بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یورپ جانے کا خواب جس نے دو دوستوں کو ایرانی اغوا کاروں کے چنگل میں پھنسا دیا

یورپ جانے کا خواب اور انسانی سمگلنگ: دو پاکستانی نوجوان جو ایران میں اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے

  • احتشام احمد شامی
  • صحافی، گوجرانوالہ

ویڈیو سے لیا گیا سکرین شاٹ

،تصویر کا ذریعہEhtasham Shami

،تصویر کا کیپشن

کامران اور عبدالخالق کی ویڈیو سے لیا گیا سکرین شاٹ

آنکھوں میں سہانے مستقبل کے خواب سجائے غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے دو پاکستانی دوست ایران کی حدود میں اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔

لڑکوں کے اہل خانہ کے مطابق ان نوجوانوں پر تشدد کی ویڈیوز ان کو واٹس ایپ کی جارہی ہیں جس میں گھر والوں سے اپیل کی گئی کہ ’اغوا کاروں کو مزید پیسے بھجوائیں ورنہ یہ ہمیں جان سے مار دیں گے۔‘

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ فیملی کی طرف سے درخواست موصول ہو چکی ہے جس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے اور انسانی سمگلر، ان کے والد اور ایک ساتھی کی گرفتاری کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

یورپ: نوجوانوں کے لیے ایک خواب

وسطی پنجاب کے اضلاع خصوصا گجرات، منڈی بہاو الدین، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال اور حافظ آباد میں غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کا رحجان گذشتہ تین عشروں کے دوران بہت بڑھا ہے۔

گوجرانوالہ کے قریب گائوں آدھورائے میں جب گاؤں کا ایک خاندان یورپ منتقل ہوا اور ان کے کچے مکان کی جگہ تین منزلہ خوبصورت ٹائلوں والے گھر نے لی تو گاؤں کے کئی نوجوان بھی یورپ جا کر مستقبل سنوارنے کی خواب دیکھنے لگے۔

آدھورائے کے دو جگری یار کامران اور عبدالخالق بھی دن رات یہی باتیں کرتے تھے۔

25 سالہ کامران دکانوں پر مرغیاں سپلائی کا کام کرتے تھے اور ان کا دوست عبدالخالق ایک ڈیرے پر بھینسوں کو چارہ ڈالنے اور چھوٹے موٹے کاموں کی ملازمت کرتا تھا۔ دونوں ہی شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں۔

انھوں نے یورپ جانے کے لیے کسی ایجنٹ کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ ایک دوست کی وساطت سے ان کی ملاقات نادر نامی ایک ایجنٹ سے ہوئی جس نے ان کو یورپ پہنچانے کی حامی بھری اور کئی مبینہ واقعات بھی سنائے کہ کیسے وہ لڑکوں کو پنجاب سے یورپ پہنچاتا ہے جو آج ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں۔

یورپ

،تصویر کا ذریعہEhtasham Shami

یونان پہنچانے کا ریٹ چھ لاکھ

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہ ایجنٹ پنجاب سے یونان پہنچانے کا ریٹ چھ لاکھ روپے لیتے ہیں۔ ایجنٹ نادر نے ان کو بتایا کہ ڈیڑھ لاکھ ایڈوانس، ڈیڑھ لاکھ ایران کا بارڈر کراس کرنے کے بعد اور پھر تین لاکھ ترکی یا یونان پہنچ کر ادا کرنا ہو گا۔

20 اپریل کو کامران اور عبدالخالق گھر والوں سے ملاقات کے بعد نادر کے ساتھ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ایجنٹ نادر نے ان سے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے بطور ایڈوانس وصول کیا اور کوئٹہ کے رستے انھیں ایران لے گیا جہاں ایران اور ترکی کے بارڈر پر پہنچ کر طے شدہ معاہدے کے مطابق مزید ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے کا تقاضا کیا۔

دونوں لڑکے اپنے گھر فون کرتے ہیں جہاں ایجنٹ کے والد سمیع اللہ اور ان کے سب ایجنٹ مجیب اللہ کو رقم ادا کر دی جاتی ہے۔ رقم کی وصولی کی تصدیق ہونے کے بعد ایجنٹ انھیں ترکی کا بارڈر کراس کروانے کی دو دفعہ کوشش کرتا ہے لیکن دونوں دفعہ ناکام رہتا ہے۔

اس دوران ایران اور ترکی کے بارڈر پر متعین سکیورٹی اہلکار انھیں غیر قانونی بارڈر کراسنگ کی کوشش پر تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔

ترکی پہنچنے میں ناکامی اور سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مارپیٹ پر کامران اور عبدالخالق دل برداشتہ ہوتے ہیں اور ایجنٹ نادر کو کہتے ہیں کہ وہ انھیں واپس گوجرانوالہ لے جائے اور یہیں سے غیر قانونی راستوں سے بارڈر کراس کرنے والے لڑکوں کی نئی مشکل شروع ہو جاتی ہیں۔

مغوی کامران

،تصویر کا ذریعہEhtasham Shami

،تصویر کا کیپشن

مغوی کامران

کامران اور عبدالخالق پر کیا بیتی؟

کامران کی والدہ شاہدہ بی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب لڑکوں نے کہا کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں تو ایجنٹ نادر نے کہا کہ واپسی کے لیے اپنے گھروں سے مزید ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ منگواؤ۔‘

شاہدہ بی بی کا کہنا ہے کہ وہ غریب لوگ ہیں، محنت مزدوری کرتے ہیں، ’دونوں لڑکے پہلے ہی رشتے داروں اور دوستوں سے پیسے مانگ کر گئے تھے، اب واپسی کے لیے ایجنٹ کو کہاں سے پیسے دیتے۔‘

شاہدہ بی بی نے بتایا کہ ’ایجنٹ نے دونوں لڑکوں کو ایران میں جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھوں فروخت کردیا اور خود غائب ہو گیا۔ اب وہ اغوا کار ان لڑکوں کو روزانہ مارتے پیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھر والوں سے پیسے منگواؤ۔‘

’لڑکوں کے چہروں پر کٹ لگائے گئے ہیں، ان کے ہاتھ پیر باندھ کر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور موبائل فون پر کال ملا کر کہا جاتا ہے کہ بولو، منی یعنی رقم۔‘

وہ کہتی ہیں ’اغواکاروں کو ہماری زبان اور ہمیں ان کی زبان سمجھ نہیں آتی۔ ہم نے ان کو بتایا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں، آپ کو کہاں سے پیسے بھیجیں، جس پر وہ کہتے ہیں کہ اپنا مکان فروخت کرو اور پیسے بھجواؤ۔‘

’ہماری دو جوان بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے کی ابھی شادی کرنی ہے۔ کامران کے بھی دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اگر مکان بیچ دیا تو ہم سب کہاں جائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

یورپ

،تصویر کا ذریعہEhtasham Shami

،تصویر کا کیپشن

کامران کی والدہ

حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل

کامران کے بھائی عبدالمنان کا کہنا ہے کہ ان کا اپنے بھائی سے سات آٹھ روز قبل رابطہ ہوا تھا جس کے بعد ’ابھی تک کچھ پتا نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں، کئی دن گزر گئے ان سے رابطہ نہیں ہوا۔‘

کامران اور عبدالخالق کے اہلخانہ نے حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل اور وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ ’حکومت نوجوانوں کو واپس لانے میں ہماری مدد کرے۔‘

ایف آئی اے کے ریجنل ڈپٹی ڈائریکٹر رب نواز کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’ایجنٹ نادر، ان کے والد سمیع اللہ اور سب ایجنٹ مجیب اللہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔‘

ایف آئی اے حکام کے مطابق ’گوجرانوالہ ریجن میں جو گروہ غیر قانونی انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں، ان کے خلاف مختلف ٹیمیں آپریشن کر رہی ہیں اور حالیہ دنوں میں متعدد انسانی سمگلرز گرفتار کر کے جیل بھجوائے گئے ہیں۔‘

کامران اور عبدالخالق کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے

،تصویر کا ذریعہEhtasham Shami

انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات

وسطی پنجاب کے اضلاع میں انسانی سمگلنگ کے واقعات کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ بارڈر کراسنگ کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ یا ایجنٹوں، اغواکاروں کے ہاتھوں ہلاکت کے کیس اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

کچھ افراد کی لاشیں واپس آجاتی ہیں جبکہ کئی کے اہلِ خانہ کو ان کا کبھی سراغ نہیں ملتا۔

ماہر قانون شکیلہ سلیم رانا قانون کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایسے کئی کیسز دیکھے ہیں جن میں ’اسانی سمگلر گرفتار تو ہوتے ہیں مگر کچھ ہی دنوں بعد ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور جیل سے باہر آکر پھر سے وہی دھندا شروع کر دیتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب تک ہم اس بارے میں سخت قوانین نہیں بنائیں گے، یہ دھندا یونہی چلتا رہے گا اور بے گناہ نوجوان انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جانیں گنواتے رہیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.