خفیہ مذاکرات، ملاقاتیں اور ثالثی: متحدہ عرب امارات انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے میں کامیاب ہو گا؟

  • مصنف, وکاس ترویدی اور اعظم خان
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

پاکستان یو اے ای

،تصویر کا ذریعہReuters

متحدہ عرب امارات کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی کوشش پر بات کرنے اور اس حوالے سے ماہرین کی رائے جاننے سے قبل پاکستان اور انڈیا کے درمیان پائی جانے والی موجودہ کشیدگی کے پسِ منظر کو جاننا ضروری ہے۔

اس تناؤ کو سمجھنے کے لیے جہاں دونوں ممالک کے درمیان ماضی قریب کے چار واقعات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے وہیں متحدہ عرب امارات کی ماضی کی کامیاب ثالثی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پہلے چار واقعات کا ذکر اور پھر پاکستان اور انڈیا کے ماہرین سے اس عنوان پر بات کرتے ہیں۔ فروری 2019: انڈین فوجیوں سے بھری ایک بس انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے گزر رہی تھی جب بارود سے بھری ایک کار پلوامہ کے مقام پر اس بس سے ٹکرا گئی۔ اس خودکش حملے میں 40 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔ 26 فروری 2019: انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس کی فضائیہ نے پاکستان کے بالاکوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کی ہے جس کے ردعمل میں انڈین نیوز چینلز نے ’بدلہ‘ اور ’گھر میں گھسنے‘ جیسی شہ سرخیاں چلانی شروع کر دیں۔ 5 اگست 2019: کشمیر اور امرناتھ یاترا پر جانے والے انڈین شہریوں کو جلد از جلد گھر واپس آنے کو کہا گیا جبکہ اس دوران کشمیر کی فضا میں خاموشی تھی اور فوجیوں کی بھاری تعداد وادی میں تعینات تھی۔ پھر 5 اگست کو مودی حکومت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا۔

یہ وہ تین تاریخیں ہیں جنھوں نے حالیہ برسوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان فاصلے اور تلخیوں کو بڑھایا ہے۔

پھر ڈیڑھ سال بعد سنہ 2021 میں اچانک انڈیا اور پاکستان کے فوجی افسران کی ملاقات، اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ‘بات چیت’ کا بیان اور کپاس اور چینی کی درآمد پر پابندی ہٹانے جیسی باتیں ہونے لگیں۔

اس دوران یہ محسوس ہوا کہ رشتہ دوبارہ پٹری پر آ رہا ہے مگر ایسا ہو نہیں پایا۔

اب متحدہ عرب امارات، جسے امریکی جنرل کسی زمانے میں ’لٹل سپارٹا‘ کہا کرتے تھے کے ذریعے جنوری 2023 میں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری کی دوبارہ امید پیدا ہوئی ہے۔

مگر کیا متحدہ عرب امارات ایک بار پھر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تلخی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مالی مشکلات کا شکار پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کا تازہ ترین بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے۔

India UAE

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شہباز شریف نے العربیہ نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اس بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ’میں نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے درخواست کی ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کی سہولت فراہم کریں کیونکہ یو اے ای نہ صرف پاکستان کا دوست ہے بلکہ اس کے انڈیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے حوالے سے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘

تاہم اس انٹرویو کے نشر ہونے کے اگلے روز وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ انڈیا سے بات چیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم نہیں کر دیا جاتا۔

شہباز شریف کے اس انٹرویو پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا، ’اس طرح کی بات چیت کے لیے امن کا ماحول ہونا چاہیے۔‘

شہباز شریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آئیے مل کر بیٹھیں اور کشمیر جیسے سلگتے ہوئے مسئلے پر سنجیدہ بات کریں۔‘

ایسے میں سوال یہ ہے کہ ماضی میں انڈیا اور پاکستان کو ایک ساتھ لانے میں متحدہ عرب امارات کا کیا کردار رہا؟ کیا متحدہ عرب امارات واقعی شہباز شریف کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے اور یو اے ای، انڈیا اور پاکستان دونوں ہی کے لیے اتنا خاص کیوں ہے؟

اس کے ساتھ ہم یہ بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ متحدہ عرب امارات کو اس سب سے کیا حاصل ہو گا؟

India UAE

،تصویر کا ذریعہReuters

تجارت: انڈیا، پاکستان اور متحدہ عرب امارات

تینوں ممالک کے درمیان تعلقات کو سمجھنے کے لیے آئیے آبادی اور تجارت سے آغاز کرتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی کل آبادی 93 لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں 35 لاکھ انڈین شہری جبکہ پاکستانیوں کی تعداد 13 لاکھ سے زائد ہے۔

تجارت اور صنعت کی وزارت کے مطابق متحدہ عرب امارات انڈیا کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

سنہ 2021-22 میں دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 73 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ توقع ہے کہ اگلے تین برسوں میں یہ تجارت 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہو جائے گی۔

متحدہ عرب امارات انڈیا میں آٹھواں بڑا سرمایہ کار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق متعدد انڈین کمپنیوں نے متحدہ عرب امارات میں تقریباً 85 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

انڈیا متحدہ عرب امارات کو قیمتی دھاتیں، پتھر، زیورات، معدنیات، شکر، پھل، سبزیاں، چائے، گوشت، کپڑا، انجینیئرنگ مشینری کا سامان اور کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ جبکہ انڈیا متحدہ عرب امارات سے پٹرولیم مصنوعات، جواہرات اور زیورات اور خام تیل درآمد کرتا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور انڈیا کے درمیان تعلقات کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ جون 2022 میں جب وزیر اعظم نریندر مودی ابوظہبی گئے تھے تو شیخ محمد بن زید النہیان خود ایئرپورٹ پر انھیں لینے آئے تھے۔

دوسری جانب پاکستان کے بھی یو اے ای سے اچھے تعلقات ہیں اور جنوری 2023 میں جب پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف یو اے ای گئے تو انھیں مالی بحران سے نکلنے کے لیے تین ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔

سال 2021-22 میں متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان تقریباً 10 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ اندازہ ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ تجارت مزید بڑھ سکتی ہے۔

ڈیٹا ویب سائٹ او ای سی کے مطابق متحدہ عرب امارات نے 2020 میں پاکستان سے ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی برآمدات کیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو تقریباً ایک ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں۔ متحدہ عرب امارات بنیادی طور پر پاکستان کو تیل اور ’سکریپ آئرن‘ بھیجتا ہے اور پاکستان سونا، گوشت اور چاول یو اے ای بھیجتا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے ماضی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟

پلوامہ کا معاملہ ہو، بالاکوٹ کا، یا آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کا، ان واقعات سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان فاصلے پیدا ہو گئے ہیں۔

یہ فاصلے فروری 2021 میں کم ہونا شروع ہوئے۔ 25 فروری کو انڈیا اور پاکستان کے فوجی حکام نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ 2003 کے جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔

اسی لیے پاکستانی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پرانے تنازعات کو بھلا کر مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کی۔

ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی کوششیں کی گئیں، جن کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ تعلقات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

پھر اپریل 2021 میں خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ آئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی قربت بڑھانے کی سمت میں متحدہ عرب امارات کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

جنوری 2021 میں اس سلسلے میں دبئی میں انڈیا اور پاکستان کے حکام کی ایک ’خفیہ میٹنگ‘ بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں اس بات کی تصدیق کی تھی۔

یوسف العتیبہ نے کہا تھا کہ ’متحدہ عرب امارات نے کشمیر کے حوالے سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ توقع ہے کہ اب انڈیا اور پاکستان کے تعلقات ’صحت مند‘ ہوں گے۔ جہاں وہ ایک دوسرے سے بات کریں گے اور اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں واپس بھیجیں گے۔‘

متحدہ عرب امارات کے سفیر کے مطابق ’یہ ممکن ہے کہ انڈیا اور پاکستان قریبی دوست نہ بنیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ بات چیت شروع کریں۔‘

اس بیان کے تین دن بعد انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ابوظہبی گئے۔

سنہ 2021 میں ہی ایسا ہی ایک دعویٰ بلومبرگ کی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا اور پاکستان نے متحدہ عرب امارات کی ثالثی سے امن کے لیے روڈ میپ تیار کرنے پر کام کیا گیا۔

اگرچہ انڈیا نے متحدہ عرب امارات کی ثالثی کے معاملے کو سرکاری طور پر قبول نہیں کیا لیکن انڈیا نے ہمیشہ کشمیر کے معاملے پر کسی تیسرے ملک کی مداخلت کو سرکاری طور پر مسترد کیا ہے۔

اس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو قبول نہ کرنے جیسی چیزیں بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان یوسف العتیبہ کی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کو بات چیت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے بغیر کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔

ان کے مطابق انھوں نے پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور پھر بعد میں پرویز مشرف کے ساتھ بھی کام کیا مگر ان کی یہ مستقل رائے رہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے بغیر نتائج صفر ہی رہیں گے۔

ان کے مطابق سابق حکمرانوں نے ’سٹیٹس کو‘ کو مضبوط بنانے کے علاوہ کوئی پیش رفت نہیں کی۔

UAE

،تصویر کا ذریعہKAGENMI/GETTY IMAGES

متحدہ عرب امارات: انڈیا اور پاکستان سے کتنا قریب ہے؟

خیال رہے کہ انڈین شہریوں کی ایک بڑی تعداد متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور انڈیا کے بھی اچھے تجارتی تعلقات ہیں۔

وزیرِاعظم نریندر مودی کے طرز حکمرانی اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے درمیان بھی واضح مماثلت ہے، جہاں طاقت ایک فرد کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

دبئی کی شہزادی شیخ طلیفہ کی گرفتاری کے حوالے سے غیر ملکی میڈیا کی کئی رپورٹس میں انڈیا اور نریندر مودی کے کردار کے بارے میں دعوے کیے گئے تھے۔

جہاں یو اے ای کے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے تھے وہیں پاکستان سے کچھ فاصلے بڑھ رہے تھے۔ سنہ 2020 میں متحدہ عرب امارات نے بھی کورونا کے دور میں پاکستان سے آنے والے مسافروں کو ویزے دینے پر عارضی پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندی انڈیا پر نہیں لگائی گئی۔

ماہرین نے اس پابندی کی ایک وجہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات امن معاہدے کے دوران پاکستان کی جانب سے کی گئی ’ایجی ٹیشن‘ کو بھی قرار دیا۔

تاہم اس سب کے باوجود پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ ’برادرانہ‘ تعلق بھی ہے۔

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی ماہر ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یو اے ای پاکستان اور انڈیا دونوں کا اچھا دوست ہے۔ ان دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے باشندے بڑی تعداد میں متحدہ عرب امارات میں ملازمت اور کاروبار کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ثالثی کے لیے سب سے اہمیت کی حامل بات تیسرے فریق کا قابل اعتماد اور بااثر ہونا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سلمی کے مطابق اس وقت یو اے ای پر پاکستان اور انڈیا اعتماد بھی کرتے ہیں اور یو اے ای کا عالمی سطح پر ثالث کے طور پر اچھا تاثر بھی پایا جاتا ہے۔

ان کے مطابق اس وقت یو اے ای کی یہ خواہش ہے کہ دو ممالک کو ایک ساتھ بٹھا کر وہ عالمی سطح پر بااثر ملک کے طور پر اپنی کریڈیبلٹی بڑھا سکے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سلمیٰ ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کا بیان پاکستان کی بیان کردہ پالیسی کا حصہ ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب انڈیا مذاکرات کے لیے آمادہ نہ ہو تو پھر یہی پالیسی بیان بہتر محسوس ہوتا ہے۔

انڈیا کی جامعہ یونیورسٹی کے سنٹر فار ویسٹ ایشین سٹڈیز کی پروفیسر ڈاکٹر سجتا ایشوریا نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’بہت سارے انڈین متحدہ عرب امارات میں کام کرتے ہیں اور ماضی میں انڈین حکومتیں متحدہ عرب امارات میں اپنی یہ شبیہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں کہ انڈین امن پسند ہیں۔

’ہمارے بہت سے مسائل کے باوجود انڈین جمہوریت ایک ایسی جھلک پیش کرتی ہے جو بہت پُرکشش ہے۔ یقیناً یو اے ای اسے پسند کرتا ہے۔‘

کشمیر کے معاملے پر متحدہ عرب امارات کا مؤقف انڈیا کے حق میں تھا۔ اس نے اس وقت کشمیر کے مسئلے میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد اس خطے میں ترکی اور قطر کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر متحدہ عرب امارات کے اپنے تحفظات ہیں۔

وہ اس علاقے میں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے اور ایسے میں متحدہ عرب امارات پاکستان کی حمایت چاہتا ہے۔

India UAE

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مفاہمت کیسے ہوگی اور کیا واقعی ایسا ہوگا؟

فرض کریں متحدہ عرب امارات مفاہمت کے لیے تیار ہے تو کیا انڈیا اور پاکستان بھی تیار ہوں گے؟

آصف درانی یو اے ای میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس خبر کی تصدیق جس وقت تک سرکاری سطح پر ن جائے تو اس حوالے سے وہ اس پر تبصرہ کرنا وقت کا ضیاع ہی سمجھیں گے۔

ان کے خیال میں اگر یو اے ای کا کوئی پس پردہ کردار مفاہمت کے لیے چل رہا تھا اور اب وہ کسی فریق نے لیک کر دیا ہے تو پھر اس میں تردید کے امکانات موجود ہیں۔

اس وجہ سے انھوں نے اس پر اپنی رائے دینے سے گریز کیا ہے۔

پروفیسر سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ‘شہباز شریف نے گیند انڈیا کے کورٹ میں پھینکی ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ اس گیند سے کیا چاہتے ہیں۔ گیند کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں یا کچھ اصول طے کرنا چاہتے ہیں؟

انھوں نے کہا کہ ’تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھیں۔ کوئی بھی مفاہمت اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب دو فریق کسی مسئلے پر متفق ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دونوں ممالک اس بات پر تیار ہوں کہ متحدہ عرب امارات کا کردار منصفانہ ہو گا تاکہ وہ صحیح معنوں میں مفاہمت کر سکے۔‘

شمشاد احمد خان کے مطابق یہ تمام کوششیں بے سود رہیں گی کیونکہ پاکستان کے عوام کشمیر کے بغیر کسی حل کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں اس سارے معاملے میں یو اے ای کو کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکتی۔

بین الاقوامی اور دفاعی امور کے ماہر قمر آغا نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’اٹل بہاری واجپائی نے بھی انڈیا کی طرف سے امن قائم کرنے کی کوششیں کیں۔ وزیر اعظم مودی بھی نواز شریف سے ملاقات کے لیے پاکستان پہنچ گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مذاکرات کئی بار ہوتے ہیں لیکن جب حل قریب نظر آتا ہے تو کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے۔ انڈیا کہتا رہا ہے کہ بات چیت کرنی ہے تو دہشت گردی پر قابو پانا ہو گا۔ دہشت گرد تنظیموں کو بند کرنا ہو گا۔‘

اس پر پروفیسر سجاتا گوڑ کہتی ہیں کہ ’انڈیا کبھی بھی کسی تیسرے ملک کی مداخلت پسند نہیں کرتا۔ کسی بھی مفاہمت کا انحصار اس وقت پر ہوتا ہے جس وقت یہ کیا جا رہا ہو۔ مسئلہ کشمیر حل ہو گیا تو سیاست کیسے ہو گی؟‘

کیا انڈیا امن کے نام پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھے گا؟ کیا پاکستان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو انڈیا کا حصہ سمجھے گا؟ انڈیا اور پاکستان دونوں کبھی بھی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتے۔‘

پروفیسر سجاتا کے مطابق ’یہ سب سے اہم ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں اس حقیقت کو ماننے پر تیار رہیں کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس حوالے سے پاکستانی فوج تیار ہے؟‘

یہ بھی پڑھیے

UAE

،تصویر کا ذریعہGetty Images

متحدہ عرب امارات کو کیا فائدہ ہوگا؟

فرض کریں کہ اگر مفاہمت بھی ہو جائے اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان تلخی بھی کم ہو جائے تو کیا متحدہ عرب امارات کو اس سے کوئی فائدہ ہو گا؟

اسلامی اور خلیجی ملک ہونے کے باوجود متحدہ عرب امارات کا تاثر سخت گیر اسلامی ملک کا نہیں ہے۔

متحدہ عرب امارات نے کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد اس بارے میں کسی قسم کا ردِعمل نہیں دیا نہ ہی کوئی مداخلت کی ہے۔

ڈاکٹر سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ’یو اے ای ایک ایسے ملک کا تاثر پیش کرتا ہے جو امن پسند ہو اور ثالثی کروانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘

’ہر ملک کا اپنا وژن ہوتا ہے کہ وہ اپنا امیج دنیا میں کس طرح دکھانا چاہتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اس معاملے میں خود کو ثالث کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ انڈیا عالمی امن کی بات کرتا ہے، ایسے میں انڈیا اور پاکستان متحدہ عرب امارات کے ایجنڈے میں فٹ ہیں۔‘

قمر آغا کا کہنا ہے کہ ’متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک بھی امن چاہتے ہیں کیونکہ جب بھی پاکستان پر بوجھ پڑتا ہے تو ان ممالک کو مدد کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔‘

ان کے مطابق ’متحدہ عرب امارات چاہتا ہے کہ کسی طرح پاکستان میں استحکام آئے۔ ایک عرصے سے امریکہ اسرائیل فلسطین میں قیام امن کے لیے کوششیں کرتا ہوا نظر آیا لیکن وہ کچھ حاصل نہ کر سکا۔

’اگرچہ متحدہ عرب امارات اور قطر مفاہمت کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپ اب بھی طاقتور ممالک ہیں اور ان کا کردار کسی صورت بھی کم نہیں ہوا ہے۔‘

سنہ 2016 میں بھی متحدہ عرب امارات نے ایتھوپیا اور اریٹیریا کے درمیان امن قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔

متحدہ عرب امارات نے ایتھوپیا اور مصر کے درمیان دریائے نیل پر ڈیم کی تعمیر کے تنازع کو حل کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔ متحدہ عرب امارات جو کبھی لیبیا کو اسلحہ فراہم کرتا تھا، اب یہ اس حوالے سے سیاسی حل اور امن مذاکرات کی وکالت کرتا نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر سجتا ایشوریہ کے مطابق ’دیگر ممالک کے مقابلے میں متحدہ عرب امارات ایک نیا ملک ہے، جو تیل کی بنیاد پر تیزی سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا ہے۔

’ایسا لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات ایک جدید ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ جب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تو اس نے ظاہر کیا کہ وہ مفاہمت کا باعث بن سکتا ہے۔‘

اس حوالے سے سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا عرب دنیا کا یہ چھوٹا سا ملک دنیا کی 20 فیصد آبادی رکھنے والے اور تین جنگیں لڑنے والے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ممالک انڈیا اور پاکستان کے تعلقات پر پڑی دھول صاف کر پائے گا؟ مکمل جواب صرف انڈیا اور پاکستان ہی دے سکتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ