1976 ایئر فرانس ہائی جیکنگ: جب اسرائیل نے ہائی جیکروں کو مذاکرات کا جھانسہ دے کر ’خفیہ‘ کارروائی کی
- ثقلین امام
- بی بی سی اردو، لندن
رہا ہونے والی خاتون کی اسرائیل واپسی
27 جون 1974 کو اسرائیل کے شہر تل ابیب سے پیرس کے لیے روانہ ہونے والے ایک مسافر طیارے کو چار ہائی جیکروں نے اغوا کر لیا اور اسے یوگینڈا لے گئے۔
ایئر فرانس کی پرواز 139 میں کل 250 افراد سوار تھے جن میں سے 100 سے زیادہ افراد اسرائیلی یا یہودی تھے۔ اس پرواز نے ایتھنز سے ہوتے ہوئے پیرس پہنچنا تھا۔ جب طیارہ ایتھنز پہنچا تو وہاں سے اس پر مزید مسافر سوار ہوئے جن میں چار ہائی جیکروں سمیت 58 افراد شامل تھے۔
پرواز کے فضا میں بلند ہونے کے فوراً بعد ہی ہائی جیکرز نے اسے لبیا کے شہر بن غازی کی جانب موڑ دیا اور کچھ گھنٹے وہاں رکنے اور ایندھن ڈلوانے کے بعد اس طیارے کی منزل یوگینڈا کا شہر انتبے تھی جہاں اس وقت فوجی آمر عیدی امین کی حکومت تھی۔ یہ طیارہ 28 جون 1976 کو یوگینڈا پہنچا تھا۔
یہ طیارہ فلسطین کی آزادی کے لیے سرگرم پاپولر فرنٹ فار لیبریشن آف فلسطین ایکسٹرنل آپریشنز (پی ایف ایل پی – ای او) کے ودیع حداد کے حکم کے تحت ہائی جیک کیا گیا تھا (پی ایف ایل پی کا یہ دھڑا اس سے قبل جارج حباش کے پی ایف ایل پی کے دھڑے سے الگ ہو گیا تھا)۔
اس کارروائی میں جرمنی کی ایک بائیں بازو کی گوریلا تنظیم کے دو ارکان بھی شامل تھے۔ اس ائیرپورٹ پر ان ہائی جیکروں کے ساتھ ان کے پی ایف ایل پی کے مزید تین ساتھی بھی شامل ہو گئے۔
ہائی جیکروں نے اسرائیل میں قید 40 اور چار دیگر ممالک کی جیلوں میں بند 13 عسکریت پسندوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یوگینڈا کے صدر عیدی امین نے بھی ان کا ساتھ دیا اور انھیں ہتھیار اور اپنی فوج کے جوان فراہم کر دیے۔
طیارے سے تمام یرغمالیوں کو اینتبے کے ہوائی اڈے کے ’اولڈ ٹرمینل‘ کی عمارت میں منتقل کرنے کے بعد، اغوا کاروں نے اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلی یہودیوں کو بڑے گروپ سے الگ کر کے انھیں ایک علیحدہ کمرے میں بند کر دیا گیا۔
جیسے ہی اسرائیلی حکومت نے ہائی جیکنگ کا سنا ملٹری کے منصوبہ سازوں نے اپنے آپشنز پر غور کرنا شروع کر دیا۔
ہائی جیکرز کی ڈیڈلائن اور اسرائیل پر دباؤ
اینتبے میں لینڈ کرنے کے ایک دن بعد 29 جون کو ہائی جیکروں نے اپنا مطالبہ پیش کیا جو یہ تھا کہ اسرائیل، فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور کینیا ان کے 53 ساتھیوں کو رہا کریں۔ ہائی جیکرز نے اعلان کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ یکم جولائی کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے سے مسافروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیں گے۔
اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود براک 1976 میں اس وقت اسرائیلی ڈیفینس فورس کی آپریشنز برانچ میں کرنل تھے اور انہی کی برانچ کو ریسکیو کا منصوبہ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اسرائیلی کی سیاسی لیڈرشپ میں کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے متعلق کافی تناؤ تھا۔
اسرائیل واپسی پر ریسکیو طیاروں کے سکواڈرن لیڈر کا کندھوں پر اٹھا کر استقبال کیا گیا
ان کے مطابق ’اسرائیل کے اس وقت کے وزیراعظم رابِن کے کندھوں پر سارا جذباتی اور نفسیاتی دباؤ تھا۔ مغویوں میں بہت سے افراد ان کے قریبی دوست تھے لیکن وہ عقل مندی اور غیر جذباتی فیصلہ کرنے کی سمت سے بھٹکے نہیں اور انھوں نے ان دنوں میں سبقت حاصل کی۔‘
یہ بھی پڑھیے
ہائی جیکنگ کے تین روز بعد اس وقت تھوڑی امید پیدا ہوئی جب دھمکی کے اگلے روز 30 جون کو ہائی جیکرز نے 47 (غیر اسرائیلی) افراد کو رہا کر دیا جنھیں پیرس لے جایا گیا اور اُدھر اسرائیلی حکام نے موساد کے ایجنٹوں کو فوراً پیرس کے لیے روانہ کیا تاکہ ان مسافروں سے معلومات حاصل کی جا سکیں۔
براک کے مطابق اس سے انھیں ایسی دو اہم باتیں معلوم ہوئیں جس نے ان کی منصوبہ بندی میں بہت مدد کی۔
’ایک تو یہ تھی کہ یوگینڈا کے فوجی شدت پسندوں سے پوری طرح تعاون کر رہے ہیں اور دوسرا، ہمیں اولڈ ٹرمینل (پرانے ٹرمینل) کی عمارت کے بارے میں اس حد تک معلوم ہو گیا کہ ہم کارروائی کر سکیں۔‘
ریسکیو مشن سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے جب ایک جولائی کی ڈیڈلائن کا دن آیا تو اسرائیلی حکومت نے مذاکرات کی حامی بھر لی جس پر ہائی جیکرز نے مسافروں کو جان سے مارنے کی ڈیڈ لائن میں توسیع کر کے اسے چار جولائی تک بڑھا دیا اور مزید 101 مسافروں کو رہا کر دیا۔
اب اغوا کاروں کی تحویل میں صرف اسرائیلی اور غیر اسرائیلی یہودی اور فرانسیسی ایئرلائن کا عملہ تھا۔
’آپریشن تھنڈر بولٹ‘
تین جولائی کو اسرائیل کی کابینہ نے اس مشن کی منظوری دی۔ اس کے چند گھنٹے بعد ریسکیو ٹیم اپنے مشن پر روانہ ہوگئی۔
کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ 2500 میل دور سے اسرائیلی فوج کے چار طیاروں میں سوار 200 کمانڈو اینتبے میں ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔
اُن ’سی 130‘ طیاروں نے مختلف سمتوں میں اڑان بھری تاکہ کسی کو شک بھی نہ ہو، اور انھوں نے بحیرہ احمر کے اوپر 100 فٹ سے کم اونچائی پر پرواز کی تاکہ مصری اور سعودی ریڈاروں سے بچ سکیں۔
منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی ریسکیو ٹیم اینتبے پہنچ کر گاڑیوں میں اولڈ ٹرمینل کی جانب بڑھے گی۔
اسرائیلی ٹیم کی پہلی جھڑپ کنٹرول ٹاور کے پاس یوگینڈا کے دو فوجیوں سے ہوئی جنھیں اسرائیلی فوجیوں کے قافلے کو روکنے کی کوشش میں ہلاک کر دیا گیا۔ اب ’سرپرائز‘ دیا جا چکا تھا اور اسرائیلی فوجی پیدل ہی اولڈ ٹرمینل کے طرف بڑھے۔
بنیامین نیتِن یاہو کے بھائی کی ہلاکت
اسرائیلیوں کے مطابق محض چند منٹوں کی کارروائی میں انھوں نے ساتوں شدت پسند اور یوگینڈا کے 20 فوجی اہلکاروں کو مار کر اپنے لوگوں کو رہا کرا لیا تھا۔ یرغمالیوں میں سے تین اس کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے رہا ہونے والی ہسپتال بھیج دی گئی ایک مغوی خاتون کو بعد میں عیدی امین کے احکامات پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس ریسکیو آپریشن کا منصوبہ اُس سپیشل یونٹ کے کمانڈر کرنل جوناتھن نتن یاہو نے بنایا تھا اور اس مشن کے دوران ہلاک ہونے والے وہ واحد اسرائیلی فوجی تھے۔ وہ سابق وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کے بھائی تھے۔
سابق وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے بھائی کی جرات اور پیشہ ورانہ کارروائی کی وجہ سے اسرائیل میں یوگینڈا میں کیے گئے اِس ریسکیو آپریشن کو ‘آپریشن جوناتن’ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم بعض رپورٹوں میں اسے ‘آپریشن اینتبے’ بھی کہا گیا ہے۔
اسرائیل کی فتح
آپریشن اینتبے میں تمام سات ہائی جیکروں کو ہلاک کردیا گیا تھا اور اسرائیل کا ایک فوجی ہلاک ہوا تھا۔ اس کارروائی کے ذریعے اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے سو سے زیادہ افراد کو بچایا اور ہائی جیکروں کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔
یوگینڈا کے اس وقت کے فوجی آمر نے ہائی جیکروں کا ساتھ دیا تھا
آنے والے وقتوں میں یہ آپریشن مغویوں سے نمٹنے کے لیے ایک نمونہ بن گیا کہ ’شدت پسندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا‘۔
اس اسرائیلی کارروائی میں حصہ لینے والے افراد آگے چل کر اسرائیلی ملٹری یا سیاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔
اس ریسکیو آپریشن کے 40 سال بعد، یعنی سنہ 2016 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یوگینڈا کے اینتبے ائرپورٹ پر اسرائیل کے ایلیٹ کمانڈو یونٹ ‘سیرت متکال’ کے کمانڈر اور اپنے بھائی کرنل جوناتن نتن یاہو کی ہلاکت کی جگہ کا ایک اسرائیلی وفد کے ساتھ دورہ کیا تھا اور اسرائیلی افریقی دو طرفہ تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔
Comments are closed.