14ویں صدی کا برطانوی ’گینگسٹر‘ راہب جو اغوا سے لے کر قتل کی وارداتوں میں ملوث تھا
مالمسبری ایبی کی شکل آج بھی گافی حد تک ویسی ہی ہے جیسی جان آف ٹنٹرن کے زمانے میں تھی
- مصنف, سوفی پارکر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، مالمسبری
برطانیہ میں پرانے زمانے میں شہروں یا محلوں میں ’ایبی‘ یا خانقاہیں ہوتی تھیں۔ یہ چرچ سمیت دیگر چند عمارات کا مجموعہ ہوتی تھیں جس میں مسیحی منکس یا راہب رہتے تھے۔ ایبی مکمل طور پر خودمختار ہوتی تھی اور اس کا سربراہ ایک ایبٹ ہوتا تھا۔
یہ برطانیہ کا ایک اہم ثقافتی ورثہ ہے۔ اسی وجہ سے جب ایک مقامی محقق نے جب اپنے قصبے کی ایک ایبی پر تحقیق شروع کی تو وہ یہ توقع کر رہے تھے کہ کچھ دلچسپ اور حیران کر دینے والے حقائق ان کے سامنے آئیں گے لیکن ایک مذہبی کردار کی جرائم پیشہ زندگی ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔
ایک خطرناک اور قابو سے باہر راہب ’جان آف ٹنٹرن‘ کی زندگی انتی رنگین اور جرائم سے بھری تھی کہ محقق ٹونی میک الیوی کے لیے یہ مجبوری بن گئی کہ وہ اس کردار کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اس پر ایک کتاب لکھیں۔
مالمسبری کاٹس وولڈز کا ایک خوبصورت شہر ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہاں اینگلو سیکسن بادشاہ ایتھلسٹین کی قبر ہے۔ لیکن یہ جگہ ہمیشہ سے خاموش اور پرسکون نہیں تھی۔
شاہ ہینری ہشتم کی متعارف کروائی گئی مذہبی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں پر موجود یہ خانقاہ تحلیل ہو گئی تھی لیکن اس سے پہلے کئی صدیوں تک یہ جگہ علم کا مرکز تھی اور اس مذہبی ادارے کے پاس سیاسی اثرورسوخ بھی تھا۔
بی بی سی ریڈیو ولٹ شائر سے بات کرتے ہوئے میک الیوی نے بتایا کہ جان آف ٹنٹرن کا ’وسیح جرائم کا ریکارڈ‘ تھا اور اس کا آغاز سن 1318 میں ہوا تھا۔
اس کہانی کو نکالنے کے لیے میک الیوی کو صدیوں پرانے دستاویز کے امبار سے گزرنا پڑا۔
ٹونی میک الیوی اپنی کتاب ’مالمسبری ایبی، 670-1539‘ کے لیے تحقیق کر رہے تھے جب انھیں جان آف ٹنٹرن کے مجرمانہ کیریئر کا پتا چلا
ایک چھوٹی فوج کے سرغنہ
اس سال جان ایک نوجوان راہب تھے انھیں شاہ ایڈورڈ دوم کے سامنے لایا گیا کیونکہ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے بلوہ شروع کیا ’لیچلیڈ قصبے میں ایک اجتماعی جھگڑا ہوا جس میں وہ مالمسبری کے 40 آدمیوں کے ساتھ وہاں گئے تھے۔ وہ ایک چھوٹی سی فوج تھی جھگڑا زمین اور پیسے کے نتازعے پر بحث سے شروع ہوا تھا۔‘
ایبی میں بڑی تعمیرات کا آغاز ہونا تھا اور انھیں اس کے لیے پیسے درکار تھے لہٰذا ’یہ ایسے شخص نہیں تھے جو اپنا سارا وقت عبادت میں گزارتے تھے، وہ ایک کاروباری شخص تھے۔‘
آج جو کچھ مالمسبری ایبی کا نظر آتا ہے یہ تاریخ کے اُن لمحات کی وجہ سے ہے۔ اس ایبی کا اوپر والا حصہ اس وقت تعمیر کیا گیا جبکہ نچلا حصہ پہلے سے تعمیر شدہ تھا۔
وہاں پر موجود عمارت چھوٹی لیکن عظیم ہے اور اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ساری ایبی کیسی نظر آتی ہو گی۔ 1500 کے پیٹے میں خانقاہوں کے تحلیل ہونے کے بعد بھی یہ حصہ بطور چرچ قائم رہا۔
مالمسبری ایبی میں جان آف ٹنٹرن کے وقت کافی تعمیرات ہو رہی تھیں، تصویر میں نظر آنے والا حصہ بھی اسی وقت تعمیر ہوا
’سیاہ راز‘
پھر 1320 کی دہائی میں یہ ایبی 10000 پاؤنڈ کے جھگڑے میں الجھ گئی جو آج کے معیار کے مطابق لاکھوں میں ہوتا۔
اس وقت خانقاہوں کے سیاسی اتحاد ہوا کرتے تھے اور مالمسبری میں وہ ایک مقامی اثرورسوخ کے خاندان کے ساتھ اتحاد میں تھے جن کو ’ڈسپینسرز‘ کہا جاتا تھا۔
اس خاندان نے بطور امانت ایک بڑی رقم ایبی کو دی تھی۔ لیکن جب ہوا ان کے خلاف چلی تو خاندان کے سربراہ کو سزا موت دے دی گئی۔ خانقاہ نے اپنے پاس رکھے گئے پیسوں کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا اور اس راز کے متعلق خاموشی اختیار کر لی۔
یہ بڑی رقم ان کی عمارت میں موجود تھی زیادہ امکان ہیں کہ ان کے لیونگ ایریا میں یہ رکھے گئے تھے، اسی دوران ایک شاہی دورہ بھی ہوا۔
ٹونی میک الیوی کہتے ہیں ’راہب یقیناً اس سیاہ راض کی وجہ سے بہت خوفزدہ ہوں گے۔‘
’وہ اس بارے میں خاموش ہو گئے اور پھر دس سال بعد یہ بات کھلی۔ واضح بات ہے کہ کسی نے ان کی مخبری کی۔‘
اس وقت جان ایبی کے سربراہ (ایبٹ) کے دائیں بازوں مانے جاتے تھے انھیں ایک بار پھر حراست میں لے کر بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔
لیکن ساری قانونی کارروائی کے آخر میں مالمسبری کے راہبوں کو معاف کر دیا گیا۔ ’بادشاہ نے 10000 پاؤنڈ لیے اور انھیں چھوڑ دیا۔ یعنی وہ سب بچ گئے۔‘
یہ ایبی کے لیونگ ایریا کا حصہ تھا
ایک راہب ’گینگسٹر‘
ٹونی میک الیوی کہتے ہیں اس کے باوجود کہ جان کو 1340 میں نیا ایبٹ منتخب کیا گیا وہ اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آئے بلکہ ان کا عمل بدتر ہوتا گیا۔
’وہ ایک گینگسٹر کی طرح کام کرتے تھے، ایک ایسے گینگسٹر جو اپنے حریفون کا قتل کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔‘
صرف ان کے جرائم ہی ان کا ایسا عمل نہیں تھا جو ان کے راہب کے کردار سے متضاد تھا، ان کے ایک عورت مارگریٹ آف لی کے ساتھ تعلقات تھے اور یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں تھی۔
ان پر الزام تھا کہ انھوں نے مارگریٹ اور ان کے خاوند کے بنگلے کو جلایا اور وہاں سے خاتون کو اغوا کر کے اپنے پاس رکھ لیا۔
محسوس ہوتا ہے کہ قصبے میں یہ قصہ بہت مشہور تھا کیونکہ جب لندن سے مالمسبری کی طرف ججوں نے سفر کیا تو مقامی لوگوں نے اس جرم کے متعلق ان کو شکایت کی۔
جان آف ٹینٹرن ایبی کے سربراہ بن گئے لیکن ان کا کردار ایک مذہبی راہنما والا نہیں تھا۔ ان کے ایک عورت کے ساتھ تعلقات بھی تھے
تاہم جان آف ٹنٹرن صرف آگ لگانے اور اغوا کرنے کے لیے مشہور نہیں تھے ان پر الزام تھا کہ وہ قتل کے چار معاملات میں بھی ملوث تھے۔
جن لوگوں کو انھوں نے قتل کروایا وہ زمین دار تھے ان میں سے کچھ ایبی کی زمین پر کرایہ دار تھے اور ’لگتا ہے کہ جان ان کو ٹھکانے لگانا چاہتے تھے تاکہ وہ زمین اپنے حواریوں کو دے سکیں۔‘
اور بدعنوانی مزید سنگین ہو جاتی ہے جب علاقے میں قانون نافذ کرنے والے ولٹ شائر کے شیرف گلبرٹ آف بروک خود ان جرائم میں جان کا ساتھ دیتے ہیں۔
جب یہ قتل ہوئے تو جان خود اس وقت علاقے میں نہیں تھے بلکہ انھوں نے مارپیٹ اور قتل کے کام قریب کے علاقے میں رہنے والے ایک شخص سے کروائے۔
اس کے بعد جان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے، وہ اور مارگریٹ دونوں بھاگ گئے۔
ٹونی میک الیوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ کیا ہوا اتنا پتا ہے کہ وہ مل گئے تھے اور انھیں لندن میں عدالت میں پیش کیا گیا۔
اس لمحے پر لگتا ہے کہ یہاں آ کر آخر کار جان آف ٹنٹرن کی کہانی کا اختتام ہو گیا ہو گا۔
ٹونی الیوی کہتے ہیں ویٹیکن کے پرانے دستاویزوں سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ جان آف ٹینٹرن کو اپنے کیے پر ملال تھا
’انھیں معاف کر دیا گیا‘
ٹونی میک الیوی کہتے ہیں ’وہ قتل کر کے بچ گئے۔‘
’شاہی دربار نے ان کا جرم مانا اور ان پر بڑا جرمانہ لگا کر انھیں معاف کردیا۔ بنیادی طور پر انھیں قتل کرنے پر جرمانہ کیا گیا۔‘
جرمانے کی رقم 500 پاؤنڈ تھی جو آج کے زمانے کے کئی ہزار پاؤنڈ ہوتے۔
ٹونی میک الیوی کا ماننا ہے کہ ان سب واقعات کی بڑی وجہ پیسے تھے۔ اس وقت ایبی میں بڑی تعمیرات ہو رہی تھیں اور اس کے لیے اس وقت کے بڑے آرکیٹیکٹ میں سے ایک کو ملازمت پر رکھا گیا تھا۔
’ضمیر کی ملامت‘
ویٹیکن کے پرانے دستاویزوں سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ جان آپ ٹنٹرن کو اپنے کیے پر ملال تھا۔
انھوں نے پوپ کی خدمت میں ’انڈلجنس‘ کی درخواست دی تھی۔
ٹونی میک الیوی سمجھاتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پوپ ان کی درخواست قبول کر لیتے تو ان کی موت کے وقت ان کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے۔
’اس وقت یہ پیسے کے بدلے ایک معمول کا لین دین تھا۔‘
ٹونی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں جان کے ضمیر کو ان کی وارداتوں پر ملال تھا۔
1349 میں جان آف ٹنٹرن کی وفات ہو گئی۔ اس بارے میں مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں کہ ان کی موت کی وجہ کیا چیز بنی۔ لیکن ان سالوں میں ’بلیک دیتھ‘ کی وبا یورپ اور برطانیہ میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کی وجہ سے کئی لاکھ لوگ مارے گئے تھے لہذا ہو سکتا ہے جان کی ہلاکت بھی اسی بیماری کی وجہ سے ہوئی ہو۔
ٹونی کو اس کہانی کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بہت مطالعہ کرنا پڑا وہ کہتے ہیں کہ ان تاریخی دستاویزوں کو دیکتے ہوئے یقین نہیں آتا کہ ’یہ سب کیسے سچ ہو سکتا ہے؟ اس مذہبی آدمی نے اتنا ناقابل یقین حد تک برا سلوک کیسے کیا؟‘
Comments are closed.