daty hookup best hookup subredduts free nyc hookups knoxville hookups hookup Cresskill New Jersey being honest about wanting hookup reddit

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

وہ ملک جس کی صدیوں پرانی غیر جانبداری کو روس یوکرین جنگ نے بدل دیا

روس یوکرین جنگ: وہ ملک جس کی صدیوں پرانی غیر جانبداری کو اس جنگ نے بدل کر رکھ دیا

  • اموجن فولکس
  • بی بی سی نیوز، جنیوا

Women hold placards in front of the Swiss House of Parliament during a national demonstration against the war in Ukraine that gathered around 10,000 participants in Swiss capital Bern

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف مظاہروں نے سوئٹزرلینڈ بھر میں دسیوں ہزار لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا

جب یورپ میں جنگ جاری ہو تو ایک یورپی ملک کیسے غیرجانبدار رہ سکتا ہے؟ سوئٹزرلینڈ نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دور میں اپنی غیر جانبداری کو سنبھالے رکھا لیکن اب یوکرین پر روس کے حملے کو دیکھ کر بہت سے سوئس شہری اپنے دیرینہ مؤقف پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ کو سنہ 1815 میں کانگریس آف ویانا میں ’ابدی غیر جانبداری‘ عطا کی گئی تھی۔ یہ ایک عملی اور جغرافیائی سیاسی اقدام تھا جس کی حمایت کی گئی کیونکہ اس ملک کو یورپ کی بڑی طاقتوں کے درمیان ایک بے ضرر بفر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

ایک جانب فرانس، دوسری طرف آسٹریا، جنھوں نے سوئٹزلینڈ کو ایسے وقت میں محفوظ رکھا جب اس کے پڑوسی ملک ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران، سوئس غیر جانبداری بہادری سے زیادہ عملی تھی۔ سوئٹزلینڈ نے اپنے تمام صحتمند مردوں کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیار کیا تھا لیکن اس نے نازیوں کے سونے کو بھی بینکوں میں محفوظ رکھا جو انھوں نے جنگوں کے دوران لوٹا تھا۔

سوئٹزلینڈ نے نازیوں کے ستائے ہوئے ہزاروں یہودیوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا تھا جس پر اس نے نوے کی دہائی میں معافی بھی مانگی تھی۔

کئی دہائیوں سے، سوئس لوگوں میں غیر جانبداری کو تقریباً مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ عوامی جائزوں میں 90 فیصد لوگ اس کے حامی تھے۔

ٹیگیسنزائیگر اخبار کے سیاسی نامہ نگار مارکس ہیفلیگر کہتے ہیں کہ ’لیکن اب سوئس اپنے آپ کو ٹٹول رہے ہیں اور اپنے آپ سے سوال کر رہے ہیں کہ یوکرین جیسی جنگ میں وہ غیر جانبدار کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ بہت واضح ہے کہ اچھا کون اور برا کون ہے؟‘

A sign points Ukrainian refugees in the direction of a food distribution centre in Zurich, Switzerland, 23 April 2022

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

زیورخ میں یوکرین کے پناہ گزینوں میں خوراک کی تقسیم کا مرکز

جمہوریت بمقابلہ آمریت

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

فروری میں جب روس نے اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تو ہزاروں سوئس شہری سڑکوں پر نکل آئے، انھوں نے جارحیت کی مذمت کی اور یوکرین کی حمایت کا مطالبہ کیا۔

ہزاروں افراد نے یوکرینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں میں ٹھرانے کی پیشکش کی جنھیں سوئس حکومت نے ویزا فری اجتماعی تحفظ کی پیشکش کی تھی۔

سوئس نوجوانوں کے لیے یہ سوچنا ہی محال ہے کہ ایسے تنازعے میں ان کا ملک الگ تھلگ رہ سکتا ہے۔

’آپریشن لائبیرو‘ ایک غیر وابستہ سیاسی تحریک ہے جو یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے مہم چلاتی ہے۔ آپریشن لائیبرو کی صدر سنیجا امیتی سمجھتی ہیں کہ یوکرین کی جنگ ان کے لیے نیند سے بیدار ہونے کی ایک کال ہے۔

’سوئس شہریوں کو احساس ہو رہا ہے کہ وہ لبرل جمہوریتوں کے یورپی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور یوکرین کی جنگ دو نظاموں کی جنگ ہے، ایک وہ جس میں ہم ہیں اور دوسرا (صدر پوتن) کا مطلق العنان اور اشرافیہ کا نظام۔‘

سوئٹزرلینڈ نے ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد روس کے خلاف یورپی یونین کی تمام پابندیوں کو اپنا لیا اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ صرف 40 سال پہلے کے مقابلے میں بہت بڑی تبدیلی ہے جب سوئٹزرلینڈ نسل پرست جنوبی افریقہ کے خلاف پابندیوں میں شامل نہیں ہوا تھا، جو بہت سارے سوئس شہریوں کے لیے بہت شرمندگی کا باعث تھا۔

سوئٹزرلینڈ کی جانب سے روس کے خلاف یورپی پابندیوں کو اپنانے کے فیصلے کا دنیا بھر میں شہ سرخیوں کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا کہ سوئٹزرلینڈ نے غیر جانبداری کی پالیسی کو ترک کر دیا۔

زیورخ یونیورسٹی میں سیاست کی پروفیسر سٹیفنی والٹر کہتی ہیں کہ ’سوئٹزلینڈ نے پچھلے چند عشروں میں اپنی پوزیشن کو تبدیل کیا۔ اس نے 1990 کی دہائی میں عراق پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو اپنایا۔ پھر اس نے یوگوسلاویہ کے خلاف پابندیوں کو بھی اپنایا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پابندیاں منظور لیکن ٹینک نہیں

سوئٹزرلینڈ کے شہریوں کی اکثریت شاید روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی تو حامی ہے لیکن کسی قسم کی فوجی حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

1907 کے ہیگ کنوینشن میں سوئٹززلینڈ کی غیرجانبداری کی جو تعریف کی گئی، اس کے مطابق وہ جنگ میں شریک کسی ملک کو ہتھیار فراہم نہیں کر سکتا۔

سوئٹزرلینڈ کے اپنے قانون کے مطابق ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی ہے اور اسے حالیہ دنوں میں مزید سخت بنایا گیا ہے۔

جب جرمنی نے سوئٹزرلینڈ سے سوئس اسلحے کو یوکرین کو دینے کی اجازت چاہی تو سوئٹزرلینڈ نے انکار کر دیا۔ اس فیصلے کو ایک ایسے حلقے کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا جس کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

ڈائی مِٹ پارٹی کے رہنما نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ یورپی جمہوریت کے دفاع میں ہتھیار بھیجنا جائز ہو گا۔

کچھ مرکزی سیاستدانوں نے نیٹو فوجی اتحاد کے ساتھ قریبی سوئس تعلقات کی تجویز دی ہے، جس میں مشترکہ فضائی دفاعی نظام اور تنظیم کی فوجی مشقوں میں شرکت شامل ہے۔

چند ماہ پہلے ایسی رائے کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا جسں کی دائیں طرف سے شدید مزاحمت کی جائے گی، جہاں سوئس پیپلز پارٹی پابندیوں کو بھی غیر قانونی بنانے کے لیے ریفرنڈم کی دھمکی دے رہی ہے اور بائیں جانب جہاں سوشل ڈیموکریٹس اور گرینز بھی کسی بھی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔

The type of ammunition manufactured for some Swiss tanks can also be used by tanks being sent to Ukraine by Germany

،تصویر کا ذریعہSwiss Armed Forces

،تصویر کا کیپشن

سوئس ٹینکوں کے لیے تیار کردہ گولہ بارود کو جرمنی کے ذریعے یوکرین بھیجے جانے والے ٹینکوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے

غیر جانبداری الوداع؟

لیکن رفتہ رفتہ بہت سے سوئس اپنے ملک کے لیے ایک نئی شناخت اور ایک نئی سییورٹی حکمت عملی پر غور کرنے لگے ہیں۔

رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ جہاں دو تہائی سوئس اب بھی نیٹو میں شمولیت کے خیال کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ نصف سے زیادہ (52فیصد) یورپی دفاعی یونین میں شمولیت کے حق میں تھے۔

یورپی دفاع کا منصوبہ جسے برسلز میں پیسکو (Pesco) کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں وہ ممالک شامل ہوں گے جو مشترکہ سلامتی اور دفاعی پالیسی کے پابند ہیں۔ اس منصوبے کے تحت فوجیں مل کر کام کریں گی، لڑاکا طیارے، ٹینک اور دیگر ہتھیار مشترکہ طور پر خریدے جائیں گے۔

سوئٹزرلینڈ جیسا ملک جو یورپی یونین کا حصہ بھی نہیں، چند ماہ پہلے تک اس کے کسی فوجی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں سوچا نہیں بھی جا سکتا تھا لیکن یوکرین کی جنگ نے اس رائے کو پر بدل کر رکھ دیا ہے۔

سنیجا امیتی سمجھتی ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ یورپی لبرل جمہوریت کا دفاع کرے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں واقعی اس بات پر بحث کی ضرورت ہے کہ کیا ہمیں اپنے نظام کو ہتھیاروں سے بچانا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمیں غیر جانبدار نہیں رہنا۔‘

پروفیسر والٹر اس حد تک نہیں جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں سوئٹزرلینڈ کو غیر جانبداری کی نئی تعریف کرنی ہو گی۔

مارکس ہیفلیگر کے مطابق یوکرین کی جنگ نے ایک نئی، منقسم دنیا میں سوئٹزرلینڈ کی پوزیشن کو واضح کر دیا ہے۔

’سوئٹزرلینڈ واضح طور پر مغربی دنیا کا حصہ ہے، اس کی اقدار، اس کی معیشت، اس کی روایات، ہر چیز۔‘

لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ موجودہ عالمی نظام میں روایتی غیر جانبدارای پر قائم رہا جا سکتا ہے؟

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.