24 سالہ ٹک ٹاکر مہک بخاری اور اُن کی والدہ دو نوجوانوں کے قتل کی مرتکب قرار

مہک بخاری اور عنصرین بخاری کی تصاویر

،تصویر کا ذریعہLEICESTERSHIRE POLICE

،تصویر کا کیپشن

مقدمے کی سماعت میں بتایا گیا کہ مہک بخاری (بائیں) اور ان کی والدہ ثاقب حسین کو خاموش کروانا چاہتی تھیں

  • مصنف, جارج ٹور، ڈین مارٹن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

برطانیہ میں ایک سوشل میڈیا انفلوینسر اور اُن کی والدہ کو دو افراد کے قتل میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ ان دونوں خواتین پر الزام تھا کہ انھوں نے فروری 2022 میں دو نوجوانوں کو منصوبہ بندی کے تحت سڑک کے حادثے میں جان سے مروایا تھا۔

جیوری کو بتایا گیا کہ 21 سالہ ثاقب حسین نے عنصرین بخاری کو اُن کے بیچ افیئر کو عام کر دینے کی دھمکی دی تھی۔ سڑک پر پیش آنے والا واقعہ اس دھمکی کے بعد پیش آیا تھا۔

46 سال کی عنصرین بخاری اور ان کی بیٹی مہک بخاری کو جیوری کی 28 گھنٹے کی آپس کی بحث کے بعد مجرم قرار دیا گیا۔

جب وقت جیوری کی جانب سے فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو 24 سالہ ٹک ٹاک انفلوئنسر اور ان کی والدہ رو رہی تھیں۔

اس کیس کی سماعت کے دوران لیسٹر کراؤن کورٹ میں جیوری کو بتایا گیا کہ ثاقب حسین نے عنصرین بخاری کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کی سیکس ویڈیوز اور تصاویر کو عام کر کے ان دونوں کے درمیاں افیئر کے بارے میں سب کو بتا دیں گے۔

جیوری کو حادثے سے چند لمحے پہلے ثاقب حسین کی طرف سے کی گئی پولیس کو کی گئی کال کی ریکارڈنگ بھی سنائی گئی۔

عدالت نے شریک ملزمان ریخان کاروان اور رئیس جمال کو بھی دونوں افراد کے قتل میں ملوث قرار دیا۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

عدالت نے برمنگھہم سے تعلق رکھنے والی 23 سال کی نتاشا اختر، لیسٹر سے تعلق رکھنے والے 28 سال کے امیر جمال، 23 سال کے صناف غلام مصطفیٰ کو قتل کے الزام سے بری کر دیا تاہم انھیں غیر ارادی قتل میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔

عدالت نے لیسٹر سے تعلق رکھنے والے 21 سال کے محمد پٹیل کو ارادی اور غیر ارادی قتل کے الزام سے بری کر دیا۔

مہک بخاری کے ٹک ٹاک پر تقریباً ایک لاکھ 29 ہزار فالورز ہیں اور وہ فیشن سے متعلق ویڈیوز پوسٹ کرتی تھیں۔ تین مہینے کی عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات بتائی گئی کہ مہک بخاری نے ثاقب حسین کے لیے ’جال تیار کیا۔‘

استغاثہ کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ شائر سے تعلق رکھنے والے ثاقب حسین کو عنصرین بخاری سے ملاقات کی ’لالچ‘ دے کر بلایا گیا۔ انھیں یہ کہا گیا کہ انھوں نے جو تین ہزار پاؤنڈ اپنی معشوقہ پر خرچ کیے تھے وہ انھیں واپس دیے جائیں گے۔

ثاقب حسین کو ان کے دوست ہاشم اعجاز الدین گاڑی چلا کر لیسٹر اس ملاقات کے لیے لے کر جا رہے تھے جب دو گاڑیوں نے ان کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ 11 فروری 2022 کو ہاشم اعجاز الدین کی گاڑی ایک درخت کے ساتھ ٹکرا کر دو ٹکروں میں بٹ گئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ریخان کاروان اور رئیس جمال تعاقب کرنے والی گاڑیاں چلا رہے تھے۔

ہاشم اعجازالدین (بائیں) اور ثاقب حسین کی تصاویر

،تصویر کا ذریعہLEICESTERSHIRE POLICE

،تصویر کا کیپشن

ہاشم اعجازالدین (بائیں) اور ثاقب حسین (دائیں)، دونوں کی عمریں 21 سال تھیں

اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ثاقب حسین نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہوئے بتایا کہ ماسک پہنے ہوئے لوگ دو گاڑیوں پر ان کی گاڑی کو ٹگر مار کر سڑک سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کال میں پریشان ثاقب حسین آپریٹر کو کہہ رہے ہیں ’وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’وہ لوگ مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مرنے والا ہوں، پلیز سر، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے وہ کار کو پیچھے سے ٹکر مار رہے ہیں۔ بہت تیزی سے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔ میں مرنے والا ہوں۔‘

کال کٹنے سے پہلے ایک زور دار چیخ بھی سنائی دیتی ہے۔

عنصرین بخاری (بائیں) اور ان کی بیٹی مہک بخاری کی تصویر

،تصویر کا ذریعہPA Media

،تصویر کا کیپشن

عنصرین بخاری (بائیں) اور ان کی بیٹی مہک بخاری نے چھ دیگر ملزمان کے ساتھ مقدمے کا سامنا کیا

مجرمان کو تحویل میں دینے سے پہلے جج ٹمتھی سپینسر کے سی نے کہا ’آپ جانتے ہیں کہ سزا سنگین ہو گی۔‘

سزا یکم ستمبر کو سنائی جانے والی ہے۔

فیصلے کے اعلان کے بعد ثاقب حسین کے خاندان کی طرف سے بیان دیا گیا۔ انھوں نے کہا ثاقب حسین ’بہت پیار کیے جانے والا نوجوان تھا‘ وہ ’مہربان، خیال رکھنے والا اور سمجھدار‘ تھا۔

ان کے گھر والوں نے کہا کہ اس بہیمانہ عمل نے انھیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔

بیان میں انھوں نے کہا ’ثاقب کی موت نے نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ ان تمام لوگوں کو غمزدہ کر دیا ہے جو انھیں جانتے تھے۔‘

’ہمیں امید اور بھروسہ ہے کہ ثاقب کو ہمارے رب کے پاس ابدی سکون ملا ہے، اور جب ہم اس دنیا سے گزر جائیں گے تو ہم دوبارہ ان کے ساتھ ملیں گے۔‘

انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ دعا کرتے ہیں کہ کسی اور خاندان کو ان حالات کا کبھی سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ بھی پڑھیے

مجرموں کی تصویریں

،تصویر کا ذریعہLEICESTERSHIRE POLICE

،تصویر کا کیپشن

ریکان کاروان، رئیس جمال قتل کے مجرم پائے گئے۔ امیر جمال، صناف غلام مصطفیٰ اور نتاشا اختر، جنھیں غیر ارادی قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا

ہاشم عجاز الدین کے اہلخانہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے ’سوپر سٹار‘ تھے اور ان کی موت کے بعد ان کی دنیا بکھر گئی ہے۔

اپنے بیان میں انھوں نے کہا ’جو بھی ہاشم کو جانتا تھا وہ اس سے پیار کرتا تھا۔ ان کی موت نہ صرف گھر والوں کے لیے بلکہ پوری برادری کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔‘

انھوں نے کہا ہاشم ’ہمیشہ مسکراتا تھا، وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا جو اندر اور باہر سے خوبصورت تھا۔‘

’وہ کسی کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا، وہ بہت خیال رکھنے والا اور اچھے دل کا مالک تھا۔‘

’ہاشم ہمیشہ دوسروں کو پہلے رکھتا تھا اور اگر دوسروں کو مدد چاہیے ہوتی تھی تو وہ بلا جھجک مدد کرتا تھا۔‘

’اس المناک دن، وہ صرف اپنے دوست کی مدد کر رہا تھا اور اس نتیجے میں اس کی موت ہو گئی۔‘

’نہ صرف ہاشم کو اتنی چھوٹی عمر میں کھونا انتہائی تکلیف دہ رہا ہے بلکہ وہ حالات بھی جن میں ہم نے اسے کھو دیا تکلیف دہ ہے۔

مقتول کے گھر والے میڈیا کو بیان دے رہے ہیں

،تصویر کا کیپشن

ثاقب حسین کے والد سجاد حسین (درمیان میں) اور ہاشم اعجاز الدین کے چچا انصر حسین (دائیں جانب) نے فیصلے کے بعد جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا

فیصلے کے بعد لیسٹر شائر پولیس کے انسپکٹر مارک پیرش نے کہا ’یہ ایک ظالمانہ حملہ تھا جس میں دو افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔‘

’ثاقب حسین اور ہاشم اعجازالدین کے جال ڈالنے کے بعد تیز رفتاری سے ان کا پیچھا کرنے اور پھر بالآخر ان کی گاڑی کو سڑک سے اتارنے کے بعد ملزمان میں سے کسی نے بھی متاثرین کی مدد کرنے یا ان کی مدد کے لیے کسی کو کال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔‘

’اس کے بجائے وہ آگے نکل گئے اور پھر واپس تصادم کی جگہ سے گزرے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ