بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ایک ’جعلی امیر‘ لڑکی پر جنوبی کوریا میں اتنا غصہ کیوں ہے؟

جنوبی کوریا: جعلی کپڑوں کا ایک سکینڈل اتنا بڑا مسئلہ کیسے بن گیا؟

  • فرانسس ماؤ
  • بی بی سی نیوز

Song Ji-a in a selfie taken in her Seoul apartment

،تصویر کا ذریعہFREEZIA/INSTAGRAM

انھیں جعلی ڈزائنر کپڑے پہننے کی وجہ سے کینسل کر دیا گیا تھا۔ ایسا کرنا مغرب میں تو شاید برا نہیں مانا جاتا مگر اپنے ملک میں اس کی وجہ سے سونگ جیا کا کیریئر ختم ہوگیا۔ مگر یہ سکینڈل صرف کسی سلیبرٹی کے کینسل کیے جانے کی کہانی نہیں بلکہ اس میں جنوبی کوریائی نوجوانوں کی ایک معاشی بے چینی پنہاں بھی تھی۔

جب سے وہ نیٹ فلکس کے ڈیٹنگ شو سنگل انفرنو میں شریک ہوئی تھیں، تب سے ہی وہ لوگوں کی نظروں میں ہیں۔

سونگ جیا ایک نوجوان انفلوئنسر ہیں۔ جب وہ سکرین پر آتی تھیں تو کیمرہ زوم ان کرتا اور میوزک آہستہ ہو جاتا۔

وہ جلد ہی فیشن ایبل لڑکی کے طور پر مشہور ہو گئیں۔ اور وہ لڑکوں میں مقبول تھیں۔

شو پر انھیں سب سے زیادہ ڈیٹ کی دعوت دی گئی اور اکیلے واک کرنے کی بھی۔ شو میں دیکھایا گیا کہ ایک کھلاڑی تو ان کے لیے کئی گھنٹوں تک دھوپ میں ان کی واپسی کا انتظار کرتا رہا۔

فائنل میں، ان کے لیے شو کے پانچ مردوں میں سے تین ساحل سمندر پر کھڑے ان کے لیے لڑ رہے تھے۔ وہ بریک آؤٹ سٹار تھیں۔

مگر یہ سوشل میڈیا سٹار شو سے پہلے ہی جنوبی کوریا میں مقبول تھیں۔ لیکن ان کے نیٹ فلکس ڈیبیو کے بعد ان کے فالورز بڑھ گئے۔ انسٹاگرام پر 3.7 ملین فالوورز اور یوٹیوب پر تقریباً 20 لاکھ۔

جنوری 2022 کا پہلا ہفتہ ان کی شہرت کا عروج تھا۔ مگر ان کا زوال اس کے فوراً بعد آیا۔

Song Ji-a sits in a pool with a male contestant in a scene from Singles Inferno

،تصویر کا ذریعہNETFLIX

،تصویر کا کیپشن

سونگ جیا سنگلز انفرنو میں سب سے زیادہ مقبول مقابلہ کرنے والوں میں سے ایک تھیں

انٹرنیٹ کے صارفین نے ان پر تنقید شروع کر دی۔ انھوں نے ان پر جعلی ڈیزائنر کپڑے پہننے کا الزام لگایا۔ انھوں نے ایک گلابی شینل کے بننے سوئیٹر کو مثال بنایا جو تھوڑا سا غلط رنگ کا تھا۔

لوگوں نے پھر ان کے دیگر کپڑوں پر غور کرنا شروع کر دیا اور چند ہی روز میں انھیں کئی الزامات کا جواب دینا پڑا۔

انھوں نے جعلی کپڑے پہننے کا اعتراف کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ یہ جعلی ہیں اور انھوں نے یہ صرف اس لیے خریدے تھے کیونکہ انھیں وہ اچھے لگے تھے۔

مگر ان کی وضاحت سے لوگوں کا غصہ ڈھنڈا نہیں ہوا۔

لوگوں نے ان کے بیک گراؤنڈ کی تفتیش شروع کر دی اور ان کی پرانی یوٹیوب ویڈیوز کو جانچنا شروع کر دیا۔ انھوں نے ان اشیا کی نشاندہی شروع کر دی جو کہ مشکوک تھیں۔ انھوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا وہ اس اپارٹمنٹ کی مالک تھیں جس میں وہ رہتی تھیں۔

اور پھر کچھ چینی ویڈیوز تھیں جن میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ چینی زبان سیکھ رہی ہیں اور انھوں نے کوریائی ڈش کمچی کو پاؤ کائے پکارا جو کہ چینی زبان میں سبزیوں کے اچار کو کہتے ہیں۔

مداحوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ چینی مارکیٹ کو خوش کرنا چاہ رہی ہیں اور کچھ نے تو انھیں غدار تک کہہ دیا۔

دیگر کوریائی شوز جن میں انھوں نے شرکت کی تھی، انھوں نے سونگ جیا کو شوز سے نکالنا شروع کر دیا۔ سلیبرٹی دوستوں نے ان کے ساتھ والی اپنی تصاویر ہٹانا شروع کر دیں۔

اپنی پہلی معافی کے ایک ہفتے بعد انھوں نے ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں انھوں نے کہا کہ انھیں اپنے کیے پر شدید افسوس ہے اور خود کو پتھیٹک بھی کہا۔

Ji-a

،تصویر کا ذریعہFREEZIA/YOUTUBE

،تصویر کا کیپشن

جیا نے اپنی معافی والی ویڈیو میں سیاہ لباس پہنا اور میک اپ نہیں کیا

انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے سب کچھ اتار دیا اور وہ ایک قومی بےعزتی کے طور پر جانی جاننے لگیں۔

مگر باقی دنیا کو عوام کا یہ ردعمل بہت سنگین معلوم ہوا۔ جعلی کپڑوں کا ایک سکینڈل کیسے اتنا بڑا مسئلہ بن گیا۔

طلائی چمچے کی پیداوار

انٹرنیٹ پر لوگوں نے جیا کے خلاف کئی الزامات لگائے اور یہ بھی کہا کہ وہ محنتی ڈزائنرز کے برانڈ کی بدنامی کر رہی ہیں۔

کورین ایکسپوزے جریدے کے ایڈیٹر سی ونگ کو کہتے ہیں کہ ‘لیکن اصل میں سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ جعلی تھی اور یہ کہ اس نے ایسا ہونے کا بہانہ کیا جو وہ نہیں ہے۔ یہی وہ مسئلہ تھا جو بار بار اٹھایا جاتا رہا۔‘

جبکہ غیر کوریائی شائقین نے اسے صرف ایک پرتعیش انفلوئنسر کے طور پر دیکھا، کوریائی لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے خود کو کچھ اور کے طور پر پیش کیا ہے۔ بہت سے مقامی فالورز نے اسے جیم سوجیو یا ’سونے کا چمچہ‘ سمجھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انگریزی محاورے ‘منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہونا‘ سے ماخوذ ‘سونے کا چمچہ‘ جنوبی کوریا کے اعلیٰ آمدنی والے گھرانوں کے ایک فیصد سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ اکثر امیر خاندانوں کے بچوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اصطلاح ’گندگی کا چمچہ‘ سپیکٹرم کے دوسرے سرے کی نمائندگی کرتی ہے۔

سی ونگ کو کہتے ہیں کہ ‘اسی چیز نے اسے پرکشش بنا دیا تھا – یہ نہیں کہ وہ ایک محنتی انفلوئنسر تھی، یا یہ کہ وہ اپنے طور پر کامیاب تھی اور بہت زیادہ پیسہ کما رہی تھی۔ لوگوں نے کہا کہ وہ اس کو فالو کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سونے کا چمچہ ہے۔‘

تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو انھوں نے کبھی بھی ’سونے کا چمچہ‘ والے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ جولائی 2021 کے ایک انٹرویو میں، انھوں نے اس لیبل کی تردید کی تھی لیکن تسلیم کیا تھا کہ وہ امیر گھرانے میں پلی بڑھی ہیں۔

لیکن ایک انفلوئنسر کے طور پر، انھوں نے ایک پرتعیش بیوٹی پر مبنی پروفائل بنایا تھا۔ لوگوں نے فرض کیا کہ وہ ایک امیر لڑکی ہے، اور اس نے ان کی تصیح نہیں کی۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں امور نسواں کی ایسوسی ایٹ پروفیسر مشیل کو نے کہا کہ ’لوگوں کو لگتا ہے کہ انھیں دھوکہ دیا گیا ہے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ جیا کے خلاف اس ردعمل کی جڑیں جدید جنوبی کوریائی معاشرے کے بنیادی طبقاتی تناؤ میں ہیں۔

Ji-a in her apartment - still from YouTube

،تصویر کا ذریعہFREEZIA/YOUTUBE

،تصویر کا کیپشن

جیا نے اپنے لگژری اپارٹمنٹ اور اپنی زندگی کے دیگر پہلوؤں کو سوشل میڈیا پر دکھایا

یہ نہ صرف کوریا کی سیاست بلکہ پاپ کلچر میں بھی جھلکتا ہے۔ پیراسائٹ اور سکوئڈ گیم جیسی فلموں اور ٹی وی ڈراموں نے ’سونے کا چمچ – مٹی کا چمچہ‘ میں تقسیم کو نمایاں کیا ہے۔

کوریائی نوجوان بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اپنے ساتھیوں کی طرح، بڑھتی ہوئی طبقاتی عدم مساوات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

ان دنوں، ایک نوجوان کوریائی کے لیے اوسط تنخواہ پر گھر خریدنا تقریباً ناممکن ہے۔

بڑھتی ہوئی تعداد کو اب اس بات پر بھروسہ نہیں ہے کہ محنت کا ثمر ملے گا۔ اس کے بجائے بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ زندگی میں کامیابی کا انحصار اس خاندان پر ہے جس میں آپ پیدا ہوئے ہیں۔

سکول سے فارغ ہونے والے 70 فیصد یونیورسٹی جاتے ہیں تو تعلیم بھی اب سماجی تفریق کو ختم نہیں کر پا رہی۔ اقربا پروری کے سکینڈلز نے یونیورسٹی سسٹم پر لوگوں کا اعتماد بھی اٹھا دیا ہے۔

‘ہم اب اس مقام پر ہیں جہاں کچھ لوگ حقیقی طور پر یقین رکھتے ہیں کہ کوریا سماجی ترقی کا موقعہ نہیں دیتا ہے۔‘

‘خوشحال رہنے کا واحد طریقہ امیر والدین ہونا یا پیسے والے سے شادی کرنا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں، بہت سے لوگ اس ‘سونے کے چمچے’ کی نسل سے تعلق رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں جو بظاہر بہت آسان ہے۔‘

دوسرے لفظوں میں ایسے لوگ جو زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں، ان کے ساتھ ایک تلخ قسم کی وابستگی ہے۔

جب ایک عام کوریائی نوجوان جیا جیسی ‘امیر لڑکی‘ کو فالو کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو ان کا تعین صرف مادہ پرستانہ تعریف سے آگے بڑھ جاتا ہے۔

ڈاکٹر کو نے کہا کہ ‘لوگوں نے اس کے ذریعے اپنی زندگیاں بے تکلفی سے گزاریں، وہ تصوراتی دینا میں جینے کی خواہش رکھتے تھے۔‘

‘اور اس طرح جب یہ بے نقاب ہوا کہ وہ ایک دھوکہ تھی، تو ان کی خواہشات بھی ٹوٹ گئیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.