تین لڑکیوں کا قاتل جو پولیس کو 30 سال بعد ایسی جگہ سے ملا جہاں سے توقع نہیں تھی
- مصنف, گلبرٹ جان
- عہدہ, بی بی سی نیوز
تین 16 سالہ لڑکیوں کا گلا گھونٹنے سے ہلاکت، ایک سیریل کلر کی تلاش کے لیے برطانیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن اور پولیس کی مجرم تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا گیا انقلابی طریقہ: یہ سچی کہانی بی بی سی کی تازہ ڈرامہ سیریز ’سٹیل ٹاؤن مرڈرز‘ کا موضوع ہے۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ جاسوس تین نوجوان خواتین کے اُس قاتل کو کبھی نہیں ڈھونڈ پائیں گے جو ’سیٹر ڈے نائٹ سٹرینگلر‘ کے نام سے مشہور ہوا لیکن 30 سال بعد وہ بالآخر اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایسی جگہ سے جہاں انھیں توقع بھی نہ تھی۔
اس کہانی کا آغاز 1973 کی گرمیوں میں ہوا، جب سوانسی (ویلز کا دوسرا سب سے بڑا شہر، جو اپنی دھات کی صنعت کے لیے جانا جاتا ہے) اور اس آس پاس کے علاقے سے تعلق رکھنے والی تین نوجوان لڑکیاں اپنے اپنے گھروں سے نکلیں مگر کبھی واپس نہ لوٹ سکیں۔ اس واقعے نے لوگوں کو سے لرزا کر رکھ ردیا تھا۔
1973 میں قاتل کی تلاش کے لیے پولیس نے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا تھا
جولائی 1973 میں 16 سالہ سینڈرا نیوٹن اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ پڑوسی قصبے برٹن فیری میں باہر نکلی تھیں جب وہ صبح ایک بجے کے قریب گھر سے 5 میل کی ڈرائیو پر غائب ہو گئیں۔
پولیس کا خیال تھا کہ انھوں نے اس دوران کسی اجنبی سے لفٹ لینے کی کوشش کی تھی۔
سینڈرا کی لاش دو دن بعد ایک گٹر سے ملی۔ کاری ضرب ان کے سر پر ماری گئی تھی اور ان کا گلا اسی سکرٹ سے گھونٹا گیا تھا جو انھوں نے اس روز پہن رکھی تھی۔
اس واقعے کے دو ماہ بعد یعنی ستمبر میں دو دوستیں جیرالڈائن ہیوز اور پولین فلائیڈ اپنے گاؤں کے قریب ایک لکڑی کے کیبن میں مردہ پائی گئیں۔ یہ دونوں دوست لڑکیاں گھر سے باہر پارٹی کرنے کے لیے نکلی تھیں۔
16 سال کی ان دوستوں پر تشدد کیا گیا، ریپ کیا گیا اور گلا گھونٹ دیا گیا اور ان کی لاشیں وہاں سے تقریباً 11 کلومیٹر دور پھینک دی گئیں جہاں سے جولائی میں سینڈرا کی لاش ملی تھی۔
تینوں لڑکیوں کی موت کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر قاتل کی تلاش شروع کی اور 150 پولیس افسران کی ایک ٹیم نے 35,000 لوگوں سے پوچھ گچھ کی۔
عوام کو مشتبہ شخص کی ہلکے رنگ کی مورس 1100 گاڑی کی تفصیل بتا کر اس سے درپیش خطرے کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا
پولیس کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس مبینہ قاتل کے گھنے بال اور مونچھیں تھیں اور اس کی عمر 30 سے 35 سال کے درمیان تھی۔ تاہم تفتیش کاروں کے پاس اس کے علاوہ ایک اور اہم اشارہ تھا اور وہ اس کی گاڑی کے حوالے سے تفصیلات تھیں۔
عینی شاہدین نے لڑکیوں کو اس رات سوانسی سے نکلتے اور ہلکے رنگ کی مورس 1100 کار میں سوار ہوتے دیکھا تھا جسے ایک آدمی چلا رہا تھا۔
بی بی سی کے رپورٹر کے طور پر میں سنہ 1973 میں ان واقعات کی کوریج کرنے والوں میں شامل تھا۔
قاتل نے ایک ایسے علاقے میں یہ عمل کیا جہاں اس قسم کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے تھے۔
نوجوان لڑکیوں کی موت نے خوف کا ایک احساس پیدا کیا تھا جو اس علاقے میں رہنے والوں کے لیے نیا تھا اور زیادہ خوف اور خطرے کی بات یہ تھی کہ مجرم ابھی تک مفرور تھا۔
اس دوران سب ہی صدمے کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ تمام افراد قاتل کے پکڑے جانے کی خبر سننے کے لیے بے چین تھے مگر اس کا کوئی سراغ نہیں مل پا رہا تھا۔
جیرالڈائن ہیوز کے والدین جاننا چاہتے تھے کہ ان کی 16 سالہ بیٹی کو کس نے قتل کیا ہے
قتل پر جاسوسوں کا ردعمل
تین نوجوان لڑکیوں کے قتل کے بارے میں کئی مفروضے تھے۔
چونکہ اس زمانے میں کمپیوٹرز نہیں ہوتے تھے اس لیے پولیس کے سامنے ایک تقریباً ناممکن سا کام تھا جس میں انھیں ممکنہ مشتبہ افراد کی ایک بڑی تعداد کے دستاویزات کی چھان بین روایتی طریقے سے کرنا تھی۔
پولیس افسران کا خیال تھا کہ ایک ہی شخص نے تینوں لڑکیوں کو قتل کیا ہے لیکن سینڈرا کے قتل کے حوالے سے ان کو ایک شخص پر پہلے سے شک تھا۔
سینڈرا کی موت کے حوالے سے پولیس کو جس بندے پر شک تھا وہ ان کا بوائے فرینڈ تھا جس نے انھیں آخری مرتبہ دیکھا تھا تاہم انھوں نے نہ ہی اعترافِ جرم کیا اور نہ ہی پولیس نے ان پر کبھی فردِ جرم عائد کی۔
دونوں واقعات میں مماثلت کے باوجود جاسوسوں نے تقریباً 30 سال بعد تک سینڈر کے قتل اور جیرالڈائن اور پولین کے قتل کی الگ الگ تحقیقات جاری رکھیں۔
1973 میں حکام کے پاس کمپیوٹر نہیں تھے اور انھیں ہاتھ سے فائلوں کی جانچ پڑتال کرنا پڑتی تھی
دونوں تحقیقات 2000 کی دہائی کے اوائل میں جرائم کو حل کرنے کے ایک ٹول کے عروج کے ساتھ منسلک ہوئیں، جب ساؤتھ ویلز پولیس نے اس امید پر معطل شدہ مقدمات کو دوبارہ کھولنا شروع کیا کہ ڈی این اے آخرکار قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکتا تھا۔
سب سے پہلے انھوں نے جیرالڈائن اور پولین کے کپڑوں پر سپرمز کے داغ الگ کیے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ان کا تعلق ایک ہی آدمی سے ہے۔
تاہم، حال ہی میں شروع ہونے والے ڈی این اے ڈیٹا بیس میں انھیں کوئی شخص نہ ملا۔
تاہم تحقیقات شروع ہونے کے ایک سال بعد ٹیسٹوں نے جاسوسوں کو پہلی بڑی کامیابی دی۔ سینڈرا کے انڈرویئر پر کیے گئے ٹیسٹ سے پتا چلا کہ اس پر ایک نامعلوم مرد کا ڈی این اے موجود تھا۔
فرانزک سائنسدان ڈاکٹر کولن ڈارک نے کہا کہ ’میں نے ڈی این اے کی ایک خاص خصوصیت سے فوری طور پر پہچان لیا کہ یہ قاتل کا ڈی این اے ہی ہے۔‘
یہ بالکل چونکا دینے والی معلومات تھیں کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ساؤتھ ویلز میں 1973 میں ایک سیریل کلر نوجوان لڑکیوں کو قتل کر رہا تھا۔
دریافت نے واضح طور پر یہ بھی ثابت کیا کہ اس وقت سینڈرا کا بوائے فرینڈ اس کی موت کے واقعے میں مکمل طور پر بے قصور تھا۔
نئی تحقیقات کے سربراہ انسپکٹر پال بیتھل نے کہا کہ تقریباً 30 سالوں میں یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں معلوم ہوا کہ ایک ہی شخص نے تینوں لڑکیوں کو قتل کیا تھا۔
اس رات جیرالڈائن اور پولین سوانسی کے کنگس وے ایونیو کے ٹاپ رینک نائٹ کلب میں گئی تھیں جب وہ غائب ہوئیں
تاریخی ڈی این اے ٹیسٹ
چونکہ قومی ڈیٹا بیس میں کوئی ملتا جلتا نمونہ نہیں تھا، اس لیے قاتل کی شناخت ایک معمہ بنی ہوئی تھی اور جاسوسوں نے مدد کے لیے بی بی سی کرائم واچ کا رخ کیا جو ایک ہفتہ وار پروگرام تھا جس میں اسی طرح کے قتل کے معمے حل کرنے کے حوالے سے معلومات دی جاتی تھیں۔
تاہم سائنسدانوں نے قاتل کو پکڑنے کے لیے ڈی این اے کا استعمال کرنے کا ایک اور انقلابی طریقہ تیار کیا تھا۔
ڈاکٹر ڈارک نے کہا کہ ’ہم نے سوچنا شروع کیا کہ یہ ماننا مشکل تھا کہ جرم ایک خاندانی شخص نے کیا ہو گا۔‘
ان کی ٹیم نے ڈی این اے ڈیٹا بیس میں نئے پروفائلز کے ساتھ نمونوں کو ملانے کی کوشش کی۔
ڈی این اے شواہد نے جوزف کیپن کو ویلز میں پہلے معروف سیریل کلر کے طور پر شناخت کیا
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو اپنا ڈی این اے اپنے والدین سے وراثت میں ملتا ہے اور آپ اپنا ڈی این اے اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ تو کیا ہم مجرم کے بچوں کا ڈی این اے ڈیٹا بیس تلاش کر سکتے ہیں؟ یہ یقینی طور پر ایک امکان تھا۔‘
ڈاکٹر ڈارک نے وضاحت کی کہ اس کا مطلب ہے ’ساؤتھ ویلز میں مردوں کے کئی ہزار ڈی این اے پروفائلز کے ساتھ ایک سپریڈ شیٹ پرنٹ کرنا اور پنسل کے ساتھ بیٹھنا اور ہر ایک اس نام کو رد کرنا جس میں مماثلت نہیں تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس عمل پر گھنٹوں گزارنے کے بعد ہمارے پاس تقریباً 100 نام رہ گئے تھے۔ ہر ڈی این اے کی مبینہ مجرم کے آدھے پروفائل سے بالکل مماثلت تھی، اس لیے وہ ممکنہ طور پر اسی قاتل کے بچے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک انقلابی تکنیک تھی، یہ پہلی بار برطانیہ اور ممکنہ طور پر دنیا میں عمل میں لائی گئی تھی۔ اس سے، فیملی ڈی این اے کے نام سے جانا جانے لگا اور یوں ایک نیا تحقیقی آلہ تیار کیا گیا۔‘
اس کے ساتھ ہی، جاسوسوں نے بڑی محنت سے 35 ہزار ممکنہ قاتلوں کی فہرست کو صرف 500 مشتبہ افراد تک محدود کر دیا۔
انسپکٹر بیتھل نے کہا کہ ’ہماری شارٹ لسٹ کردہ افراد کی تفصیل پر مبنی تھی، آیا وہ مورس 1100 کے مالک تھے اور آیا ان کا جنسی تشدد یا جرائم کا مجرمانہ ریکارڈ تھا یا نہیں۔‘
جو کیپن، مشتبہ شخص سے مجرم تک
جوزف کپن کو پورٹ ٹالبوٹ کے قریب ایک پہاڑی پر گوئٹرے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا
دونوں فہرستوں کا حوالہ دینے کے بعد، ایک نام سامنے آیا وہ تھا جان کیپن کا۔
ایک مقامی کار چور پال کیپن کا ڈی این اے پورٹ ٹالبوٹ کے آس پاس مجرمانہ کارروائیوں کے بعد ڈیٹا بیس میں تھا، لیکن جب قتل ہوا تو اس کی عمر صرف 7 سال تھی۔
تاہم، اس کے والد سے پہلے ہی 1973 میں پوچھ گچھ کی جا چکی تھی کیونکہ وہ مشتبہ شخص کی تفصیل کے مطابق تھے اور ہلکے رنگ کی مورس 1100 کے مالک بھی تھے۔
اسی سال، پولیس نے جوزف (جو) کپن کے گھر کا دورہ کیا تھا جو ایک نائٹ کلب باؤنسر اور بس ڈرائیور تھا۔
تاہم اس نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کی اور دعویٰ کیا کہ قتل کی رات اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی۔
انسپکٹر بیتھل کے مطابق ’وہ کمیونٹی میں ایک بدمعاش کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس کی گھریلو تشدد کی تاریخ تھی اور وہ کئی مواقع پر جیل میں رہا تھا۔‘
اب بیٹے کے ڈی این اے کے قاتل کے ڈی این اے سے 50 فیصد مماثلت کے باعث جوزف کیپن قتل کے کئی دہائیوں بعد اہم ملزم بن گئے۔
تاہم ٹیم کو ایک مسئلہ درپیش تھا وہ یہ کہ جب وہ اس کے ڈی این اے کا نمونہ لینے کے لیے اس کے دروازے پر دستک دینے گئے تو معلوم ہوا کہ جو کیپن کی وفات پھیپھڑوں کے کینسر سے 11 سال قبل 1990 میں ہو گئی تھی جب ان کی عمر 48 سال تھی۔
پولیس کے شبہات کی تصدیق کے لیے سائنسدانوں نے کپین کی سابقہ بیوی اور ان کی بیٹی سے ڈی این اے کے نمونے کی درخواست کی تاکہ قاتل کے نمونے سے ان کا موازنہ کیا جا سکے۔
ڈاکٹر ڈارک کا کہنا تھا کہ ’اس سے ہمیں کیپن کی مکمل پروفائل کا دو تہائی حصہ ملا۔‘ ان کی ٹیم اس وقت ویلز میں پرانی فرانزک لیبارٹری میں کام کرتی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم نے اس کا موازنہ مجرم سے لیے گئے بلاٹ پروفائل سے کیا تو ہم نے دیکھا کہ یہ ایک میچ تھا لیکن ہمیں اس بات کا یقین کرنے کے لیے ایک مکمل پروفائل کی ضرورت تھی، تاکہ قاتل کی تصدیق کی جا سکتی۔‘
ڈی این اے میچ کر گیا
جاسوس مکمل طور پر اس بات کا یقین کرنے کے لیے پرعزم تھے کہ کیپن ہی قاتل تھا تاکہ تینوں لڑکیوں کے اہل خانہ کسی طرح اس باب کو اپنی زندگیوں سے بند کر سکیں۔
کیپین کی لاش کو نکالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور یہ پہلی بار ہونا تھا کہ برطانیہ میں کسی مشتبہ شخص کو جرم ثابت کرنے کے لیے قبر سے نکالا جائے۔
حکام کو اجازت حاصل کرنے اور ہوم سکریٹری کی منظوری حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر اپیل کرنی پڑی۔
سنہ 2001 سے 2004 تک ہوم سیکریٹری رہنے والے ڈیوڈ بلنکٹ نے کہا کہ ’مجھے بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ کیا کافی ثبوت موجود ہیں کیونکہ یہ ایک بڑا قدم تھا اور اگر ہم غلط ہوتے تو اس میں ملوث خاندانوں کو بجا طور پر تکلیف پہنچتی۔‘
قبر کشائی کے دوران قبرستان میں خیمے لگائے گئے تھے
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرا فیصلہ بالکل واضح تھا کہ جوزف کیپن کی لاش کو نکالا جائے تاکہ سب کے لیے اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ یہ وہی شخص تھا جس نے قتل کیا تھا اور اہلخانہ کو کچھ سکون ملے۔‘
چنانچہ مئی 2002 میں تاریخ رقم ہوئی اور آدھی رات کو تین افراد پر مشتمل ٹیم نے قبر کھودنا شروع کی۔ ڈاکٹر ڈارک کہتے ہیں کہ ’یہ ایک خوفناک رات تھی اور جیسے ہی ہم کپن کے تابوت کے پاس پہنچے وہاں تالیاں بجنے لگیں۔‘
سوانسی کے پڑوسی موریسن ہسپتال میں فرانزک ڈی این اے کے معائنے سے یہ ثابت ہوا کہ کپپن ہی تین لڑکیوں کا قاتل تھا، تقریباً تین دہائیوں بعد۔
سوانسی کے ہسپتال میں فرانزک ڈی این اے کے معائنے سے یہ ثابت ہوا کہ کیپن ہی تین لڑکیوں کا قاتل تھا۔
جیرالڈائن کی کزن، جولی بیگلی نے کہا ’یہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کہ ہم سب نے کیسا محسوس کیا، یہ بہت بہترین موقع تھا۔
’ہم میں سے کسی نے بھی یہ امید ختم نہیں کی تھی، ایک دن ہمیں پتہ چل جائے گا کہ وہ کون تھا۔ اگرچہ زندگی چلتی رہتی ہے اسے کبھی نہیں بھلایا جاتا۔ جیرالڈائن ایک شاندار لڑکی تھی۔ ہمیشہ خوشی سے بھری رہتی تھی۔‘
سینڈرا نیوٹن کی دوست تھریسا مے نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ میں اسے دوبارہ دیکھوں گی، ہمارے پاس ایک دوسرے کو بتانے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘
نہ صرف جیرالڈائن اور پولین کے چاہنے والے اس باب کو بند کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ سینڈرا کا خاندان بھی۔
سینڈرا کی ایک دوست تھریسا مے نے کہا کہ میں 49 سال سے ان کی قبر پر جا رہی ہوں اور میرے لیے یہ سوچنا اب بھی مشکل ہے کہ وہ وہاں موجود ہیں۔
’میری خوبصورت دوست۔ انھوں نے اس کی جان لے لی، اس کا مستقبل لے لیا۔ میں اب بھی اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔‘
Comments are closed.