اسرائیل میں بڑا احتجاج: ’ایران، سعودی عرب میں معاہدہ ہوگیا لیکن یہ حکومت جمہوریت کچلنے میں مصروف‘
احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ جمہوریت پسند شہریوں نے سنیچر کے روز ملک بھر میں سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کروایا
- مصنف, جارج ورٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
اسرائیل میں عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے منصوبے کے خلاف حکومت مخالف ملک گیر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں لاکھوں اسرائیلی شہری شریک ہوئے۔
حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ 10 ہفتوں سے جاری ہے تاہم سنیچر کے اس احتجاجی مظاہرے کو ’ملکی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج میں سے ایک‘ کہا گیا ہے۔
اسرائیلی شہر حیفہ سمیت مختلف شہروں میں ریکارڈ تعداد میں مظاہرین باہر نکلے۔ ایک اندازے کے مطابق تل ابیب میں تقریباً دو لاکھ مظاہرین سراپا احتجاج تھے۔
تـجزیہ کاروں کے مطابق عدالتی نظام میں کی جانے والی ان اصلاحات سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ عدالتی نظام میں مجوزہ تبدیلیاں ووٹرز کے لیے بہتر ثابت ہوں گی۔
احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ جمہوریت پسند شہریوں نے سنیچر کو ملک بھر میں سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔
اسرائیلی اخبار ہاریٹز نے اپنی سرخیوں میں اسے ’ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ‘ قرار دیا۔
اسرائیل میں حزب اختلاف کے لیڈر یائر لیپڈ نے جنوبی شہر بیئر شیوا میں مظاہروں کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ ’ملک اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران‘ سے گزر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں مسلسل دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ ہماری معیشت تباہ ہو رہی ہے، پیسہ (ملک کے خزانے کے بجائے) باہر منتقل ہو رہا ہے۔
’ایران نے سعودی عرب کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر دستخط کر دیے لیکن ہماری حکومت کو اسرائیلی جمہوریت کو کچلنے کے سوا کسی چیز کی پروا نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
تل ابیب میں مظاہرے میں شریک ایک احتجاجی تامیر گیٹسابری نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’یہ عدالتی اصلاحات نہیں بلکہ ایسا انقلاب ہے جو اسرائیل کو مکمل آمریت کی طرف لے جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسرائیل میرے بچوں کے لیے جمہوری ہی رہے۔‘
عدالتی اصلاحات کے حکومتی منصوبے کے خلاف لاکھوں مظاہرین اسرائیل کی سڑکوں پر سراپا احتجاج رہے۔
یہ اصلاحات منتخب حکومت کو ججوں کے انتخاب پر فیصلہ کن اثر و رسوخ دیں گی جبکہ ایگزیکٹو کے خلاف قانون سازی سپریم کورٹ کے اختیارات کو بھی محدود کیا گیا ہے۔
ان اصلاحات نے اسرائیل کے اندر گہری معاشرتی اور سماجی تقسیم پیدا کر دی ہے اور خاص طور پر اسرائیل کی فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھنے والی ریزرو فوج میں بھی اس حوالے سے تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ انھوں نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر اپنی مخالفت ظاہر کرنے کے لیے کام سے انکار کی دھمکی بھی دی ہے۔
پیر کے روز اسرائیلی فضائیہ کے ایک ایلیٹ سکواڈرن میں درجنوں ریزرو فائٹر پائلٹس نے اپنی ٹریننگ پر آنے سے انکار کیا تاہم بعد میں اپنے کمانڈروں کے ساتھ مذاکرات کے بعد وہ تربیتی کورس پر واپس آنے پر آمادہ ہو گئے۔
جمعرات کو ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے ایئر پورٹ جانے والی سڑکیں بند کر دیں اور وزیر اعظم نتن یاہو کے بیرون ملک دورے پر روانگی میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی۔
تاہم نتن یاہو کسی نہ کسی طور روم کے لیے روانہ ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیے:
دوسری جانب کئی ہفتوں سے جاری اس احتجاج کے سامنے حکومت ڈٹی ہوئی ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مظاہروں کو سیاسی مخالفین بڑھاوا دے رہے ہیں۔
ناقدین کے مطابق عدالتی نظام میں اصلاحات، جو پہلے ہی پارلیمنٹ کے سامنے زیر غور ہیں، عدلیہ کو آزاد رہنے کے بجائے سیاسی اثر و رسوخ میں لے آنے اور ایک آمرانہ حکومت کے راستے کا باعث بن سکتی ہیں۔
ادھر وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات عدالتوں کو ان کے اختیارات سے تجاوز کرنے سے روکنے کے لیے بنائی گئی ہیں اور اسرائیلی عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے کے باعث انھیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اصلاحات کر سکیں۔
Comments are closed.