10 سالہ سارہ شریف کی ہلاکت کا معمہ: بچی کے جاننے والوں نے پاکستان کے لیے ٹکٹس بُک کروائے تھے
- مصنف, ہیلینا ولکنسن، ساجد اقبال
- عہدہ, بی بی سی
برطانیہ میں ہلاک ہونے والی 10 سالہ سارہ شریف کے ’جاننے والے‘ تین افراد نے پاکستان کے یکطرفہ ٹکٹس بک کروائے تھے اور اُن کی لاش ملنے کے ایک دن پہلے وہ برطانیہ سے نکل گئے تھے۔
10 اگست کو سارہ شریف کی لاش سرے کاؤنٹی کے ایک قصبے ووکنگ میں اُن کے گھر سے ملی۔
بی بی سی نے قصبے کے ایک ٹریول ایجنٹ سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ وہ سارہ کے جاننے والوں نے اُن سے رابطہ کیا تھا اور انھیں بتایا تھا کہ انھیں 5 بچوں اور 3 بالغ افراد کے لیے ٹکٹس کی بکنگ کروانی ہے۔
برطانوی پولیس ان تین افراد سے بات کرنا چاہ رہی ہے جنھوں نے 9 اگست کو برطانیہ چھوڑا اور وہ سارہ کو جانتے تھے۔ پولیس نے اب تک ان افراد کے نام عام نہیں کیے۔
سرے پولیس نے سارہ کی لاش ملنے کے بعد قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
ٹریول ایجنٹ نے بی بی سی کو ٹکٹس لینے والے فرد کی نشاندہی کی ہے جس کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی ان سے ٹکٹس بُک کرتے رہے ہیں۔
بی بی سی نے پاکستانی پولیس سے اس معاملے پر رابطہ کیا ہے جنھوں نے بتایا ہے کہ اس کیس پر برطانوی حکام نے اب تک ان سے باضابطہ رابطہ نہیں کیا ہے۔
سارہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم منگل کو ہونا تھا لیکن ابھی تک بچی کی موت کی وجہ کی باضابطہ تصدیق نہیں ہو سکی۔
’دا سن‘ اخبار سے بات کرتے ہوئے سارہ کی والدہ نے اپنی بیٹی کی موت پر غم کا اظہار کیا اور بتایا کہ انھیں یقین نہیں ہو رہا کہ ان کی بیٹی اب زندہ نہیں ہے۔
اولگا شریف (بچی کی والدہ) کی سارہ کے والد سے طلاق ہو گئی تھی اور فی الحال بچی کی کسٹڈی والد کے پاس تھی۔
انھوں نے انٹرویو میں کہا کہ ان کی زندگی اب ’کبھی پہلے جیسی نہیں ہو سکتی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میری بیٹی ایک کمال لڑکی تھی جو ابھی بہت چھوٹی تھی۔ میں اسے واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی لہذا میں صرف اس اچھے وقت کو یاد کر سکتی ہوں جو میں نے اس کے ساتھ گزارا۔‘
گھر کے بالکل سامنے رہنے والے ایک پڑوسی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ چھ بچوں کے ساتھ ایک پاکستانی خاندان چھ ماہ سے بھی کم عرصے سے اس گھر میں مقیم رہا تھا۔
ایک اور پڑوسی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’بچی عموماً اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور خاص طور پر سب سے چھوٹے بچے کی دیکھ بھال میں مدد کرتی نظر آتی تھی۔‘
’تمام کمیونٹی صدمے کی حالت میں ہے‘
اس ہلاکت پر مقامی کمیونیٹیز میں سخت تفتیش پائی جا رہی ہے اور ان کی جانب سے صدمے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
سرے کی مقامی شاہ جہاں مسجد کے امام حافظ ہاشمی نے کہا کہ وہ اس واقعے کے بعد سے سو نہیں پا رہے۔
انھوں نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا کہ ’ہم بے حد صدمے اور افسوس میں ہیں، یقین نہیں آتا کہ ایسی معصوم بچی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہمیں علم نہیں کہ اس کی موت کن حالات میں ہوئی، اس لیے ہم اس بچی کی روح کے سکون کے لیے دعا گو ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ہم ان کی موت کے بارے میں حقائق جاننے میں کامیاب ہو جائیں تاکہ اس پیاری بچی کی روح کو سکون مل سکے۔‘
بچی کی موت کے بارے میں مسجد سے ایک سرکاری بیان بھی جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ’بچی کی المناک موت سے دل صدمے اور گہرے غم سے بوجھل ہے، جس کی گزشتہ ہفتے جان لے لی گئی۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’مشکل اور آزمائش کی اس گھڑی میں ہماری دعائیں اور تعزیت بچی اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ ہیں۔‘
ایک مقامی چرچ ’سینٹ میری دی ورجن‘ گزشتہ جمعے سے کمیونٹی کے اراکین کے لیے کھولا گیا ہے جہاں بچی کی دعائے مغفرت کے لیے لوگ آ رہے ہیں اور ان کے لیے پھولوں کے نذرانے بھی رکھے جا رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے اس پراپرٹی میں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ بچی کے قتل کی باضابطہ شناخت ابھی باقی ہے اور تفتیش کار اب بھی اس پراپرٹی پر موجود ہیں۔
Comments are closed.