بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

قصہ خوانی: خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

جب قصہ خوانی کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہیں

  • دانیال آدم خان
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

قصہ خوانی

،تصویر کا ذریعہINP

،تصویر کا کیپشن

بڑھتے ہجوم سے گھبرا کر میٹکاف نے بکتر بند گاڑیاں بلوا لیں، جن میں سے ایک نے اپنے راستے میں 14 لوگوں کو کچل دیا

یہ تحریر پہلی بار بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر اپریل 2019 میں شائع کی گئی تھی، جسے آج دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

13 اپریل کو جلیانوالہ باغ کے سانحے کو سو سال پورے ہونے پر پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں اس ہولناک واقعے کو یاد کیا گیا۔ برطانیہ سے ایک مرتبہ پھر معافی مانگنے کا مطالبہ سامنے آیا اور جنرل ڈائر کے اس اقدام پر کڑی تنقید بھی ہوئی لیکن جہاں لوگ سامراجی اکڑ سے جنرل ڈائر کا نام جوڑتے ہیں، سر اوبرے میٹکاف کا نام کتنوں کو یاد ہے؟

جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کے بعد جنرل ڈائر کو تو زبردستی ریٹائر کروا کے خاموشی کی زندگی گزارنے واپس برطانیہ بھجوا دیا گیا تھا لیکن جلیانوالہ کے اس واقعے کے 11 سال بعد پشاور کے قصہ خوانی بازار میں درجنوں غیر مسلح افراد کا قتلِ عام کروانے والے میٹکاف نہ صرف اس سانحے کے بعد برطانوی راج کے لیے کام کرتے رہے بلکہ 1939 میں بلوچستان کے چیف کمشنر بھی مقرر ہوئے اور ’سر‘ سمیت کئی خطابات سے بھی نوازے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

ہوا کچھ یوں تھا کہ 23 اپریل 1930 کو پختون قوم پرست، امن کا پرچار کرنے والے اور انگریزوں کی حکومت سے آزادی کے کارکن خان عبدالغفار خان کو انگریز حکمرانوں نے حراست میں لیا۔ غفار خان، جن کو باچا خان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس واقعے سے ایک ماہ پہلے ہی ان کی قیادت میں خدائی خدمت گار نامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا۔

خدائی خدمت گار کے کارکنان پشاور کے قصہ خوانی بازار میں جمع اپنے قائد کا انتظار کر رہے تھے۔ باچا خان کی گرفتاری کا سنتے ہی تمام صوبے میں احتجاج کی لہر دوڑی اور ان کے حمایتی اکٹھے ہونا شروع ہوئے۔

پشاور کے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے میٹکاف نے مظاہرین کو منتشر ہونے کا حکم دیا، لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ بڑھتے ہجوم کے پیش نظر میٹکاف نے بکتربند گاڑیاں بلوا لیں، جن میں سے ایک نے اپنے راستے میں 14 لوگوں کو کچل دیا۔ اس پر ہجوم نے گاڑی کو آگ لگا دی اور اس وقت اس کے اندر انگریز عملہ موجود تھا۔

باچا خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

23 اپریل 1930 کو پختون قوم پرست، امن پسند اور آزادی کے کارکن خان عبدلغفار خان کو انگریز حکمرانوں نے حراست میں لے لیا

اس صورتحال میں سر میٹکاف نے گولیاں چلانے کا حکم دے دیا۔ انگریز فوج کی رائل گڑھوال رائفلز کے جوانوں نے بندوق اُٹھانے سے انکار کر دیا، لیکن میٹکاف نے خدائی خدمت گاروں کو سبق سکھانے کے لیے اپنے دیگر سپاہی آگے کر دیے۔

اس واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق بظاہر انگریزوں کو یہ لگا کہ ایک مرتبہ گولیاں چلانے سے چند لاشیں گریں گی تو باقی مظاہرین فرار ہو جائیں گے، لیکن جیسے آگے کی صف میں لاشیں گرتی گئیں، ان کی جگہ لینے پیچھے سے اور افراد آتے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ پورا دن گولیاں چلیں۔ اتنی کہ بعض حوالوں کے مطابق قصہ خوانی کی گلیوں میں خون کی ندیاں تھیں اور ان ندیوں میں بہتی سینکڑوں لاشیں۔

پختونوں سے سب سے زیادہ ہمدردی کا اظہار کرنے اور پشاور کو اپنا گھر ماننے والے اولاف کیرو اس وقت چیف کمشنر کے سیکرٹری تھے۔ کیرو بعد میں اس صوبے کے گورنر بنے، باچا خان کے دوست بنے، اور ’دی پٹھانز‘ کے نام سے ایک مشہور کتاب بھی لکھی۔

لیکن 1970 کی دہائی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کیرو بھی محض یہ کہہ سکے کہ ’آپریشن کو ٹھیک طریقے سے نہیں سنبھالا گیا‘۔

قصہ خوانی

،تصویر کا ذریعہINP

،تصویر کا کیپشن

انگریز فوج کے روئل گڑھوال رائفلز کے جوانوں نے بندوق اُٹھانے سے انکار کر دیا، لیکن میٹکاف نے خدائی خدمت گاروں کو سبق سکھانے کے لیے اپنے دیگر سپاہی آگے کیے

اس انٹرویو میں کیرو کا کہنا تھا کہ جب وہ سیکریٹریٹ سے نکلے تو انھوں نے دیکھا کہ شہر بھر میں مظاہرین سڑکوں پر ہیں اور تقریباً 15 ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن جہاں حتمی سرکاری تخمینے کے مطابق 20 لوگ ہلاک ہوئے تھے، تمام مقامی ذرائع کے مطابق یہ تعداد کم از کم 200 تھی۔ کیرو کے پاس یہ معلومات نہ ہونا تعجب کی بات اس لیے ہے کیونکہ کمشنر کے ’نروس بریک ڈاؤن‘ کے بعد انھوں نے خود گاڑیوں میں لاشیں بھروا کر دفنانے کے لیے بھجوائی تھیں۔

’دی پٹھان ان آرمڈ‘ کی مصنف موکولیکا بینرجی کا کہنا ہے کہ ’سامراجی انتظامیہ نے قتل ہوئے لوگوں کی تعداد کے حوالے سے انتہائی غلط بیانی کی تھی۔ لیکن یہ ایسی صورت حال کے لیے بالکل تیار ہی نہیں تھے کیونکہ پختونوں کا مجمع دیکھ کر انگریزوں نے یہ طے کر لیا کہ یہاں تشدد ضرور ہو گا۔‘

’اہم بات یہ ہے کہ ان کو اتنا مشتعل کرنے کے باوجود یہ خدائی خدمت گار امن پسندی کے اصول سے ہٹے نہیں۔‘

1990 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے باچا خان کے بیٹے اور پشتو کے نامور شاعر غنی خان نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ دو خدائی خدمت گاروں نے چھپ کر جیل میں ان کے والد سے ملاقات کی۔

باچا خان نے انتقام لینے سے منع کیا اور ان کو پورے انڈیا کے مسلمان قائدین سے مدد مانگنے کے لیے بھیج دیا۔ غنی خان بتاتے ہیں ’وہ ہر جگہ گئے، لیکن کسی نے نہیں سنی۔ صرف ایک گاندھی جی تھے جو اس وقت ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔‘

قصہ خوانی

،تصویر کا کیپشن

قصہ خوانی کی گلیوں میں خون کی ندیاں تھیں اور ان ندیوں میں بہتی سینکڑوں لاشیں

قصہ خوانی بازار سانحے کے بعد برِصغیر کے مسلمان رہنماؤں کے تغافل نے خدائی خدمت گار اور آنے والی دہائیوں میں ان کی سیاسی تنظیموں کو مسلم لیگ سے دور دھکیل کر کانگرس پارٹی کا حمایتی بنا دیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سابقہ سینٹر اور پختون حقوق کے سرگرم رہنما افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ خدائی خدمت گار کی تحریک سماجی اصلاح کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی لیکن اس واقعے کے بعد پختون قوم پرستی نے ایک سیاسی روپ اختیار کر لیا اور یہ آزادی کی جنگ کی جانب مکمل طور پر بڑھنے لگی۔

افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ ’انگریز حکمرانوں نے اس واقعے کو دبانے کے لیے دہشت گردی اور بغاوت کے الزامات سے رنگنے کی کوشش کی۔ لیکن بعد میں جب سچائی ظاہر ہوئی تو دنیا کو اندازہ ہوا کہ انگریز سلطنت نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے کس کس طرح کے مظالم ڈھائے تھے۔‘

اگر قصہ خوانی جیسی سامراجی زیادتیاں اندھیروں میں چھپی رہہ گئی ہیں تو اس سے چھوٹے پیمانے پر ہونے والے سانحے تو تاریخ کے غافلانہ بوجھ تلے دب ہی گئے ہیں۔

باچا خان کی کتاب ’میری زندگی اور جدو جہد‘ کے مطابق اس واقعے کے محض ایک مہینے بعد مردان میں ٹکر کے مقام پر برطانوی افسران نے اپنے ایک ساتھی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے 70 خدائی خدمت گاروں کا یوں ہی قتلِ عام کیا۔ اگست 1931 میں بنوں کے علاقے ہاتھی خیل میں کم از کم 70 کارکن برطانوی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک میدان میں جمع ہوئے اور اس گستاخی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔

چوک یادگار

،تصویر کا کیپشن

پشاور کے اندرون شہر میں چوک یادگار قصہ خوانی بازار سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے نام ہے

تاریخ دان عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے معافی مانگنے سے ماضی کی ناانصافیوں کی اصلاح نہیں ہو گی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسانیت کے خلاف جرائم ناقابلِ برداشت ہیں اور یہ عہد کرنا ہو گا کہ ان کو کبھی دہرایا نہیں جائے گا۔‘

عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ سامراجی تاریخ میں اس طرح کے واقعات کو بھلا دینا معمول کی بات ہے۔ ’یہ سانحہ انڈین آزادی کی جدوجہد میں اہم اور پختون قوم پرستی کی تاریخ میں فیصلہ کُن تھا۔ لیکن قصہ خوانی یا جلیانوالہ باغ جیسے واقعات کو عالمی سطح پر ویسی توجہ نہیں دی جاتی جیسی ان کو ملنی چاہیے۔‘

تاہم افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ ’کچھ اقدامات انسانیت کو اپنا اخلاقی ریکارڈ درست کرنے کے لیے کرنے پڑتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ برطانیہ کو ان ظالمانہ حرکات کی معافی مانگنی چاہیے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.