یو اے ای: حوثی حملے میں مارا جانے والا پاکستانی، ’زندگی بچوں کے بغیر گزری، آئندہ لمبی چھٹی پر آؤں گا‘
متحدہ عرب امارات میں حوثی باغیوں کے حملے میں مارا جانے والا پاکستانی آئل ٹینکر ڈرائیور: ’زندگی بچوں کے بغیر گزار دی، اب کی بار لمبی چھٹی لے کر آؤں گا‘
- محمد زبیر خان
- صحافی
’میرے والد کی خواہش تھی کہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے۔ والد نے کہا تھا کہ بیٹا ڈاکٹر بن گیا تو پھر وہ ابوظہبی چھوڑ کر واپس پاکستان منتقل ہو جائیں گے۔‘
یہ کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں ابوظہبی میں حوثی باغیوں کے ایک حملے میں ہلاک ہونے والے 49 برس کے پاکستانی آئل ٹینکر ڈرائیور مامور خان کے بڑے بیٹے یاسر مامور کا۔
یاد رہے متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی میں پیر کے روز بندرگاہ کے علاقے میں تین آئل ٹینکروں میں دھماکوں سے ایک پاکستانی اور دو انڈین شہری ہلاک جبکہ چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔ یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان حملوں کے بعد متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ امارات اس ’دہشت گرد حملے کے خلاف جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔‘
ان حملوں کے اگلے ہی روز سعودی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد، جس کا متحدہ عرب امارات حصہ ہے، کی جانب سے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے جن میں شہری ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
مامور خان کی نماز جنازہ گذشتہ روز شمالی وزیرستان میں اُن کے آبائی علاقے میر علی میں ادا کی گئی تھی۔ مامور خان نے سوگواران میں پانچ بیٹے، تین بیٹیاں اور بیوہ کو چھوڑا ہے، جبکہ مامور کے والدین بھی ابھی حیات ہیں۔
مامور خان کے بیٹے یاسر مامور کہتے ہیں کہ کئی سال پہلے جب اُن کے والد ابو ظہبی گئے تھے تو ہمارے گھر کے حالات اچھے نہیں تھے۔
’میں تعلیم حاصل نہیں کر پایا تھا مگر اب میرے چھوٹے بہن بھائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجھ سے چھوٹا بھائی بہت لائق ہے۔ وہ اپنی کلاس میں اول آتا ہے۔ والد صاحب نے اس سے کہہ رکھا تھا وہ جتنا چاہے پڑھے اور اخراجات کی فکر نہ کرے۔‘
مامور خان کے بھائی جاوید خان جو ابو ظہبی ہی میں کام کرتے ہیں، کا کہنا تھا کہ مامور خان اکثر یہ بات کرتے تھے کہ اگر ہمارے حالات اچھے ہو جائیں اور بچے پڑھ لکھ جائیں تو دیار غیر میں کیا محنت مزدوری کرنا، بلکہ وہ اپنے ملک جا کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔
’قرض لے کر ابو ظہبی کا ویزہ لیا‘
منور شاہ مامور خان کے پڑوسی اور دوست ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مامور خان سنہ 1999 میں ابو ظہبی گئے تھے۔
’ان کے والد کی آبائی علاقے میں ایک چھوٹی سی دکان تھی لیکن ان کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ جس بنا پر مامور خان کوئی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر پائے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مامور خان نے پہلے ڈرائیونگ سیکھی لیکن پاکستان میں ڈرائیونگ کوئی زیادہ اچھا پیشہ نہیں سمجھا جاتا اور اس میں آمدن بھی زیادہ نہیں تھی۔
’مجھے یاد ہے کہ قرض لے کر انھوں نے ویزہ لیا تھا۔ کئی برسوں تک تو وہاں پر اُن کا کام اور آمدن اتنی اچھی نہیں تھی۔ شروع کے کئی سال تو پیسے قرض اتارنے ہی میں لگ گئے تھے۔‘
منور شاہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑا خاندان ہے۔ بڑے خاندان سے میری مراد ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائی بھی شامل ہیں۔
’ان کے دو بڑے بھائی اس وقت بھی بنوں میں ہوتے ہیں۔ یہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے علاوہ ماں باپ کے اخراجات بھی پورے کرتے تھے۔ ان کا بیس، اکیس برس کا بڑا بیٹا بنوں میں محنت مزدوری کرتا ہے جبکہ باقی سب سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔‘
’آگ لگی تو مامور خان نے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر وہ پھنس گے‘
جاوید خان کہتے ہیں کہ 17 جنوری کو انھیں فون کال آئی کہ حادثہ ہو گیا ہے۔
’جب مجھے کہا گیا کہ حادثہ ہو گیا ہے تو میں نے کمپنی والے سے کہا کہ مجھے بتاؤ مامور خان کیسا ہے۔ وہ تو آئل ٹینکر چلاتا ہے۔‘
جاوید خان کہتے ہیں کہ مجھے صرف اتنا کہا گیا کہ ان کی حالت نازک ہے۔ ’مجھے ہسپتال کا پتا بتایا گیا اور اس کے تھوڑی دیر بعد مجھے بتا دیا گیا کہ مامور خان زخموں کی تاب نہیں لا سکے۔‘
،تصویر کا ذریعہYasir Mamoor
ان کا کہنا تھا کہ میں ہسپتال گیا تو وہاں پر مامور خان کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور پاکستانی، جو اسی آئل ڈپو ہی پر موجود تھے، نے بتایا کہ جس وقت حادثہ ہوا اس وقت مامور خان اپنے آئل ٹینکر میں تیل لوڈ کرنے کے لیے تیسرے نمبر پر تھے۔
’آگ لگی تو مامور خان نے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر وہ پھنس گے۔ پہلے زخمی ہوئے اور پھر دم توڑ گئے۔‘
جاوید خان کا کہنا تھا کہ مجھے اس زخمی نے بتایا تھا کہ مامور خان پہلے شخص تھے جن کی میت کو ایمبولینس میں رکھا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
’ایمبولینس تقریباً 25 منٹ بعد موقع پر پہنچ گئی تھی۔ آگ بجھانے والے کارکن کچھ منٹوں بعد موقع پر پہنچ گئے تھے۔ آگ لگنے کے بعد ڈپو میں افراتفری مچ گئی تھی۔‘
یاسر مامور کہتے ہیں کہ مجھے ابوظہبی سے کسی نے فون کر کے واقعے کی اطلاع دی تھی۔
’اس نے بتایا کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تمھارے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو اس نے کہا کہ مصحف آئل ڈپو پر آگ لگی تھی۔‘
’اتنے سال نوکری کے باوجود بھی اپنا گھر نہیں بنا سکا‘
ابوظہبی میں مامور خان کے ساتھ کام کرنے والے دوست گل زیب کا کہنا ہے کہ جب واقعہ پیش آیا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔
’اس دن میری شفٹ نہیں تھی۔ مجھے نیند سے اٹھا کر واقعے کے بارے میں بتایا گیا۔ ہم بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ مامور خان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘
گل زیب کا کہنا تھا کہ مامور خان کے ساتھ اکثر بات چیت ہوتی تھی۔
’دیار غیر میں موجود ہم لوگوں کی سب سے پسندیدہ گپ شپ اپنے بچوں اورخاندان کے بارے میں ہوتی ہے۔ جس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنے مستقبل کے ارادے ظاہر کرتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں۔‘
’واقعے سے تین دن پہلے ہم لوگوں کی بہت گپ شپ ہوئی تھی۔ مامور خان اپنے بچوں کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ خدا کرئے کوئی ایسا ذریعہ پیدا ہو جائے کہ وہ واپس اپنے بچوں میں جا سکیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ اتنے سال نوکری کرنے کے باوجود بھی وہ بنوں میں اپنا گھر نہیں بنا سکے۔‘
گل زیب کا کہنا تھا کہ مامور خان کا کہنا تھا کہ دیار غیر میں جو کماتے ہیں اس میں سے بچتا کچھ نہیں۔
’بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ ملک میں بال بچے باعزت زندگی گزار سکیں۔ بچے بڑے ہو رہے ہیں اپنے دوسرے نمبر والے بیٹے کے متعلق بتا رہے تھے کہ وہ بہت لائق ہے جبکہ بڑا بیٹا تعلیم حاصل نہیں کر پایا۔ ‘
گل زیب کا کہنا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ بڑا بیٹا جو تعلیم حاصل نہیں کر پایا اس کو بھی اب کسی طرح ابوظہبی بلانا ہے۔
’اب کی بار لمبی چھٹی لے کر آؤں گا‘
یاسر مامور کہتے ہیں کہ ’میں گھر کا بڑا بیٹا ہوں اور صبح سویرے محنت مزدوری کے لیے چلا جاتا ہوں۔ جس وجہ سے والد صاحب سے زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔‘
’مگر چند دن قبل انھوں نے مجھ سے بات کی اور بتایا کہ ابوظہبی سے آنے والے ایک شخص کے ہاتھ انھوں نے کچھ تحائف بھجوائے ہیں، وہ جا کر میں وزیرستان سے لے لوں۔‘
’اُن تحائف میں میرے چھوٹے بھائی کے لیے کچھ نقد رقم تھی۔ یہ رقم اس کو تعلیم میں اچھی کارگردگی پر انعام کے طور پر بھجوائی گئی تھی جبکہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔‘
یاسر بتاتے ہیں کہ چار ماہ پہلے ان کے والد چھٹی پر پاکستان آئے تھے اور تقریباً سارا وقت گھر ہی میں گزارا تھا۔
’ان کی چھٹی دو ماہ کی تھی مگر ایک ماہ بعد ہی اُن کو بلا لیا گیا تھا جس پر وہ جاتے ہوئے بہت خٖفا تھے۔ کہتے تھے کہ ساری زندگی بال بچوں کے بغیر باہر ہی گزار دی، اب کی بار لمبی چھٹی لے کر آؤں گا۔‘
Comments are closed.