افغانستان میں طالبان: پاکستان کے لیے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کروانا اہم کیوں؟
- سحر بلوچ
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
‘زور زبردستی کے حربے نہ 20 سال پہلے چل سکے تھے اور نہ اب چل سکیں گے۔ ہم نے کبھی امریکی صدر بائیڈن کو نہیں کہا کہ وہ سابق صدر ٹرمپ کو اپنی کابینہ میں رکھے۔ اگر آپ میں سے کوئی بھی افغانستان آئے تو آپ کو پتا چلے گا کہ خواتین سے متعلق کوئی مسائل نہیں ہیں۔’
یہ کہنا تھا افغانستان میں طالبان کی طرف سے قائم کردہ عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا جو جمعے کے روز اسلام آباد میں قائم ایک تِھنک ٹینک میں افغانستان سے متعلق ایک لیکچر سیریز کا حصہ تھے۔
امیر خان متقی افغان طالبان کے وفد کے ساتھ پاکستان کے تین روزہ دورے (نومبر 10-12) پر آئے ہوئے ہیں جس دوران انھوں نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ سے بھی ملاقات کی اور ٹرائکا پلس کے نمائندہ ممالک (چین، روس اور امریکہ) کے نمائندہ خصوصی سے ملاقات اور بات چیت بھی کی۔
کابل پر 15 اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد یہ کسی طالبان حکومتی نمائندے کا پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ جبکہ پاکستان کے لیے افغان طالبان کے وفد سے علیحدہ بات چیت اور ٹرائکا پلس کا سیشن منعقد کرنا ایک کامیابی ہے۔
پاکستان نے اب تک افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود طالبان نے پاکستان کے مختلف شہروں جیسے کہ لاہور، کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد میں افغان قونصل خانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری ہونے والے مراسلوں میں افغان طالبان کے وفود کو بطور سرکاری وفد قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا استقبال بھی اسی طرز کا کیا گیا ہے۔
رواں سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کو ایک ریکارڈ کیے گئے پیغام میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ عالمی برادری کو افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے اور یہ کہ طالبان کو علیحدہ کرنے سے معاملات کا حل نہیں نکلے گا۔
’افغانستان میں جو ہو گا اس کا زیادہ بوجھ پاکستان کو اٹھانا پڑے گا‘
پاکستان کی جانب سے طالبان کو قبول کروانے اور ان کے مطالبات منوانے میں ایک عجلت نظر آ رہی ہے جس کی وجہ بتاتے ہوئے صحافی اور افغان امور کے ماہر سلیم صافی نے بتایا کہ ’اس وقت افغانستان میں جو ہوگا اس کا زیادہ بوجھ پاکستان کو اٹھانا پڑے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس بات کا اندازہ آپ جمعے کے لیکچر کے دوران افغان طالبان کی ان پر دباؤ نہ ڈالنے والی بات سے بھی لگا سکتے ہیں۔ اور ایسا وہ پہلی بار نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ کہتے آ رہے ہیں۔‘
سلیم صافی نے کہا کہ ’پاکستان اس وقت دونوں طرف سے کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ افغان طالبان کی بھی منتیں کر رہے ہیں کہ وہ شراکت داری پر مبنی حکومت بنائیں اور جو دنیا بھر کے ممالک کے مطالبات ہیں، ان پر بھی پورا اتریں۔‘
اور یہی بات امیر خان متقی نے ایک روز پہلے ہونے والے ٹرائکا پلس اجلاس کے بعد چین، روس اور امریکہ کے نمائندہ خصوصی کے سامنے بھی کی تھی کہ افغان طالبان پر زور نہ ڈالا جائے اور انھیں ’اپنی مرضی سے حکومت بنانے دی جائے۔’
اسی طرح افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت افغان طالبان نے اپنا مؤقف پرزور طریقے سے نمائندہ خصوصی اور دیگر فورمز کے سامنے رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
جبکہ لیکچر سیریز کے دوران امیر خان متقی نے کئی بار کہا کہ ‘افغانستان میں ایک نئی ریاست قائم نہیں ہو رہی ہے بلکہ ایک نئی حکومت قائم ہوئی ہے۔ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ہماری حکومت کا آئین اور قانون ظاہر شاہ کی حکومت کے طرز کا ہو گا۔’
پاکستان کے لیے افغان طالبان کو قبول کروانا کیوں اہم ہو چکا ہے؟
اس کی ایک بڑی وجہ ماضی سے جُڑی ہے۔
نوے کی دہائی میں پاکستان نے نا صرف طالبان کی حکومت کو قبول کیا تھا بلکہ پاکستان پر بارہا یہ الزام لگتا رہا کہ وہ افغانستان میں دانستہ طور پر طالبان کی مدد کرتے رہا ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کو کئی ممالک پاکستان کا ‘سٹریٹیجک گراؤنڈ’ بھی سمجھتے رہے ہیں۔
اب عالمی برادری کا پاکستان پر زور ہے کہ وہ طالبان سے نہ صرف انسانی حقوق، تعلیم اور معاشی ترقی سے منسلک مطالبات پر عمل کروائے بلکہ پاکستان خود پر لازم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات کی تکمیل کو بھی یقینی بنائے۔
سلیم صافی کا کہنا ہے کہ ‘پاکستان کے پالیسی ساز اس وقت طالبان کو بات چیت کے ذریعے مصروف رکھنے اور اصلاح کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ تاکہ طالبان ایک بار پھر افغانستان میں کی گئی سختیوں کو نہ دہرائیں۔ کیونکہ ایسا کرنے پر پاکستان بھی متاثر ہوگا اور دیگر ممالک کا الزام بھی ان کے سر آئے گا۔’
اگر ماضی کا جائزہ لیں تو افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان مخالف رہی رہے۔ خیبر ٹی وی کے ڈائریکٹر حسن خان نے کہا کہ ‘اس وقت پاکستان کے لیے پڑوس میں ایک پاکستان دوست حکومت ہونا ان کے مفاد میں ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت کو دو خطرات کا سامنا ہے۔ ایک جانب تو پاکستان افغان طالبان کے ذریعے بات چیت کر کے تحریکِ طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ اور دوسرا خطرہ داعش خراسان سے ہے، جس کو افغان طالبان اور پاکستان دونوں نہیں پنپنے دینا چاہتے۔ ساتھ ہی افغانستان میں جاری معاشی بحران سے لوگوں کو ریلیف دلانا اس وقت سب سے اہم ہے۔’
اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک حکومتی ترجمان نے بتایا کہ افغان طالبان کے وفد کے اسلام آباد پہنچنے سے ایک روز پہلے پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر خان جان الکوزئی اسلام آباد پہنچے تھے۔ ان کا ارادہ ٹرائکا پلس کے نمائندہ خصوصی اور پاکستان کو افغانستان میں بڑھتے معاشی مسائل سے آگاہ کرنا تھا۔
’ہم ثالثی کا کردار خلوص نیت سے نبھا رہے ہیں‘
تاہم عالمی برادری کی امیدوں کے برعکس، افغان طالبان پاکستان کی ہر بات کو مِن و عن نہیں مان رہے۔ کابل پر قبضے سے پہلے بھی طالبان پاکستان کو کئی باتوں پر نہ کر چکے ہیں۔
اس کی ایک مثال کابل پر افغان طالبان کے قبضے سے پہلے کی ہے۔ جب پاکستان نے طالبان کو جنگ بندی کے لیے کہا تھا۔
سلیم صافی نے کہا کہ ’طالبان جنگ بندی نہیں مان رہے تھے۔ جبکہ حال ہی میں پاکستان افغانستان میں شراکتی حکومت قائم کروانا چاہ رہا تھا جس پر افغان طالبان آمادہ نہیں ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس کے علاوہ پاکستان چاہتا تھا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے حوالے کر دیں جس پر طالبان آمادہ نہیں ہوئے۔‘
تاہم افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے امیر خان متقی نے جمعے کے لیکچر کے دوران کہا کہ ‘ہم ثالثی کا کردار خلوص نیت سے نبھا رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی سے بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بھی قسم کی بات چیت میں وقت درکار ہوتا ہے۔’
حسن خان نے کہا کہ افغانستان اکثر اوقات پاکستان کی جانب ہی دیکھتا ہے ‘اور اب پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ افغان طالبان ان کی بات مانتے ہوئے افغانستان اور خطے میں امن کو یقینی بنائیں۔’
جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افہام و تفہیم سے تمام بات چیت مکمل کرنے میں ایک خلل یہ ہے کہ کسی اور حکومت کی طرح افغان طالبان کی حکومت میں بھی چند عناصر پاکستان مخالف ہیں جن سے پاکستان افغان طالبان کے ذریعے ہی نمٹنا چاہتا ہے۔
Comments are closed.