یوکرین پر روسی یلغار کے حامی روسی بلاگر کے قتل کے الزام میں گرفتار خاتون کون ہیں؟
داریا تریپووا نے بلاگر کو ایک مسجمہ دینے کا اعتراف کیا ہے جس میں مبینہ طور پر دھماکہ خیز مواد تھا
- مصنف, ویل ورنن، ماسکو
- عہدہ, پال کربی، لندن
روس میں تحقیق کاروں نے جنگ مخالف کارکن داریا تریپووا کو یوکرین پر روسی یلغار کے حامی بلاگر ولادلن تاتارسکی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سینٹ پیٹررزبرگ کے ایک ہوٹل میں یوکرین پر حملے کے حامی بلاگرولادلن تاتارسکی ہلاک اور دیگر 30 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
روس کی وزارت داخلہ نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کر دی ہے۔
روسی میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے کہ داریا تریپووا نے بلاگر تاتارسکی کو دھماکے سے پہلے ایک مجسمہ پیش کیا تھا۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس مجسمے میں دھماکہ خیز مواد چھپایا گیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ روس کے دوسرے بڑے شہر کے وسط میں ہونے والے اس حملے کو ’ہائی پروفائل قتل‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کی منصوبہ بندی احتیاط سے کی گئی تھی اور اس میں کئی افراد ملوث تھے۔
روس کی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ اس حملے کا منصوبہ یوکرین کی سپیشل سروسز نے حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔
ناوالنی جنوری 2021 میں جرمنی سے روس واپس آنے کے بعد سے جیل میں ہیں۔ وہ اگست 2020 میں روس میں ہونے والے ایک اعصابی ایجنٹ کے کیمیائی حملے میں بچ گئے تھے، جس کا الزام روسی سکیورٹی سروس کے ایجنٹوں پر لگایا گیا تھا۔
روسی میڈیا کے مطابق داریا تریپووا کو سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک فلیٹ سے حراست میں لیا گیا جو ان کے شوہر کے ایک دوست کی ملکیت ہے۔
بلاگر تاتارسکی کیفے میں ہونے والے اجلاس میں ایک مہمان مقرر کی حیثیت سے شرکت کر رہے تھے جہاں وہ اجلاس میں شریک لوگوں کو حب الوطنی کی تلقین کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھورے رنگ کے کوٹ میں ملبوس ایک نوجوان خاتون گتے کے ڈبے کے ساتھ کیفے میں داخل ہو رہی ہے۔
تصاویر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ خاتون کے بیٹھنے سے پہلے باکس کو کیفے میں ایک میز پر رکھا گیا تھا۔ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مجسمہ تاتارسکی کے حوالے کیا جا رہا ہے، جو ممکنہ طور پر اسی باکس سے ہے۔
داریا تریپووا کون ہیں؟
خیال کیا جاتا ہے کہ داریا تریپووا نے ایک عرصے تک سینٹ پیٹرزبرگ میں کپڑوں کی ایک مشہور دکان میں کام کیا
بلاگر ولادلن تاتارسکی کے قتل کے الزام میں دریا ٹریپووا کی حراست نے اس نوجوان خاتون کے پس منظر اور سیاسی خیالات کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
روسی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 26 سالہ ٹریپووا نے تاتارسکی کو ایک مجسمہ دیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے۔ بعد ازاں روسی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں وہ اس بات کا اعتراف کرتی نظر آرہی ہیں۔
تاہم، ان کا بیان ممکنہ طور پر دباؤ میں لیا گیا ہے، اور انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ دھماکہ خیز مواد کے بارے میں جانتی تھیں یا نہیں۔
ان کے دوستوں اور اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ جنگ مخالف سرگرم کارکن تھیں اور انھیں جنگ کے آغاز میں ایک احتجاج کے دوران حراست میں لیا گیا تھا لیکن ان کے خیالات انتہا پسندانہ نہیں تھے اور وہ کسی کا قتل نہیں کر سکتیں۔
ان کے شوہر دمتری ریلوف کا خیال ہے کہ انھیں کسی نے دھوکہ دے کر پھنسایا ہے۔
دریا تریپووا کے ایک جاننے والے نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سینٹ پیٹرزبرگ کے باہر پشکن نامی قصبے کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت ان کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں تھا۔‘
دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ انھوں نے بعد میں سینٹ پیٹرزبرگ سٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ انھوں نے اپنا کورس مکمل کیا یا نہیں۔
ان کےایک اور دوست کے مطابق، وہ شہر میں کپڑوں کی ایک دکان پر طویل عرصے تک کام کرتی رہیں، لیکن ایک ماہ قبل ماسکو منتقل ہونے کے لیے اپنی نوکری چھوڑ دی۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی اپنے شوہر ریلوف سے شادی کو کتنا عرصہ ہو چکا ہے۔
ایجنٹٹوو ٹیلی گرام چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تریپووا کے دوستوں کا کہنا تھا کہ ان کی شادی ایک ’مذاق‘ تھی اور وہ واقعی صرف دوست تھے۔
کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دونوں کو گزشتہ سال 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے آغاز پر جنگ مخالف ریلی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 10 دن تک حراست میں رہی تھیں۔
ریلوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے ایک چھوٹے سے گروپ لبرٹیرین پارٹی کے رکن ہیں، جو ان مظاہروں میں شامل تھی۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ ملک چھوڑ گئے ہیں۔
کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ریلوف بھی اس قتل کے سلسلے میں مطلوب ہیں۔
انھوں نے ایس وی ٹی وی نیوز کو بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے قتل نہیں کر سکتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ میری بیوی کو دھوکہ دیا گیا ہے‘۔
ان کے مطابق ’جی ہاں، یہ سچ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی یوکرین میں جنگ کی حمایت نہیں کرتا ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات ناقابل قبول ہیں۔‘
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ روسی تفتیش کار اس امکان کو رد نہیں کر رہے ہیں کہ داریا تریپووا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مجسمے میں کیا ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ داریا تریپوا دھماکے میں ہلاک ہونے والے بلاگر تاتارسکی کے ساتھ رابطے میں رہ چکی تھیں اور ایسے ایوینٹس میں بھی شرکت کر چکی تھیں جہاں وہ بلاگر بھی موجود تھے۔
سینٹ پیٹرزبرگ کے کیفے میں ہونے والے دھماکے میں 30 افراد زخمی بھی ہوئے
دریائے نیوا کے نزدیک کیفے ’سٹریٹ فوڈ نمبر ون‘ ایک وقت یوگینی پریگوژن کی ملکیت تھا جو کرائے کے فوجیوں کے بدنام زمانہ اس ویگنر گروپ کے رہنما ہیں جو روسی فوج کے ہمراہ یوکرین کی جنگ میں شریک ہے۔ ویگنر گروپ نے شمالی یوکرین کے شہر باخموت کی لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
پریگوژن کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ کیفے ’سائبر فرنٹ زی‘ کے حوالے کر دیا ہے۔ سائبر فرنٹ زی خود کو روس کے انفارمیشن فوجی کہتے ہیں۔
پریگوژن نے ایک ویڈیو میں ہلاک ہونے والے بلاگر تاتارسکی جن کا اصلی نام میکسم فومن تھا، کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
پریگوژن نے دعوی کیا کہ انھوں نے یہ ویڈیو باخموت قصبہ میں ریکارڈ کی ہے جس پر قبضے کے لیے روسی اور یوکرین کی فوجوں میں لڑائی جاری ہے۔
ولادلن تاتارسکی کون تھے؟
فوجی بلاگر ولادلن تاتارسکی یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کرتے تھے
یوکرین میں روس کی جنگ کے حامی تاتارسکی روسی عہدیدار تھے نہ ہی فوجی افسر تھے۔ وہ ایک مشہور بلاگر تھے جن کے پانچ لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے۔ پریگوژن کی طرح ان کا بھی مجرمانہ ماضی تھا۔
مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونیسک میں پیدا ہونے والے تاتارسکی ڈکیتی کے الزام میں جیل میں بند تھے اور جب روس نے یوکرین کے مشرقی علاقوں پر قبضہ کیا تو انھیں جیل سے رہائی ملی جس کے بعد روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں میں شامل ہوگئے۔
وہ کریملن کی حامی ملٹری بلاگر کمیونٹی کا حصہ تھے جس نے فروری 2022 میں روس کی یوکرین پر یلغار کی حمایت کی تھی۔
ان کا شمار ایسے بلاگرز میں ہوتا تھا جنھوں نے یوکرین میں روسی فوجیوں کی ناکامیوں پر صدر ولادیمیر پوتن سمیت روسی اہلکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
تاتارسکی غیر معمولی طور پر محاذ پر لڑتے ہوئے ہی وہاں سے رپورٹ بھی کرتے تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ انھوں نے ڈرون حملے شروع کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔
گزشتہ سال ستمبر میں جب صدر پوتن نے یوکرین کے چار حصوں کو روس میں شامل کرنے کا اعلان کیا تو تاتارسکی نے کریملن کے اندر سے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں وہ کہہ رہے تھے ’ہم سب کو شکست دیں گے، ہم سب کو مار ڈالیں گے، ہم ضرورت پڑنے پر سب کو لوٹ لیں گے۔‘
فوجی بلاگرز نے ایک ایسے ملک میں جنگ کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں جہاں بہت سے لوگ سرکاری ذرائع سے درست معلومات کی کمی سے مایوس ہو گئے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والے دھماکے کے پیچھے کون ہے لیکن یہ حملہ جنگ کی حامی داریا دوگینا کے قتل کی یاد دلاتا ہے جو گزشتہ اگست ماسکو کے قریب ایک کار بم حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
روسی حکام پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ یوکرین اس دھماکے کا ذمہ دار ہے۔ یوکرین کے صدارتی مشیر میخیلو پوڈولیاک نے دھماکے کا الزام روس کی اندرونی سیاسی لڑائی پر عائد کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’ایک برتن میں بند مکڑیاں ایک دوسرے کو کھا رہی ہیں۔‘
یوکرین نے حالیہ مہینوں میں ثابت کیا ہے کہ وہ روسی علاقے کے اندر ڈرون حملے اور دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یوکرین ایسے حملے میں ملوث ہونے کا شاذ و نادر ہی اعتراف کرتا ہے لیکن اکثر کچھ اشارے دے دیتا ہے۔
کرائے کے فوجیوں کے گروپ کے رہنما یوگینی پریگوژن نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ یوکرین کی حکومت ہے ’میرے خیال میں انتہا پسندوں کا ایک گروپ کام کر رہا ہے، جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
کیئو نے کہا ہے کہ اس دھماکے کا تعلق روس میں سیاسی لڑائی سے ہو سکتا ہے۔ روس میں اب بہت سے مشتعل افراد بندوقیں اٹھائے ہوئے ہیں۔
روس نے میدان جنگ میں فوجیوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جیلوں میں بند مجرموں کو رہا کر کے محاذ پر بھیج دیا ہے۔
روسی حکام نے رضاکار جنگجوؤں کے لیے بڑے پیمانے پر بھرتی کی مہم بھی چلائی ہے اور ’جزوی متحرک‘ ہونے کے لیے تقریباً تین لاکھ افراد کو بھرتی کیا ہے۔
Comments are closed.