دوسری عالمی جنگ کے پائلٹ نے 99 برس کی عمر میں سائیکلنگ کے عالمی مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیت لیا
- سوزین بئیرن
- بزنس رپورٹر
کینتھ جڈ بھلے ہی 99 سال کے ہوں لیکن وہ اب بھی غیر معمولی صلاحتیوں کے مالک ہیں۔
تقریباً سو سال کے اس سائیکلسٹ نے گذشتہ ماہ سائیکلنگ کے ایک عالمی مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا، جس میں پانچ ہزار سے زائد کھلاڑی شامل تھے۔
کینیتھ جڈ نے اس دوڑ میں 26 دنوں میں 2,348 میل (3,779 کلومیٹر) کا سفر سائیکل پر طے کیا۔ یہ اوسطاً 90 میل فی 24 گھنٹے سے زیادہ کا فاصلہ ہے، ایک ایسا فاصلہ جسے بہت سے نوجوان ایک دن میں نہیں طے کر سکتے۔۔ باقی مسلسل 25 دن ایسے ہی سفر جاری رکھنے کا تو تذکرہ ہی نہ کریں۔
سائیکل چلاتے ہوئے کینیتھ اپنے آبائی علاقے یارک شائر اور لیک ڈسٹرکٹ میں پُرسکون ماحول سے لطف اندوز بھی ہو رہے تھے۔ وہ واروکشائر کے ایک کیئر ہوم میں ہائی ٹیک ایکسرسائز بائیک کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔
مسلسل پانچویں بار منعقد ہونے والے اس سالانہ مقابلے کا نام ’روڈ ورلڈز فار سینیئرز‘ رکھا گیا ہے۔ معمر افراد اس مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں اور ڈیمنشیا کے مریض بھی اس میں شریک ہو سکتے ہیں، جو ناروے کی فرم موٹی ٹیک کی بنائی ہوئی ’سٹیشنری بائیکس‘ (جم والی سائیکل جو ایک جگہ نصب رہتی ہے) پر سائیکلنگ کرتے ہیں۔
یہ سائیکلنگ مشینیں کسی لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر سے منسلک کر دی جاتی ہیں جہاں سے پھر اسے کسی ٹی وی یا مانیٹر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جب کوئی یہ سائیکل چلا رہا ہوتا ہے تو پھر وہ ایسے میں اپنے آپ کو حسین نظاروں سے گزرتے ہوئے بھی دیکھ سکتا ہے۔
اس قسم کی ٹیکنالوجی جم اور گھریلو سائیکل سواروں کے لیے کئی برسوں سے دستیاب ہے، لیکن موٹی ٹیک کا موٹی ویو سسٹم خاص طور پر معمر افراد اور ڈیمنشیا کے شکار افراد کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ آئیڈیا یہ ہے کہ سائیکلسٹ سڑکوں یا گلیوں کی ویڈیو کے ساتھ سائیکل چلائیں، جہاں وہ بچپن یا نوجوان بالغ کے طور پر رہتے تھے، تا کہ وہ جسمانی اور ذہنی ورزش کر سکیں۔
وہ یا ان کا نگہداشت کرنے والا کارکن، موسیقی کے معالجین کے مرتب کردہ پلے لسٹ میں سے متعدد گانوں کا انتخاب بھی کر سکتا ہے، تاکہ ان میں مزید جوش پیدا ہو۔
دی روڈ ورلڈ فار سینیئرز کے اس ایونٹ کو برٹش سائیکلنگ کی حمایت حاصل ہے، جو کہ برطانیہ میں کھیلوں کی گورننگ باڈی ہے۔ رواں برس سائیکلنگ کا یہ مقابلہ چھ ستمبر سے یکم اکتوبر تک ہوا، جیتنے والے وہ تھے، جنھوں نے اس مدت کے دوران سب سے زیادہ سائیکل چلائی ۔۔ سسٹم یہ ریکارڈ کرتا ہے کہ کس نے کتنا فاصلہ طے کر لیا ہے۔
کینیتھ جڈ دوسری بار اس مقابلے میں شریک تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے پائلٹ گذشتہ برس کے مقابلے میں ساتویں نمبر پر آئے تھے یعنی 2020 میں کورونا وائرس کی وبا بھی ان کے اس عزم کو نہ روک سکی۔
اور وہ اس سال کی دوڑ کے لیے جنوری سے موٹی ویو بائیک پر ٹریننگ کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق گذشتہ برس کے مقابلے میں اب میں بہتر کارکردگی دکھانا چاہتا تھا اور میں اس پر کام کیا کہ میں ایک دن میں کتنے کلومیٹرز اور گھنٹے سائیکل چلا سکتا ہوں۔
’اور میں اس وقت سائیکلنگ کرتا تھا جب کوئی دوسرا میرے قریب نہیں ہوتا تھا، یعنی گئے یا صبح سویرے۔ رات کا عملہ میرے لیے مشروبات لانے میں اپنی مثال آپ تھا، میری توجہ سائیکلنگ پر مرکوز رہتی تھی تو اور اسے میں میری چائے ٹھنڈی ہو جاتی تھی۔
آپ کو اپنی رفتار پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی ہے اور یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ آپ کتنا دور جا سکتے ہیں۔ کبھی کبھی میں یارکشائر اور دوسری جگہوں کو دیکھا اور جھیل کے علاقوں کی سیر کی۔
لنڈی ریناڈ، جو لندن کے ایک کیئر سینٹر پر معمر افراد کی دیکھ بھال کی کوآرڈینیٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ موٹی ویو کی بڑھتی مقبولیت کے پیچھے اہم وجہ یہ ہے کہ سینیئر سائیکلسٹ کو اپنا بچپن کی یادیں تازہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ان کے ذہن، جسم اور روح کے لیے اچھا ہے‘۔ یہ ان کے خوشگوار لمحات کو تروتازہ کر دیتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ او مجھے تو وہ یاد ہے۔‘
اگرچہ تمام معمر افراد ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کرتے تاہم ٹیکنالوجی میں اختراع سے ان کو بڑی مدد مل رہی ہے جیسا کہ تنہائی کا مقابلہ کرنا، اپنی حفاظت یقینی بنانا اور بیماری سے نمٹنا یا سادہ الفاظ میں اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے یہ ٹیکنالوجی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں بڑی عمر کے لوگ زیادہ رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق موجودہ نو فیصد کے مقابلے میں 2050 تک دنیا کی 16 فیصد آبادی 65 برس کی ہو گی یا اس سے بھی زیادہ عمر کی ہو گی۔
برطانیہ کی نیوکیسل یونیورسٹی کے نیشنل انوویشن سینٹر فار ایجنگ (این آئی سی اے) میں اس وقت ان کے پاس سڑک پر ٹیسٹ کرنے کے لیے گیٹا، جو ایک اطالوی سامان اٹھا کر لے جانے والا روبوٹ ہے، جس سے کوئی شخص مارکیٹ سے خریداری کر کے سامان گھر تک لا سکتا ہے۔
یہ روبوٹ 23 کلو گرام تک کا سامان اٹھا کر دس کلو میٹر کی رفتار سے سفر طے کرتا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت کا ایک سافٹ ویئر استعمال کرتا ہے اور اس میں ویڈیو کمیرے بھی نصب ہوتے ہیں، جس سے یہ اپنے مالک کو پہنچانتا ہے اور پھر کچھ فاصلے سے مالک کے پیچھے پیچھے چلتا رہتا ہے۔
گیٹا روبوٹ
این آئی سی اے کے ڈائریکٹر نائیکولو پالمیرینی کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹ کے روایتی تصور سے قدرے مختلف ہے۔ یہ بول نہیں سکتا اور نہ بات کر سکتا ہے۔ یہ ایک وفادار کتے کی طرح ہوتا ہے جو آپ کے پیچھے پیچھے چلتا رہتا ہے۔
لوگ رک کر آپ سے باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں جیسے یہ کتے کا بچہ ہو۔ یہ ایک بڑی تبدیلی کی مانند ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روبوٹ کے ساتھ معمر افراد زیادہ چلنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ روبوٹ آپ کو فالو کرتا رہتا ہے اور آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ جا کر خریداری کر لیں۔
یہ بھی پڑھیے
نیو ٹیک اکانومی ایک سیریز ہے جس میں یہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ٹیکنالوجی نے نئے معاشی معیارات کو کیسے بدل کر رکھ دیا ہے۔
کورونا وائرس کے دوران ہم میں سے اکثر اپنے خاندان اور دوستوں سے رابطے میں رہنے کے لیے ویڈیو کالز کا سہارا لینا شروع ہو گئے۔ لیکن یہاں تک کہ ہم میں سے سب سے زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے بھی کبھی کبھی زوم، سکائپ، گوگل میٹ، مائیکروسافٹ ٹیمز یا اسی طرح کی ایپلی کیشنز کو کام میں لانے میں مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔۔
معمر افراد کے لیے ویڈیو کالز کو وصول کرنا آسان بنانے کے لیے ناروے کی فرم نو آئسولیشن نے ایک ویڈیو سکرین ڈیوائس بناتی ہے، جسے کومپ کہا جاتا ہے۔
ایک بار سیٹ ہونے کے بعد اس شخص کے آن لائن رشتہ دار۔۔ جیسے بچے یا پوتے۔۔ ان کو اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر سے براہ راست اس پر ویڈیو کال کرسکتے ہیں۔ جب تک کومپ آن ہوتا ہے، یہ دس سیکنڈ کی گنتی کے بعد خود بخود کال شروع ہو جاتی ہے۔ اور اگر مالک بات چیت نہیں کرنا چاہتا تو وہ صرف اس کے واحد بٹن کے ذریعے اسے بند کر سکتے ہیں۔
یہ مشین خود بخود تصاویر بھی دکھاتی ہے جو رشتہ دار بھیجتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں پرائمری کیئر ہیلتھ سائنسز کی پروفیسر ٹرِش گرین ہالگ نے تقریباً تین سال قبل اپنی ساس کے لیے ایک کومپ خریدا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ لندن میں اکیلے ہی رہتی ہیں اور ان کا خاندان ان کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتا ہے‘۔
’اسے بس اسے آن کرنا ہے اور اس کے بعد پھر وہ پوتے پوتیوں کی تصاویر دیکھتی ہے اور جو کچھ بھی ہم وہاں دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے یاد رکھنے کے لیے کوئی ٹچ سکرین کا سسٹم یا پاس ورڈ نہیں ہے۔
تاہم گرین ہالگ مزید کہتی ہیں کہ اگر اس مشین کا مستقبل میں اپنے مالک کو ڈاکٹر سے رابطہ کرا دیے تو یہ زیادہ فائدہ مند ہو گی۔
اور کومپ پر ویڈیو کالز وصول کرنے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اسے ممکن بنانے کے لیے آپ کو موبائل فون رابطے والی ایپ استعمال کرنا ہوگی۔
خیراتی ادارے ’ایج یو کے‘ کے ڈائریکٹر کیرولین ابراہمز نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ٹیکنالوجی واقعی معمر افراد کی مدد کر سکتی ہے، لیکن اسے انسانی رابطے اور مدد کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں تک کہ بہترین ٹیکنالوجی بھی شاذ و نادر ہی اس مدد کا متبادل ہو سکتی ہے جسے زیادہ تر معمر افراد قدر کرتے ہیں اور مہربان اور پرعزم لوگوں سے ضرورت ہوتی ہے۔
’جیسے جیسے ٹیکنالوجی زیادہ نفیس ہوتی جا رہی ہے ہم اس کے کردار میں اضافے کی توقع کر سکتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ انسانی رابطے، یا کسی دوسرے انسان کے ساتھ بات چیت اور قہقوں کا متبادل ہو سکتا ہے‘۔
اپنے واروکشائر کیئر ہوم میں کینیتھ جڈ اب کم از کم سردیوں کے دوران سائیکلنگ سے وقفہ لے رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’میں فی الحال بائیکس کو دوبارہ نہیں چلاؤں گا‘۔
لیکن مجھے موسم بہار کے شروع میں دوبارہ سائیکلنگ کی ضرورت ہو گی تا کہ اگلے سال پھر مقابلے میں حصہ لیا جا سکے۔
ایڈیشنل رپورٹنگ نیو ٹیک اکانومی سیریز کے ایڈیٹر ول سمیل
Comments are closed.