا جائے گا لیکن انھیں یہاں اغوا کر کے مارا پیٹا گیا تا کہ وہ اپنے اہل خانہ سے تاوان وصول کر سکیں۔
متاثرین کو خود فیصلہ کرنا تھا کہ تاوان کی ادائیگی اور رہا ہونے کے بعد وہ کس طرح گھر واپس آئیں گے۔
پولیس کے مطابق یہ گینگ پچھلے دو سال سے سرگرم تھا اور عام طور پر کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہی نشانہ بناتا تھا۔
معلومات کے مطابق ان نوجوانوں کو صرف انڈونیشیا اور سنگاپور بلایا گیا تھا کیونکہ ان ممالک میں انڈین شہریوں کو ’ویزا آن ارائیول‘ یعنی اس ملک پہنچ کر ویزا ملنے کی سہولت حاصل ہے۔ ان ممالک کے ہوائی ٹکٹ بھی دیگر قریبی ممالک کے مقابلے میں سستے ہیں۔
’بادشاہ‘ کون ہے؟
موہالی پولیس کے مطابق اس فراڈ کے دو ماسٹر مائنڈ انڈین ہیں۔ انڈونیشیا میں موجود سنی کمار پنجاب کے ہوشیار پور ضلع کے گاؤں سلیریا خورد کے رہنے والے ہیں اور جسویر سنگھ عرف سنجے سنگاپور میں موجود ہیں اور ان کا تعلق جالندھر سے ہے۔
پولیس کے مطابق گینگ کے کچھ ارکان پنجاب اور باقی بالی میں سرگرم ہیں۔
پنجاب میں سرگرم لوگوں کا کام اغوا شدہ نوجوانوں سے رقم وصول کرنا تھا اور بالی میں رہنے والی ٹیم کا کام پہلے نوجوانوں کو وہاں بلانا اور پھر اغوا کرنا تھا۔
اس وقت پولیس نے پنجاب میں رہنے والے گینگ لیڈر سنی کی بیوی اور والد کو گرفتار کر کے ان کے گھر سے ڈیڑھ کروڑ روپے برآمد کر لیے ہیں۔ اس کے علاوہ اس گینگ کے لیے پنجاب میں کام کرنے والی ایک خاتون کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ گینگ کا سرغنہ ابھی تک انڈونیشیا میں ہے۔
زیادہ تر دیہی نوجوان کیوں شکار ہوتے ہیں؟
پٹیالہ کے پہل کلاں گاؤں کا من پریت سنگھ بھی اس گینگ کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے لیکن تنخواہ پر خاندان کا گزر مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس لیے انھوں نے امریکہ جانے کا سوچا اور راجپورہ کے ایک ایجنٹ کے جال میں پھنس گئے۔
سکھجندر نے یہ بھی بتایا کہ گاؤں میں جو زمین ان کی ہے اس سے خاندان کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
پہل گاؤں کے جسویر سنگھ نے بھی اپنی زمین بیچ کر امریکہ جانے کے لیے قرض لیا۔
وہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اب قرض واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، نہیں معلوم کیا کریں۔‘
پنجاب کے نوجوانوں میں بیرون ملک جانے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ بیرون ملک پہلے سے کامیاب پنجابی تارکین وطن ہیں۔
اکثر نوجوان ان کی طرح کامیاب ہونے کی خواہش میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
وسائل یا ڈگریوں کے حامل افراد کے لیے قانونی طور پر بیرون ملک کام تلاش کرنا آسان ہے، لیکن کم تعلیم یافتہ دیہات کے نوجوانوں کے پاس اکثر یہ اختیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر جعلی گروہوں یا ایجنٹوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
پٹیالہ کے وشال کمار، جو اس دھوکہ دہی کا شکار ہوئے، کہتے ہیں کہ ’پڑھے لکھے نوجوان IELTS کا امتحان پاس کرنے کے بعد بیرون ملک جا رہے ہیں اور کم پڑھے لکھے نوجوان ہماری طرح غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کا سوچتے ہیں۔‘
دسویں پاس کرنے کے بعد بھی نوکری نہ ملنے پر وہ اس گینگ کے جال میں پھنس گئے۔
’نوجوانوں کو انڈیا میں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے‘
پنجاب کے معروف ماہر معاشیات رنجیت سنگھ گھمن کا کہنا ہے کہ بے روزگاری، منشیات اور جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں کی وجہ سے اس ریاست میں نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے اس لیے وہ بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ان کے مطابق پنجاب میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے نوجوان بڑی تعداد میں بیرون ملک جا رہے ہیں۔
اقتصادی سروے 2021-22 کے مطابق ریاست میں بے روزگاری کی شرح 7.3 فیصد ہے۔
دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 7.1 فیصد اور شہری علاقوں میں 7.5 فیصد ہے۔ رنجیت سنگھ گھمن کا ماننا ہے کہ نوجوانوں کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے ریاست میں روزگار کے مواقع اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہوگا۔
قانون کے باوجود فراڈ جاری
پنجاب میں غیر قانونی انسانی سمگلنگ کے خلاف پنجاب ٹریول پروفیشنلز ایکٹ 2014 موجود ہے۔
رواں برس جنوری میں جالندھر انتظامیہ نے 239 امیگریشن کنسلٹنٹس اور 129 کے قریب IELTS سنٹرز کے لائسنس قواعد کی مبینہ خلاف ورزی پر منسوخ کر دیے ہیں۔
جالندھر پولیس کے ڈپٹی کمشنر کے مطابق ضلع جالندھر میں 1320 امیگریشن کنسلٹنٹس، غیر ملکی ٹکٹ بک کرنے والوں اور IELTS سینٹرز کے مالکان کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 495 کے لائسنس بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
ماہر رنجیت سنگھ گھمن کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جعلی ایجنٹوں کو پکڑنے کے لیے سخت قانون ہے لیکن قانونی عمل بہت طویل اور پیچیدہ ہے، اس لیے جعلی ایجنٹ اپنا کام تیزی سے کر رہے ہیں۔
رنجیت گھمن کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہوئے حادثات میں کئی لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں، اس کے باوجود پنجاب کے نوجوان کسی بھی قیمت پر بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
انڈین شہریوں کا غیر قانونی طور پر امریکہ جانے کا رجحان
انڈین اور خصوصاً پنجاب کے نوجوانوں کا میکسیکو بارڈر سے غیر قانونی طور پر امریکہ جانے کا رجحان کافی پرانا ہے۔ کچھ لوگ کینیڈا سے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر میکسیکو کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
ایجنٹ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر بنائی گئی دیوار کو عبور کرانے کے لیے پیسے لیتے ہیں۔ امریکہ کی کسٹمز اور بارڈر پٹرول ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق میکسیکو کی سرحد سے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والے انڈین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2020 میں 19,883 انڈین، سنہ 2021 میں 30,662 اور سنہ 2022 میں 63 ہزار 927 انڈین کو غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
میکسیکو کی سرحد سے امریکہ میں داخل ہونا آسان نہیں ہے۔
سنہ 2019 میں یہ بات اس وقت خبروں میں آئی جب میکسیکو کی سرحد عبور کرنے کے بعد ایریزونا میں پنجابی نژاد چھ سالہ بچی کی موت ہوئی۔
یہ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ غیر قانونی طور پر میکسیکو کی سرحد عبور کر کے امریکہ میں داخل ہوئی تھی لیکن پھر وہاں کا درجہ حرارت 42 ڈگری ہو گیا۔
Comments are closed.