سٹرٹ سیف: ایڈنبرا میں شروع کی گئی ایک ٹیلی فون ہیلپ لائن تنہا خواتین کو گھر تک پہنچانے میں مددگار
ایلس جیکسن کو وہ رات آج بھی یاد ہے جب انھیں پہلی مرتبہ ٹیلی فون آیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب آپ ٹیلی فون کا جواب دیتے ہیں تو آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ کال کرنے والا خوفزدہ ہے۔ ان کی آواز کانپ رہی ہوتی ہے۔‘
کالر نے ایلس کو بتایا کہ وہ گھر کے راستے میں ہیں۔
’اسے کچھ ہونے کا اتنا یقین تھا کہ اس نے خود کو تیار کر لیا تھا، وہ تیز تیز چل رہی تھی۔
’اس نے کہا کہ میرے خیال میں کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔‘
اس لڑکی نے ایلس کو اپنے نام، عمر، برتھ ڈے، پتے، کپڑوں اور دیگر کوائف کے بارے میں بتایا۔
ایلس کا کہنا ہے ’جیسے اسے پتا ہو کہ مجھے کن باتوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
’مجھے اب بھی یاد ہے کہ اس نے اپنے کپڑوں کے بارے میں کیا کہا تھا۔‘
سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں خواتین کے تحفظ کے لیے Strut Safe (سٹرٹ سیف) کے نام سے شروع کیا گیا پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ یہ پروگرام گزشتہ برس شروع کیا گیا تھا جس میں شام ڈھلے اور رات گئے اکیلے گھر جانے والی خواتین کا ٹیلی فون پر ساتھ دیا جاتا ہے۔
بائیس سالہ ایلس اور ان کی دوست ریچل چنگ کو گزشتہ سال اپریل میں ایک ایسی ٹیلی فون ہیلپ لائن شروع کرنے کا خیال آیا تھا جس پر رات کے وقت اکیلے گھر جانے والی خواتین کال کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں، ’ہم نے ایک سستا فون خریدا، لوگوں سے بات کی کہ وہ رضاکارانہ طور پر اس پر آنے والی کالز کا جواب دیں اور پھر کمیونٹی گروپس میں اس نمبر کو پوسٹ کر دیا۔‘
سٹرٹ سیف اس کے بعد سے ہر اختتام ہفتہ پر کالز موصول ہوتی ہیں۔
ایلس کا کہنا ہے کہ ’ان کے (کال کرنے والوں کے) دوست کلب میں ہی رہ گئے ہوں گے، بوائے فرینڈر جواب نہیں دے رہا ہوگا، یا امی کو کال کرنے کے لیے دیر ہو چکی ہوگی، اس لیے لوگ گھر جاتے ہوئے ہمیں کال کر کے ہمارے کسی رضاکار سے بات کر سکتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
سٹرٹ سیف کے رضاکاروں کا انٹرویو کیا جاتا ہے، انھیں تربیت دی جاتی ہے اور ان کے پس منظر کی چھان بین کی جاتی ہے۔ ان کی ذمہ داری لوگوں سے بات کرنا اور ان کا حوصلہ بڑھانا ہے، مگر بعض اوقات کالر اپنی حفاظت سے متعلق فکر مند ہوتی ہیں۔
ایلس کا کہنا ہے، ’وہ رو رہی ہوتی ہیں، بہت اداس ہوتی ہیں، اور آپ انھیں اس کیفیت سے نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔‘
’آپ کہتے ہیں، دیکھو، میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘
ضرورت پڑنے پر رضاکار پولیس یا ایمبولنس کو بھی اطلاع دیتے ہیں۔
ایلس کا کہنا ہے ’مگر ہمیشہ پہلے ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر کچھ ہو جائے تو کیا ہم ان کی دی ہوئی معلومات کو استعمال کر سکتے ہی۔‘
ایلس کا کہنا ہے کہ پہلے پہل تو سٹرٹ سیف کے بارے میں لوگوں کو ایک دوسرے کی زبانی پتا چلا، اب لوگ اس نمبر کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے لگے ہیں۔ اور ہر اختتام ہفتہ پر موصول ہونے والی کالز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کسی لڑکی کے قتل کی خبر آتی ہے تو کال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، ’کیونکہ لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘
ایلس کہتی ہیں کہ سٹرٹ سیف شروع کرنے کے بعد انھیں سڑکوں پر ہراس اور تشدد کی نوعیت کا اندازہ ہوا۔
ان کا کہنا ہے ’جو لوگ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جو کہتے ہیں کہ لوگ توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں، ایسا کچھ نہیں ہوتا، یا یہ کہ سڑکیں ایسی نہیں ہیں، ان کالز کو سن کر آپ حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے۔‘
سٹرٹ سیف کو بہت کم عطیات ملتے ہیں، اور ایلس یہ بات مانتی ہیں کہ یہ حل نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ ’مگر اب ایسا کچھ موجود ہے جو پہلے نہیں تھا، ہم ضرورت مندوں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بہتری آئے گی۔‘
ایلس کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی کالر بحفاظت گھر پہنچ جاتی ہے تو انھیں تسکین ملتی ہے۔
’وہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنا گھر نظر آ رہا ہے، یا وہ صرف ایک منٹ کے فاصلے پر ہیں۔ مگر ہمیشہ ان سے کہتی ہوں، کوئی بات نہیں، میں لائن پر رہوں گی۔
’بس مجھے اس وقت بتائیں جب آپ گھر میں داخل ہو چکی ہوں۔‘
’بعض اوقات تو آپ بیس منٹ تک کسی سے بات کرتے ہیں جو انتہائی جذباتی ہوتی ہے۔ لگتا ہے جیسے کال کرنے والا بھاگتا رہا ہو۔ اور پھر کال ختم ہو جاتی ہے۔ اور خاموشی چھا جاتی ہے۔‘
اور پھر فون ایک مرتبہ پھر بجنے لگتا ہے۔
آواز آتی ہے: ’ہیلو، میں رات کو کام کے ساتھیوں کے ساتھ شام گزارنے کے بعد گھر جا رہی ہوں۔ میں کسی سے بات کرنا چاہتی تھی اور میری دوست نے یہ نمبر دیا۔‘
ایلس کا کہنا ہے کہ یہ سننے کے بعد ’آپ پھر سے اسی رو میں آ جاتی ہیں۔‘
’ہائے، کال کرنے کا شکریہ۔ آپ ٹھیک تو ہیں؟ آپ کتنی دور ہیں؟‘
Comments are closed.