یوکرین پر ممکنہ حملے کے لیے روس کن راستوں اور طریقوں کا استعمال کر سکتا ہے؟
- ڈیوڈ براؤن
- بی بی سی نیوز
ماسکو کا اصرار ہے کہ اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں مگر امریکہ کا کہنا ہے کہ روس ‘کسی بھی وقت’ حملہ کر سکتا ہے۔
منگل کو برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا تھا: ‘ہمیں لگتا ہے کہ انھوں نے زبردست اور مکمل تیاری کر رکھی ہے۔’
اُنھوں نے مزید کہا تھا کہ ‘سب لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ (حملے کے) ممکنہ روٹس کیا ہوں گے۔’
فوجی تجزیہ کار متفق ہیں کہ یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ 90 ہزار کے قریب روسی سپاہیوں کی موجودگی کے باعث اگر روس نے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے پاس کئی آپشنز موجود ہوں گے۔
بیلاروس کی طرف سے حملہ
امریکہ میں قائم سی این اے ریسرچ آرگنائزیشن کے مائیکل کافمین کے مطابق اگر روس نے یوکرین میں حکومت کی مکمل تبدیلی کا منصوبہ بنا لیا ہے تو شمال کی جانب سے حملہ انتہائی ممکن ہے۔
روس نے بیلاروس میں مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے 30 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں جن کے پاس مختصر فاصلے تک مار کرنے والے اسکندر میزائل، کئی راکٹ لانچر، ایس یو 25 اور ایس یو 35 لڑاکا طیارے ہیں۔
اتوار کو برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ اُنھوں نے انٹیلیجنس رپورٹس دیکھی ہیں جن کے مطابق روس بیلاروس کی طرف سے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسی صورت میں روسی پیش قدمی ‘شمال کی جانب سے بیلاروس سے ہوتے ہوئے نیچے آئے گی اور کیف کا گھیراؤ کر لیا جائے گا۔’
بورس جانسن نے کہا تھا کہ ثبوتوں کے مطابق روس ‘سنہ 1945 سے اب تک یورپ کی سب سے بڑی جنگ’ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
مائیکل کافمین کا کہنا ہے کہ مشرق کی جانب روسی سرزمین پر تھوڑا ہی اندر ‘روس کی پوری 41 ویں فوج سرحد پر انتظار کر رہی ہے۔’
بیلاروس کی جانب سے کیف پر حملے کی صورت میں چرنوبل جوہری پلانٹ کے گرد ممنوعہ علاقے سے نہیں گزرا جائے گا۔
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے سیٹھ جونز کے مطابق روسی طرف سے یہ حملہ نوویے یورکوویچی اور تروبورتنو کی جانب سے ہو سکتا ہے۔
کریمیا کا روٹ
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے بین بیری کے مطابق اگر روس نے حملہ کیا تو کرائمیا کی جانب سے پیش قدمی ‘تقریباً یقینی ہے۔’
بین بیری کے مطابق زمینی جنگ میں ‘طاقتور بکتر بند دستے اور توپ خانے شامل ہوں گے تاکہ یوکرین میں اندر تک تیزی سے پیش قدمی کی جا سکے۔’
اُن کا کہنا ہے کہ کرائمیا کی جانب سے کیف کی طرف روسی پیش قدمی یوکرینی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو دریائے دنیپر کے مشرق کی جانب ہی رکنے پر مجبور کر دے گی۔
اپنے مغرب، مشرق اور شمال اور کرائمیا میں روسی فوج کی موجودگی میں یوکرینی فوجی محاصرے میں آ جائیں گے۔
روسی فوجی اپنے مغرب میں خیرسون اور اوڈیسا، اور مشرق میں میلیٹوپول اور ماریوپول پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ کرائمیا اور روس نواز باغیوں کے قبضے میں موجود علاقوں کے درمیان ایک زمینی راستہ بنایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
روس فی الوقت بحرِ اسود میں موجود اپنی بحری فوجوں کو بھی اس حملے میں استعمال کر سکتا ہے۔ اس خطے میں موجود روسی بحری جہاز فوجیوں، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی تعیناتی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مشرق کی جانب سے حملہ
روس نواز باغیوں نے سنہ 2014 میں دو اہم خطوں لوہانسک اور ڈونیسک کے بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ لوہانسک اور ڈونیسک میں تقریباً 15 ہزار علیحدگی پسند ہیں جو روسی پیش قدمی میں مدد کر سکتے ہیں۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے زیادہ ہے۔
روس نے سرحد پار روستوو کے خطے میں 10 ہزار فوجی مستقل بنیادوں پر تعینات کر رکھے ہیں اور حال ہی میں مزید سپاہی بھی وہاں پہنچے ہیں۔
اگر روس نے مشرق کی جانب سے حملہ کیا تو یہ ممکن ہے کہ فوجی کرائمیا کی طرف بڑھیں جس سے یوکرین کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے میں ایک زمینی گزرگاہ بن جائے گی۔
اس کے علاوہ وہ خرکیف سے بلگرود اور پھر کریمینچک کی طرف بھی بڑھ سکتے ہیں۔
مشرق کی جانب سے حملہ ممکنہ طور پر روسی باغیوں کے قبضے میں موجود علاقوں میں صرف روسی حامیوں کی حفاظت کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔
بین بیری کا کہنا ہے کہ محدود آپریشن بھی ممکن ہے جس میں فضائی دفاع اور ملک میں دیگر جگہوں پر موجود اہم فوجی کمانڈ کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر روس کی کسی بھی پیش قدمی میں متعدد روٹس کا استعمال کیا جائے گا جن کے ساتھ ساتھ سائبر حملے، جعلی معلومات کی جنگ اور میزائل حملے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ روس کا سب سے محدود آپشن یوکرین پر بڑے پیمانے پر سائبر حملے کرنا ہو گا جس کے ذریعے وہ زمینوں پر قبضہ کیے بغیر اہم انفراسٹرکچر کو مفلوج کر سکتا ہے۔
مگر مائیکل کافمین کا کہنا ہے کہ بالآخر کسی بھی حملے کی جزئیات کا انحصار ماسکو کے سیاسی مقاصد پر ہو گا جو اب بھی غیر واضح ہیں۔
گرافکس: پرینا شاہ اور زوئی بارتھولومیو
Comments are closed.