بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں کون وقاص گورایہ کو قتل کرانا چاہتا تھا، ملزم کا عدالت میں بیان

مجھے نہیں معلوم وقاص گورایہ کے قتل کے لیے رقم کہاں سے آ رہی تھی، ملزم کا عدالت میں بیان

وقاص گورایہ

،تصویر کا ذریعہCOURTESY AHMED WAQAS GORAYA

ایک برطانوی شخص نے پیر کے روز ایک برطانوی عدالت کو بتایا کہ اسے نہیں معلوم کہ پاکستان میں کون نیدرلینڈ میں مقیم بلاگر وقاص گورایہ کو کیوں قتل کروانا چاہتا تھا اور قتل کے لیے ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ کی رقم کہاں سے آ رہی تھی۔

31 برس کے محمد گوہر خان کے خلاف پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔

ملزم محمد گوہر خان پر الزام ہے کہ بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کے لیے بطور اجرتی قاتل اُن کی خدمات حاصل کی گئی تھیں تاہم ملزم اس الزام سے انکار کرتا ہے۔

ملزم نے پیر کے روز عدالت کو بتایا کہ انھیں نہیں معلوم کہ مبینہ مڈل مین مسٹر مزمل (مسٹر مڈز) کیوں وقاص گورایہ کو قتل کروانا چاہتا تھا۔

ملزم نے کہا کہ انھوں نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ ان کا بلاگر وقاص گورایہ کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا۔

ملزم کا مؤقف ہے کہ مسٹر مزمل ان کے کارگو کے کاروبار میں بطور ڈیلیوری مین کام کرتا تھا اور انھوں نے ملزم کے کاروبار کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ملزم کا کہنا ہے کہ جب مسٹر مزمل نے انھیں ایک پراجیکٹ‘ کی پیشکش کی تو انھوں نے اپنے کاروباری نقصانات کو کم کرنے کے لیے پراجیکٹ کرنے کی حامی بھری۔

ملزم گوہر خان کا مؤقف ہے کہ ان کا ارادہ تھا کہ وہ مسٹر مزمل سے دس بیس ہزار پاؤنڈ حاصل کرنے کے بعد وہ کام نہیں کریں گے۔

ملزم نے پیر کے روز عدالت کو بتایا کہ مسٹر مزمل نے انھیں کبھی بھی واشگاف الفاظ میں ’قتل‘ کرنے کا نہیں کہا لیکن جب انھوں نے بلاگر وقاص گورایہ کی تصویر اور رہائش کا ایڈریس بھیجا تو ان پر واضح ہو گیا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔

ملزم نے کہا کہ جب پہلی بار انھیں پراجیکٹ کی آفر کی گئی تو انھوں نے سوچا کہ کوئی مجرمانہ کام ہی ہو گا لیکن یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ پراجیکٹ کسی شخص کو قتل کرنے سے متعلق ہو سکتا ہے۔

عدالت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

استغاثہ کے وکیل کے سوال پر ملزم گوہر خان نے کہا کہ ان کے ذہن میں آیا کہ شاید مزمل پاکستان میں شراب کے کچھ کنٹینرز منگوانا چاہتا ہے۔ ملزم نے کہا کہ پاکستان جہاں شراب کی فروخت ممنوع ہے، وہاں شراب کے تین چار کنٹینرز کی مالیت 70/80 ہزار پاؤنڈز تک ہو سکتی ہے۔

ملزم سے جب پوچھا گیا کہ وہ کسی کو قتل کرنے کے عمل کو کیسا سمجھتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’انتہائی خوفناک۔ میں نے زندگی میں کسی کو کبھی مکا بھی نہیں مارا۔ میں کیسے قتل کر سکتا ہوں۔‘

ملزم نے کہا کہ وہ ایک خاندان والا شخص ہے، اس کی بیوی اور چھ بچوں کا خاندان ہے۔ ملزم کا کہنا تھا کہ وہ زندگی میں کبھی جرائم میں ملوث نہیں رہا اور یہ پہلی بار ہے کہ پولیس نے انھیں گرفتار کیا۔

ملزم نے استغاثہ کے وکیل کے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ انھوں نے بلاگر کے قتل کی سازش کے بارے میں پولیس کو آگاہ نہیں کیا۔

جب ملزم سے پوچھا گیا کہ مڈل مین مسٹر مزمل نے یہ کیوں سوچا کہ ملزم گوہر خان اس کام کے لیے موزوں شخص ہے تو ملزم کا کہنا تھا کہ شاید اس کی وجہ لندن کا وہ علاقہ ہے جہاں میں رہتا ہوں۔

ملزم نے کہا کہ ’میں چیلسی کے علاقے میں نہیں رہتا، جہاں میں رہتا ہوں وہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔‘

ملزم نے بار بار اپنے اس مؤقف کو عدالت کے سامنے دہرایا کہ ان کا مقصد مسٹر مزمل سے دس بیس ہزار پاؤنڈ حاصل کرنے تھے جس نے ان کے چلتے ہوئے کامیاب کاروبار کو تباہ کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

عدالت کے ایک سوال پر کہ ملزم گوہر خان کو مسٹر مزمل نے کاروبار میں کتنا نقصان پہنچایا تھا تو ملزم نے کہا کہ بیس سے ستر ہزار پاؤنڈ تک کا نقصان پہنچایا جبکہ ’میری شہرت کو نقصان اس کے علاوہ ہے۔‘

ملزم سے پوچھا گیا کہ انھیں پراجیکٹ مکمل کرنے میں اتنی جلدی کیوں تھی تو ان کا جواب تھا کہ کیونکہ میں مطلوبہ رقم حاصل کر کے اسے چھوڑنا چاہتا تھا۔

ملزم سے پوچھا گیا کہ جب مسٹر مزمل نے انھیں کہا کہ یہ پراجیکٹ مکمل کرنے سے آپ دنیا اور آخرت میں امیر ہو جائیں گے تو ان کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

ملزم گوہر خان نے کہا کہ اُن کے نزدیک اِس کا کوئی مطلب نہیں اور اسلام میں کسی جواز پر بھی انسانی قتل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ملزم سے پوچھا گیا کہ انھوں نے روٹرڈیم میں پہنچ کر چھری کیوں خریدی؟ ملزم نے کہا کہ انھوں نے ہوٹل کے کمرے میں ڈبل روٹی، چکن سٹیک اور فروٹ کو کاٹنے کے لیے چھری خریدی تھی۔

گذشتہ سماعت پر ملزم نے کہا تھا کہ کووڈ کے دروان ہوٹل کی انتظامیہ پلاسٹک کٹلری مہیا کر رہی تھی۔

ملزم سے جب پوچھا گیا کہ جب کم قیمت پر چھریاں میسر تھیں تو انھوں نے تیرہ یورو کی چھری کیوں خریدی، تو انھوں نے کہا مجھے لگا کہ یہ میری ضرورت کے مطابق ہے۔ ملزم نے کہا کہ روٹرڈیم کی جس دکان سے میں نے چھری خریدی تھی وہاں اس سے مہنگی چھریاں بھی موجود تھیں۔

وقاص گورایہ

ملزم گوہر خان نے تسلیم کیا کہ جب وہ بلاگر وقاص گورایہ کے رہائشی علاقے میں گئے تو چھری سیمت دوسرا سامان جو انھوں نے خریدا تھا وہ ان کے پاس گاڑی میں موجود تھا۔

ملزم نے اس الزام کی تردید کی کہ انھوں نے چھری بطور ہتھیار اٹھا رکھی تھی۔ انھوں نے اپنے اس مؤقف کو دہرایا کہ انھوں نے ہوٹل کے کمرے میں اپنا کھانا تیار کرنے کے لیے چھری خریدی تھی۔

ملزم گوہر خان نے کہا کہ انھوں نے کسی موقع پر بھی مڈل مین مسٹر مزمل کو چھری نہیں دکھائی تھی۔

ملزم نے تسلیم کیا کہ گرفتاری کے بعد انھوں نے پولیس کے ساتھ انٹرویو میں چھری خریدنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ملزم نے کہا کہ جب پولیس کو میرے سامان سے ملنے والے رسیدوں سے چھری کی خریداری کا پتہ چلا تو پولیس نے مجھ سے پوچھا اور میں نے تمام بات انھیں بتا دی تھی۔

وکیل استغاثہ کے اِس سوال پر کہ کیا وہ ایک دھوکہ باز شخص ہیں، ملزم نے کہا کہ ’مزمل کی حد تک تو آپ کہہ سکتے ہیں۔‘ ملزم نے کہا کہ زندگی میں جہاں تک ہو سکے وہ سچ بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ملزم نے تسلیم کیا کہ انھوں نے کرئیڈن کی مسجد کے ایک استاد سے کہا تھا کہ کیا وہ نیدرلینڈز میں کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس کا ریفرنس دے کر وہ نیدرلینڈز میں داخل ہو سکیں۔ ملزم نے کہا کہ مجھے اس پر افسوس ہے۔

ملزم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انھوں نے ایک ٹریول ایجنٹ کو کہا تھا کہ وہ نمونے کے بغیر ہی کووڈ پی سی آر سرٹیفکیٹ حاصل کرا دے۔

ملزم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انھوں نے ڈچ امیگریشن کے حکام کے لیے ایک جعلی لیٹر بھی تیار کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ روٹرڈیم میں ان کا ایک بھائی ہے جس کی طبعیت ٹھیک نہیں اور وہ ان کی تیماداری کے لیے جانا چاہتے ہیں۔

ملزم نے کہا کہ ’یہ سچ ہے کہ میں نے جعلی لیٹر تیار کیا تھا۔‘

ملزم گوہر خان کو ڈچ حکام نے ایئرپورٹ سے واپس برطانیہ بھیج دیا تھا۔ وہ دوسری بار بس کے ذریعے روٹرڈیم پہنچے تھے۔

جب وکیلِ استغاثہ نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے ایک پاکستانی دوست، جس کے اکاونٹ سے انھیں رقم برطانیہ بھیجی گئی، کو خطرے میں ڈالا، ملزم گوہر خان نے کہا کہ پاکستانی شخص کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہا تھا اور ِاس میں اُس کا بھی منافع تھا۔

ملزم گوہر خان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کا مقصد صرف کچھ رقم حاصل کرنا تھا تو وہ نیدرلینڈز جانے، وہاں ہوٹل میں رہنے، کھانے پینے، گاڑی کرایے پر لینے پر رقوم کیوں خرچ کر رہے تھے، تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید تھی کہ وہ اس طریقے سے مسٹر مزمل سے مزید رقم حاصل کر پائیں گے۔

ملزم نے تسلیم کیا کہ ان کی بیوی ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو رہی تھیں۔ ملزم نے کہا کہ انھیں اپنی بیوی سے انتہائی محبت ہے جو ان کے چھ بچوں کی ماں ہے۔

ملزم نے یورپ جاتے ہوئے اپنی بیوی کو بھیجے گئے ایک پیغام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو یہ کہہ رہے تھے کہ زندگی میں ہمیں اپنے کام خود کرنے ہیں کیونکہ مشکل وقت میں رشتہ داروں سمیت کوئی بھی آپ کا ساتھ نہیں دیتا۔

ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ وہ ایک انتہائی محنتی شخص ہیں اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔

ملزم گوہر خان نے کہا جب اُن کا کارگو کا کاروبار ختم ہوا تو اُنھوں نے لندن میں ایک دکان کھولی، جہاں سے انھیں روزانہ چار پانچ پاؤنڈ کی آمدن ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا جب کووڈ کی وبا کی وجہ سے پابندیاں لگیں تو ان کی دکان سے آمدن کم ہو گئی۔

ملزم گوہر خان نے کہا کہ اُنھوں نے فوری طور پر آئس لینڈ سپر سٹورز کے ڈیلیوری ڈرائیور کی جاب کر لی۔ ملزم گوہر خان نے کہا کہ انھیں جب بھی وقت ملتا تھا وہ لوگوں کو گھروں میں کھانا پہنچانے والی کمپنیوں، اوبر ایٹس اور ڈیلیورو کے ساتھ بھی کام کرتے۔

ملزم سے ابھی جرح جاری تھی جب عدالت کا وقت ختم ہو گیا۔ مقدمے کی کارروائی منگل کے روز پھر شروع ہو گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.