بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین پر ممکنہ روسی حملے کے پیش نظر امریکی فوجیوں کے دستے ہائی الرٹ

یوکرین، روس تنازع: امریکہ کا یوکرین میں تعینات سفارتی عملے کے خاندانوں کو فوراً یوکرین چھوڑنے کا حکم

یوکرین، امریکہ، سفارتخانہ، روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ نے روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران یوکرین میں تعینات اپنے سفارتی عملے کے خاندانوں کو فوری طور پر یہ کہتے ہوئے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے کہ امریکی حکومت ’ہنگامی صورتحال میں امریکی شہریوں کے انخلا کی حالت میں نہیں ہو گی۔‘

امریکہ کی جانب سے جاری اس بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کی اطلاعات موجود ہیں جبکہ دوسری جانب روس نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ یا مداخلت کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

امریکی دفتر خارجہ نے اپنے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ یوکرین یا روس کا سفر نہ کریں کیونکہ وہاں ’کشیدگی‘ ہے اور ’امریکی شہریوں کو ہراساں کیے جانے کا امکان‘ ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ روس یوکرین کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہا ہے۔‘

یوکرینی فوج کے ریزرو سپاہی روس کے ساتھ تناؤ پیدا ہونے کے بعد دسمبر 2021 میں ایک فوجی مشق کے دوران

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

یوکرینی فوج کے ریزرو سپاہی روس کے ساتھ تناؤ پیدا ہونے کے بعد دسمبر 2021 میں ایک فوجی مشق کے دوران

دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ فی الحال یوکرین میں امریکہ کا سفارتخانہ کُھلا ہے لیکن ’وائٹ ہاؤس سے مسلسل تنبیہ کی جا رہی ہے کہ کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا ہے کہ حکومت ’ایسی ہنگامی صورتحال میں امریکی شہریوں کے انخلا کی حالت میں نہیں ہو گی۔‘

بی بی سی کی باربرا پلیٹ اشر بتاتی ہیں کہ یہ اقدام امریکہ کی ان احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے جو دفتر خارجہ اس وقت نافذ کرتا ہے جب کسی بحران کی وجہ سے امریکی سفارتی عملے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

یہ بھی پڑھیے

خیال ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں ایسی کوئی اہم پیشرفت نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر امریکی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

بین الاقوامی فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ روس کی جانب سے اپنی سرحد پر قریب ایک لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کے بعد یورپ میں ایک نئی لڑائی کا خطرہ موجود ہے۔

دسمبر 2021 میں روسی فوج کی ایک مشق کا منظر

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

دسمبر 2021 میں روسی فوج کی ایک مشق کا منظر

سنیچر کو امریکہ کی طرف سے بھیجی گئی قریباً 90 ٹن فوجی امداد یوکرین پہنچائی گئی جس میں صف اول کے فوجیوں کے لیے ہتھیار بھی شامل تھے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ صدر پوتن کیا سوچ رہے ہیں یہ سمجھنے کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے جن میں یوکرین کا دفاع بڑھانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں۔

حکومت گِرانے کی کوششوں کا دعویٰ

روس نے اس سے قبل بھی یوکرین کے خطے پر قبضہ کیا تھا۔ سنہ 2014 میں جب کریمیا میں ماسکو کے حمایت یافتہ صدر کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو روس نے کریمیا میں مداخلت کر کے اسے اپنے اندر ضم کر لیا تھا۔

اس وقت سے مشرقی روس کے سرحدی علاقوں میں یوکرین کی فوج اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ دنباس کے خطے میں اب تک قریباً 14 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔

اتوار کو برطانوی دفتر خارجہ نے صدر پوتن پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین میں ماسکو کے حمایت یافتہ رہنما کو لانا چاہتے ہیں۔

برطانوی وزرا نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین میں کسی مداخلت یا حملے کی صورت میں روسی حکومت کے خلاف سخت ردعمل دیا جائے گا۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس یوکرین کی حکومت گرانے اور تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے برطانوی دفتر خارجہ کے حالیہ بیان پر اپنا ردعمل نہیں دیا ہے۔

مغربی انٹیلیجنس حکام کے مطابق روس کی ایک لاکھ فوج یوکرین کی سرحدوں پر موجود ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مغربی انٹیلیجنس حکام کے مطابق روس کی ایک لاکھ فوج یوکرین کی سرحدوں پر موجود ہے

روس اور یوکرین کے درمیان کیا تنازع ہے؟

مشرقی یوکرین میں سنہ 2014 سے روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرینی فوج کے درمیان تنازع جاری ہے تاہم ایک کمزور سی جنگ بندی بھی نافذ ہے۔

سرحد پر روسی فوجیوں کے جمع ہونے کے بعد مغربی اور یوکرینی انٹیلیجنس سروسز کا اندازہ ہے کہ دراندازی یا حملہ 2022 کے اوائل میں ہو سکتا ہے۔

اس دوران روس نے نیٹو ممالک پر یوکرین کو اسلحے کے ذریعے ‘ابھارنے’ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ خطے میں تناؤ کو فروغ دے رہا ہے۔

روس کا بنیادی مطالبہ نیٹو میں مشرق کی جانب توسیع ہے۔ روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریابکوف نے حالیہ مذاکرات کے بعد کہا ہے کہ ‘یہ یقینی بنانا نہایت ضروری ہے کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو کا رکن نہ بنے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.