یوکرین میں پاکستانی سفارت خانے نے جنگ زدہ ماحول میں پھنسے طالب علموں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، مدد کے لیے وطن کی جانب دیکھنے والے طالب علم پھٹ پڑے اور پاکستانی سفارت خانے کا پول کھول دیا۔
یوکرین میں پاکستانی سفارت خانے کی بس نے حیدرآباد کی معصومہ میمن کو پولینڈ بارڈر سے 30 کلومیٹر پیچھے اتار دیا۔ معصومہ اپنی ساتھی طالبہ کے ساتھ پیدل چلنے پر مجبور ہوگئی۔
ایک اور طالب علم اسامہ احمد بھی ساتھیوں کے ساتھ پولینڈ کی طرف پیدل گامزن رہا، اسامہ نے کہا کہ سفارت خانے کا واحد کام یہ تھا کہ ایک بس کا انتظام کیا، جس نے سرحد سے 30 کلومیٹر پیچھے اتار دیا۔
اسامہ احمد نے کہا کہ انہیں نہیں پتا پولینڈ کی سرحد پار کرنے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں۔
طالب علم جوشوا ہنجرہ کا کہنا ہے کہ کل دوپہر سے پیدل چل رہے ہیں۔ بھاری سامان اٹھا کر تھک گئے، وہ اور ان کے ساتھی اپنا بہت سا بیش قیمت سامان راستے میں پھینکنے پر مجبور ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ سفارت خانے نے اپنا عملہ نکال لیا، طلبہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔
دو دن سے پیدل چلنے والے ٹنڈو الہٰ یار کے ضرار کا والدین سے ٹیلی فونک رابطہ منقطع ہوگیا، والدین پریشان ہیں۔
طالب علم کے والدین کا کہنا ہے کہ ضرار کی دو دن پہلے پیدل سفر کی ویڈیو سامنے آئی تھی، سفارت خانے نے جو نمبر دیے، انہیں کوئی نہیں اٹھا رہا۔
کیف سے 20 کلومیٹر دور پھنسی آمنہ حیدر کو سفارت خانے نے مدد نہیں دی۔ یوکرین کے رہائشی ایک پاکستانی نے انہیں مضافاتی گاؤں سے کیف پہنچایا، جس کے بعد آمنہ نے بس میں ٹرنوپِل کی طرف سفر شروع کیا۔
مشرقی حصے خارکیف میں پھنسے 250 سے 300 طلبہ کا ہزار کلومیٹر کا سفر کرکے مغربی سرحد تک پہنچنا ایک کٹھن مرحلہ ہے، طلبہ اپنی مدد آپ کے تحت اتنا فاصلہ طے کرکے کیسے پہنچیں گے؟ لمحہ فکریہ ہے۔
Comments are closed.