یوکرین روس تنازع: یوکرین پر روسی حملے کے بعد شہری پناہ گاہوں کی تلاش میں
- نِک بیک
- بی بی س نیوز، کیئو
بہت سے شہری زیر زمین میٹرو سٹیشنز میں پناہ لے رہے ہیں
یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں جمعرات کی صبح کا آغاز سائرنوں کی گونج اور دھماکوں کی گھن گرج سے ہوا اور اس افراتفری میں بہت سے شہری محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں تھے جب کے بہت سے ملک چھوڑ کر جانے کی کوششیں کر رہے تھے۔
بہت سے شہری دارالحکومت کے زیر زمین ریلوے سٹیشنوں یا ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے بنائی گئی خندقوں میں پناہ لینے پر مجبور تھے جبکہ کچھ ملک سے نکل جانے کی فکر میں تھے۔
دارالحکومت سے مغرب کی جانب پولینڈ کی سرحد کو جانے والی بڑی شاہراہ پر گاڑیوں کے رش کی وجہ سے ٹریفک جام تھا۔
دارالحکومت کی سڑکوں اور گلیوں میں جمعرات کی صبح دو متضاد مناظر دیکھنے کو ملے۔ حیران کن طور پر ایک طرف کچھ ایسے لوگ نظر آئے جو معمول کے مطابق گھروں سے نکل کر کام پر جانے کے لیے بسوں کے انتظار میں تھے۔ دوسری طرف کچھ لوگ خوف کے عالم میں ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے عارضی پناہ گاہوں اور میٹرو سٹیشنوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔
کچھ لوگ بینکوں، سپرمارکیٹوں اور پیٹرول سٹیشنوں کے باہر لمبی قطاریں لگائے اپنی باری کے انتظار میں نظر آئے۔ اس دوران گاڑیوں پر سوار لوگوں کو مغرب کی طرف جاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
’میں لڑنے کے لیے تیار ہوں‘
ایک شخص نے مجھے راستے میں روک کر کہا کہ ‘یہ جنگ ہے۔’
مارک ایک 27 سالہ سیلز ایگزیکٹیو ہیں جو ہماری طرح صبح سات بجے کے قریب دھماکوں اور سائرن کی آوازوں کی وجہ سے بیدار ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
انھیں اپنے گھر کی عمارت کی سیڑھیوں میں روتی ہوئی لڑکی ملی جسے وہ قریبی میٹرو سٹیشن تک لے گئے۔
وہ یوکرین کی نوے ہزار ریزور فوج میں شامل ہیں اور مارک کا کہنا ہے کہ وہ اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ انھیں کب طلب کیا جاتا ہے۔
انھوں نے مجھ سے کہا کہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
’میں ہر صورت اپنے ملک کا دفاع کرنا ہے یا اس جنگ میں مر جانا ہے۔’
کئی خاندن اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ پناہ کی تلاش میں ہیں
مارک کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک کے ہر انچ کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
‘یہ واحد راستہ ہے۔ اگر فوج مجھ سے کہے کہ ملک کو میری جان چاہیے تو میں دینے کے لیے تیار ہوں۔’
’ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘
ایک دوسری جگہ پر ہماری ملاقات سولتانا سے ہوئی جو سکول میں کام کرتی ہیں اور ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے عارضی پناہ گاہ کی طرف جا رہی تھیں۔
صبح سویرے کسی دھماکے کی زور دار آواز سے ان کی آنکھ کھلی۔ سولتانا کو اپنی ایک دوست کا فون آیا جو روس کے زیر قبضہ کرائمیا میں مقیم ہیں اور انھوں نے بتایا کہ روسی ٹینک سرحد عبور کر کے یوکرین میں داخل ہو رہے ہیں۔
انھیں بتایا گیا کہ جنگ شروع ہو گئی ہے۔
سولتانا نے جلدی سے ایک بیگ میں کچھ ضروری اشیا ڈالیں جو وہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھیں۔ ان اشیاء میں ذاتی صفائی ستھرائی کی چند چیزیں اور لیپ ٹاپ شامل تھا تاکہ وہ سائیکولوجی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اپنی تیاری جاری رکھ سکیں۔
سولتانا نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ اب کیا ہو گا۔ ‘ہم ایک ایسی جگہ جا رہے ہیں جہاں ہم محفوظ رہ سکیں۔’
وہ اپنی بہن کے بارے میں فکر مند ہیں جو ملک کے جنوبی ساحلی شہر میریپول میں رہتی ہیں اور جہاں اطلاعات کے مطابق روسی فوجیں اتر چکی ہیں۔
‘مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کیسا لگ رہا ہے لیکن میں بہت پریشان اور خوف زدہ ہوں۔’
بہت سے لوگوں کے لیے کیئو کے زیر زمین سٹیشن سب سے محفوظ جگہیں ہیں۔
میں ایک جوڑے سے ملا جو اپنے فون پر خبریں دیکھ رہے تھے اور یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا کرنا چاہیے۔
وہ خوفزدہ تھے اور زیادہ انگریزی نہیں بولتے تھے۔ لیکن میں سمجھ گیا جب انہوں نے مجھ سے پوچھا: ’نیٹو کہاں ہے۔’
جب کہ کچھ لوگ شہر کے میٹرو اور ہوائی حملوں کی پناہ گاہوں میں تلاش میں تھے اور کچھ کیئو سے نکل جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
دارالحکومت سے مغرب کی طرف پولینڈ کی سرحد کی طرف جانے والی موٹر وے پر ٹریفک جام تھا۔
اکتیس سالہ ایلکس سویٹلسکی نے ہمیں بتایا کہ وہ اپنے والدین کو کیئو سے نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی بہن کے بارے میں بھی پریشان ہیں۔ ’میں چاہتا ہوں کہ وہ یہاں سے بہت دور رہے۔‘
الیکس کا کہنا ہے کہ روسی حملے کی خبر ان کے لیے حیران کن نہیں تھی۔ ‘ہم سب جانتے تھے کہ یہ جلد یا بدیر ہو گا، اور مجھے امید ہے کہ ہمارے فوجی تیار ہیں کیونکہ وہ تیاریاں کر رہے تھے۔’
انھوں نے کہا ’ہمیں امید ہے کہ وہ اپنی جگہ مضبوطی سے جمے رہیں گے۔‘
لیکن ایلکس کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر روسی افواج کیئو پہنچ گئیں تو وہ اس کے باشندوں پر مظالم ڈھائیں گے، جو دوسری جنگ عظیم کے دوران یوکرین میں نازیوں نے کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے وہ اپنے والدین کو دارالحکومت سے دور لے جانا چاہتے ہیں۔
’میں چاہتا ہوں کہ وہ کیئو چھوڑ کر کسی گاؤں چلے جائیں، کیونکہ وہاں جلد ہی گولہ باری ہو سکتی ہے۔‘
Comments are closed.