آمنہ مفتی کا کالم اڑیں گے پرزے: سبق پھر پڑھ۔۔۔
- آمنہ مفتی
- مصنفہ و کالم نگار
خان صاحب کی پہلی تقریر سے لے کر اس حالیہ تقریر تک ہر تقریر ہمیں اس قدر حیران کرتی ہے کہ ہم مارے حیرت کے گنگ رہ جاتے ہیں۔
بڑے بڑے تجزیہ کار، مبصر، عیار صحافی، ان کی تقریر سن کے بغلیں جھانکتے رہ جاتے ہیں۔ اپنی آسانی کے لیے ان نکموں نے ان کے اس انداز گفتگو کو ’یو ٹرن‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اب یہ خان صاحب کی شفقت ہے کہ انھوں نے اس پر بھی ان عقل کے اندھوں کو سمجھایا کہ یوٹرن میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔
حالیہ تقریر سنتے سنتے جب انسٹھ منٹ اور کچھ سیکنڈ گزر گئے تو خان صاحب نے غیرت کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا کہ جو کچھ مشرف نے کیا وہ غلط تھا اور اب ہم امریکہ کی لڑائی میں اس کا ساتھ نہیں دیں گے، امریکہ گندا بچہ ہے اس کی دھت وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ تو اب جنگ کر ہی نہیں رہا اس لیے آپ اس نہ لڑی جانے والی جنگ میں اگر اس کا ساتھ نہیں بھی دیں گے تو امریکہ کو چنداں فرق نہیں پڑنے والا۔ جو کام اس نے آپ سے لینا تھا وہ لے چکا اور جب آئندہ بھی لینا ہو گا تب بھی لے گا۔
اگر آپ انکار کریں گے تو وہی ہو گا جو آپ سے پہلوں کے ساتھ ہوا اس لیے غیرت کا یہ سبق تو ہم نہ ہی پڑھیں تو بہتر ہے۔ یقین جانیے اس سبق کو پڑھنے کے بعد اگر پھر سے یوٹرن لینا پڑا تو بہت دکھ ہو گا۔
اسی تقریر میں خان صاحب نے این لائٹن موڈریشن کو بھی اپنے مخصوص انداز میں خوب رگیدا۔ بات یہ ہے کہ نہ ہی افغان جہاد میں شامل ہونا ہماری رضا تھی اور نہ ہی اس جہاد کو فساد سمجھتے ہوئے اس کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے کا ہم نے کسی کو مینڈیٹ دیا تھا۔
ضیا اور مشرف دونوں ادوار عسکری آمریت کے دور تھے۔ جس تاریخ سے آپ ہمیں سبق لینے کا کہہ رہے ہیں وہ تاریخ ہماری لکھی ہوئی نہیں۔ جنھوں نے وہ تاریخ لکھی یہ سبق بھی شاید انھیں ہی سیکھنا چاہیے۔
پہلے ایوب خان کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا کہا گیا، ابھی سیکھ ہی رہے تھے کہ یحییٰ خان کا مجموعہ اغلاط سامنے دھر دیا گیا، اس کے صفحے ہی پلٹ رہے تھے کہ ضیا دور کی پوتھی کھل گئی اور آج آپ نے مشرف دور سے سبق سیکھنے کا بھی ہم ہی کو کہہ دیا۔
خان صاحب کے خلوص نیت پر ہمیں کیا کسی کو بھی شبہ نہیں لیکن یہ کند ذہن قوم ابھی پچھلے پنوں کی قرات ہی نہیں کر پائی اگلے سبق کیا سیکھے گی؟
یہ بھی ممکن ہے کہ خان صاحب دھی ری دھی میں تجھے کہوں بہو ری بہو تو کان دھر کے مصداق یہ باتیں ہم پر رکھ کے انھیں سنا رہے ہوں جنھوں نے یہ سب رائتہ پھیلایا تھا۔ سیاستدان خواہ کتنا ہی معصوم اور تابعدار کیوں نہ ہو، ہوتا سیاستدان ہے۔ اس کی بھی اگاڑی اچھی نہ پچھاڑی اچھی۔ کب کیا کہہ جائے کون جانے؟
آمنہ مفتی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
امریکہ کے جانے کے دن قریب آ رہے ہیں اور اس کے جانے کے بعد جو ہو گا شاید وہ صورتحال ہم میں سے کسی کے تصور میں بھی نہیں۔ دی گئی تاریخ تک امریکی فوج تو شاید افغانستان سے نکل جائے لیکن امریکہ کہیں نہیں جائے گا۔
کیا انگریز کے جانے کے بعد ہم کالونیل اداروں کے اثر سے آزاد ہو گئے؟ تو صاحبو! یاد رکھنے کا سبق یہ ہے کہ افغانستان سے صرف اتحادی فوج جا رہی ہے امریکہ کس شکل میں وہاں رہے گا وہ خان صاحب کی تقریر کے پردے میں سے ایسے چھلک رہا تھا جیسے کٹ گلاس کے جام سے روح افزا کا رنگ جھلکتا ہے۔
آپ کو، مجھے، ہم سب کو امریکہ کے اس نئے کردار کے مطابق ڈھلنا ہو گا اور یہ ہی نیا سبق ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ان اسباق میں ایک سبق غیرت کا بھی شامل کر لیں جس سے پہلے قوسین میں ’قومی‘ لکھ لیجیے مگر یاد رہے رٹا زیادہ پکا نہیں لگانا، اگر اس دوران صورتحال بدل گئی تو نیا سبق پچھلے میں مدغم ہو جائے گا جیسے آج ہو رہا ہے، مجاہدین، افغان مہاجرین بھائی، طالبان، دہشت گرد، غیر ملکی، افغان ہمارے اپنے، طالبان ممکنہ افغان حکمران، دہشتگرد، تھینک یو امریکہ، زخمی ریچھ، مونگ پھلی، ڈو مور۔۔۔
Comments are closed.