انگلینڈ میں نائٹ کلب کھل گئے مگر اس صنعت کا مستقبل اب بھی خطرے میں
- جِم کونلی
- نیوز بیٹ
’یہ ایک خواب جیسا ہے۔ لوگ دوبارہ ڈانس کر رہے تھے، شراب پی رہے تھے اور کوئی سماجی فاصلہ نہیں تھا۔ یہی تو زندگی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ زندگی دوبارہ معمول پر آگئی ہے۔‘
یہ ان شرکا کے خیالات تھے جو انگلینڈ میں کورونا کی وجہ سے بند نائٹ کلب کھلنے کے موقع پر وہاں پہنچے۔ مگر ملک میں اس صنعت کے مستقبل کے بارے میں اب بھی خدشات باقی ہیں۔
نائٹ کلب مالکان کا اصرار ہے کہ وزرا اس شعبے کے بارے میں ’فکرمند نہیں ہیں۔‘ بی بی سی کو ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چھ برسوں میں ایک چوتھائی نائٹ کلب بند ہوچکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2015 میں برطانیہ میں 1694 نائٹ کلب تھے مگر رواں سال فروری میں ان کی تعداد 1203 رہ گئی۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے صنعت کی حمایت کے لیے ’ہر ممکن اقدام کیا ہے۔‘
سنہ 2015 میں گذشتہ دہائی کے دوران نصف نائٹ کلب بند ہوئے تھے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے میں تاخیر سے کئی کلبوں کو بہت زیادہ مالی نقصان پہنچا ہے۔
تجارت کے شعبے سے منسلک کیٹ نیکولس کہتی ہیں کہ ’کئی نائٹ کلب بند ہوچکے ہیں مگر کچھ سوئی ہوئی حالت میں ہیں۔‘
’انھوں نے کووڈ کی وبا جھیلی ہے مگر اس سے واپسی کی کوششوں اور کاروباروں پر چڑھنے والے قرضوں کا مطلب یہ ہوگا کہ آئندہ دو برسوں میں مزید کلب بند ہوجائیں گے۔‘
لندن پرنٹ ورکس نامی ایک بڑے انگلش نائٹ کلب کے مالک سیمون ایلڈریڈ کہتے ہیں کہ ’یہ باعث شرمندگی ہے کہ حکومت یہ سمجھ نہیں پائی ہم 30 ارب پاؤنڈ کی صنعت ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مجھے لگتا ہے ہمیں بھلایا نہیں گیا۔ انھیں بس ہماری فکر نہیں۔‘
’یہ اکتاہٹ کا باعث ہے کہ حکومت پہلے کہتی ہے کام شروع کرو، پھر کہتی ہے کام روک دو اور پھر دوبارہ کام شروع کر دو۔ ایسا ہر بار کرنے سے ہم لاکھوں پاؤنڈ کا نقصان جھیلتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
جیکس جونز
اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیو سے جیکس جونز بتاتے ہیں کہ ’24 گھنٹوں کے اندر اندر میری زندگی رُک گئی تھی۔‘
’ایسا لگتا ہے جیسے ہم دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ ہم حکومت کو کافی آمدن فراہم کرتے ہیں اور ہم اس ملک میں تفریح کے لیے ایک بڑا مرکز ہیں۔‘
’ہماری دھنوں کو پوری دنیا سراہتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہمارے حکمراں اسے اتنی عزت دیتے ہیں جس کا (یہ شعبہ) حقدار ہے۔‘
’ہمیں سب سے پہلے بند کیا گیا اور آخر میں کھولا گیا۔ ہمارے حکمراں پُرانے خیالات رکھتے ہیں۔‘
ریڈیو ون کی ڈی جے آریل فری کہتی ہیں کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے۔ ’یہ صرف دوستوں سے ملنے کا بہانہ نہیں۔ یہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے توجہ پھیرنے کا طریقہ ہے۔‘
کلب مالکان اور اس کی تشہیر سے منسلک لوگ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن نے انھیں مالی اعتبار سے نقصان پہنچایا ہے۔
ہل شہر میں ویلی کلب کی ہی مثال لے لیں۔ یہ اپنے آغاز کے سو سال بعد جولائی 2020 میں بند ہوا۔
شمالی انگلینڈ میں متعدد نائٹ کلب چلانے والی کمپنی ٹوکیو انڈسٹریز کے مالک ایرون میلور کہتے ہیں کہ ’میرا بینک مینیجر سمجھتا ہے کہ یہ جگہ خریدنا احمقانہ ہوگا۔
’ہم انسان ہیں اور ہمیں سماجی روابط کے لیے ایسی جگہوں کی ضرورت ہے۔‘
ان کے مطابق حکومت ایسے تفریحی مقامات کو اہمیت نہیں دیتی۔
سنہ 1990 میں نائٹ کلب کی تصویر
’وہ 1990 کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم نئی موسیقی، تخلیق کار اور ہنر مند لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ موسیقی ہماری بچ جانے والی بہترین برآمدی اشیا میں سے ایک ہے۔‘
’ہم ایک کامیاب کمرشل کاروبار بھی ہیں۔ بار میں ہر تین پاؤنڈ میں سے ایک حکومت کو جاتا ہے اور ہم نوجوانوں کو نوکریاں دیتے ہیں۔‘
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ثقافت کی صنعت پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
ایک حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’نائٹ کلبوں کو اب بھی ہمارے 352 ارب پاؤنڈ کے بے مثال پیکج کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں فرلو سکیم، قرضے، بے دخلی کے خلاف تحفظ، 18 ہزار پاؤنڈ تک بحالی کی گرانٹ اور کاروبار کی قیمتوں میں ریلیف شامل ہے۔‘
’ہمارے ویکسین پروگرام کی کامیابی کے بعد چوتھے مرحلے میں نائٹ کلب سمیت اب تمام کاروبار کھل سکتے ہیں۔‘
لیورپول میں ایک آزمائشی شو کے منتظم اور ڈی جے یوسف کے لیے اب بھی امید باقی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پارٹی کرنے کی خواہش اب سب سے زیادہ ہے۔ لوگ باہر نکل کر پارٹی کرنا چاہتے ہیں جس کا مطلب ہے وہ ٹکٹیں خریدیں گے۔ ہمیں اسی بحالی کی ضرورت ہے۔ ڈانس میوزک کے لیے یہ سب بڑا سال ہوگا۔‘
Comments are closed.