بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

‘اگر ہالینڈ والا پراجیکٹ کر لیا تو تین، چار ایسے ہی اور موقعے پیدا ہو سکتے ہیں’، ملزم کا عدالت میں بیان

وقاص گورایہ: ‘اگر ہالینڈ والا پراجیکٹ کر لیا تو تین، چار ایسے ہی اور موقعے پیدا ہو سکتے ہیں’، ملزم کا عدالت میں بیان

  • رفاقت علی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

احمد وقاص گورایہ

،تصویر کا ذریعہAhmed Waqass Goraya

،تصویر کا کیپشن

ملزم گوہر خان پر پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی سازش کا الزام ہے

ایک برطانوی شخص جس کے خلاف ایک پاکستانی بلاگر کو قتل کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے، نے جمعرات کو عدالت کو بتایا ہے کہ اسے کہا گیا تھا کہ اگر اس نے ہالینڈ والا پراجیکٹ کامیابی سے سرانجام دے دیا تو اس کے لیے مزید تین، چار اور ایسے ہی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

محمد گوہر خان پر الزام ہے کہ نیدرلینڈز میں مقیم بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کے لیے بطور اجرتی قاتل اُن کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

ملزم محمد گوہر خان نے جمعرات کو دوسرے روز عدالتی کٹہرے میں اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ مسٹر مڈز (مزمل) سے اس لیے بات چیت کر رہے تھے تاکہ مسٹر مڈز کی وجہ سے ہونے والے کاروباری نقصان کی کچھ تلافی ہو سکے۔

ملزم محمد گوہر خان نے کئی بار عدالت کو بتایا کہ اس کا نیدرلینڈ میں مقیم بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ملزم محمد گوہر خان نے کہا کہ اس کی ابتدائی بات چیت مسٹر مڈز سے ہوئی تھی جو کارگو بزنس کے دوران پاکستان میں اس کا ڈلیوری ایجنٹ تھا۔

ملزم محمد گوہر خان نے کہا مسٹر مڈز نے ابتدائی بات چیت کے بعد اس کا بظاہر ایک اور شخض، مسٹر زیڈ سے رابطہ کروایا تھا۔ ملزم کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ یہ دوسرا شخص مسٹر زیڈ بھی درحقیقت مسٹر مڈز ہی تھا۔

ملزم نے کہا کہ اس نے یہ اندازہ مسٹر مڈز اور مسٹر زیڈ کی انگلش اور گرائمر سے لگایا تھا جو بلکل ایک جیسی تھیں۔

ایک سوال کے جواب میں کہ اگر ملزم کو یقین تھا کہ مسٹر مڈز اور مسٹر زیڈ دراصل ایک ہی شخص کے نام ہیں تو اس نے اس کا اظہار کیوں نہیں کیا، محمد گوہر خان نے کہا کہ وہ انھیں یقین دلانا چاہتا تھا کہ اسے کچھ معلوم نہیں ہے۔ ملزم نے کہا کہ وہ بھی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر بتا رہا تھا تاکہ جتنی بھی رقم نکلوائی جا سکتی ہے، نکلوا لی جائے۔

ملزم گوہر خان نے کہا کہ اس کا ارادہ تھا کہ وہ ان سے رقم نکلوا کر کام نہیں کرے گا اور وہ برطانیہ میں ان تک نہیں پہنچ سکتے۔

ملزم گوہر خان نے کہا کہ یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ اس کام کے عوض کل ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ ادا کیے جائیں گے جس میں سے 80 ہزار پاؤنڈ ملزم کے پاس آئیں گے اور بقیہ 20 ہزار پاؤنڈ مسٹر مڈز کو ملیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

ملزم گوہر خان نے کہا کہ اس نے اخراجات کی مد میں اضافی 25 ہزار کا مطالبہ کیا لیکن بات پانچ ہزار پر فائنل ہوئی۔

جب ملزم محمد گوہر خان سے پوچھا گیا کہ وہ اضافی اخراجات کے لیے 25 ہزار پاؤنڈ کا مطالبہ کرتے کرتے پانچ ہزار پاؤنڈ پر کیسے رضامند ہوئے تو اس کا جواب تھا کہ میں نے سوچا کہ جو کچھ بھی ملتا ہے لے لو کیونکہ میرا پراجیکٹ مکمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ملزم نے عدالت کو بتایا کہ اضافی اخراجات کے حوالے سے بات چیت کے دوران اس نے مسٹر زیڈ کو کہا ‘ماہی گیری کرنے کے لیے آلات کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘۔ اس نے کہا مسٹر زیڈ نے جواب دیا کہ ’آپ شارک مچھلی کو پکڑنے نہیں جا رہے بلکہ ایک چھوٹی مچھلی کو پکڑنے کا معاہدہ ہوا ہے۔‘

ملزم محمد گوہر خان نے کہا کہ یہ طے پایا تھا کہ اضافی اخراجات کی مد میں پانچ ہزار پاؤنڈ ایک پاکستانی شخص کو ادا کیے جائیں گے اور وہ ہنڈی کے ذریعے رقم برطانیہ پہنچائے گا۔

ملزم محمد گوہر خان نے کہا کہ مسٹر زیڈ نے اسے کہا کہ اگر معاہدے کے مطابق کام ہو گیا، تو اخراجات کی مد میں دیے گئے پانچ ہزار پاؤنڈ کو بونس تصور کر لیا جائے گا لیکن اگر کام مکمل نہ ہوا تو پانچ میں سے آڑھائی ہزار برطانوی پاؤنڈ واپس کرنے ہوں گے اور تمام اخراجات کی رسیدیں بھی مہیا کرنی ہوں گی۔

ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ بات چیت کے دوران پہلے مسٹر زیڈ اور پھر مسٹر مزمل نے یہ عندیہ دیا کہ اگر ہالینڈ والا پراجیکٹ کامیابی سے مکمل ہو گیا تو ایسے ہی تین یا چار مواقع اور بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

ملزم نے کہا کہ اس نے مزید مواقعوں کے بارے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی کیونکہ اس کا پہلے پراجیکٹ کو ہی مکمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ملزم گوہر خان نے کہا کہ جب مسٹر زیڈ نے بہت دنوں تک خاموشی اختیار کر لی تو اس نے مسٹر مزمل سے رابطہ کر کے کہا کہ تمارے ‘ماہی گیر’ ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔

ملزم گوہر خان نے کہا کہ مسٹر مزمل نے اسے جواب دیا کہ مسٹر زیڈ اپنے بگ باس کی اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔

ملزم نے عدالت کو بتایا کہ وہ مسٹر مزمل اور مسٹر زیڈ سے بات چیت کے دوران یہ مبالغہ آرائی کر رہے تھے کہ اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے میرے ساتھ اور لوگ بھی کام کر رہے ہیں۔ درحقیقت ایسا کچھ نہیں تھا اور صرف میں خود ہی یہ سب کچھ کر رہا تھا۔

ملزم محمد گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ کارگو کاروبار کی ناکامی کے بعد انھوں نے دیوالیہ قرار دیے جانے کی درخواست کی جسے 2021 میں منظور کر لیا گیا۔ ملزم نے کہا کہ گرفتاری سے قبل وہ آئس لینڈ سُپر سٹورز میں بطور ڈلیوری ڈرائیور کام کر رہے تھے اور ہفتے میں تین سے چار سو پاؤنڈ کماتے تھے۔ ملزم گوہر خان نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مشرقی لندن کے علاقے فارسٹ گیٹ میں اپنے والد کے گھر میں رہتے ہیں۔

ملزم کا بیان ابھی جاری تھا جب عدالتی کارروائی کا وقت ختم ہو گیا۔ جعمے کے روز عدالتی کارروائی پھر شروع ہوگی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.