’ہپ ہاپ موسیقی نے مجھے اسلام قبول کرنے کی طرف راغب کیا‘
- مصنف, ٹم سٹوکس اور کیتھرین مرے
- عہدہ, بی بی سی نیوز
آپ کو ضرور ایسے افراد ملے ہوں گے جنھوں نے آپ کو ایسی موسیقی کے بارے میں بتایا ہو گا جو ان کے دل کو بھاتی ہے لیکن اسماعیل لیا ساؤتھ کے لیے یہ ان کی زندگی بدلنے کا باعث بنی۔
مئی 1973 میں شمال مغربی لندن کے علاقے ولزڈین میں پیدا ہونے والے اسماعیل آج کل نوجوانوں کو امداد فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا ہپ ہاپ موسیقی سے تعارف چھوٹی سی عمر میں ہو گیا تھا جب وہ جنوبی کلبرن ہائی سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
انھوں نے بی بی سی ریڈیو 4 کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے سکول میں افریقی اور ایفرو کیریبین نسل کے بچے بڑی تعداد میں تھے۔ ہم اس دور میں بگ ڈیڈی کین، اے ٹرائب کالڈ کوئیسٹ، پبلک اینیمی، ایرک بی اینڈ راکم کو سنا کرتے تھے۔‘
خیال رہے کیو ٹپ نامی مشہور ریپر نے سنہ 1990 کی دہائی میں اسلام قبول کیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ آغاز میں وہ صرف ’بیٹ کے ساتھ سر ہلانے پر‘ اکتفا کیا کرتے تھے لیکن اسماعیل کو جلد معلوم ہونا شروع ہوا کہ ان کے پسندیدہ فنکار ان گانوں میں کہہ کیا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ وہ وقت تھا جب متعدد ریپرز اپنے گانوں میں عربی زبان میں جملے شامل کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر مسلمان نہیں ہوتے تھے لیکن وہ انشااللہ (اگر اللہ نے چاہا) جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے۔
انھوں نے وقت کے ساتھ ایسے فنکاروں پر زیادہ توجہ دینی شروع کر دی جن کی موسیقی میں زیادہ گہرائی تھی۔ اسماعیل اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کچھ ایسے ریپرز ہوتے تھے جو اپنی موسیقی میں اس بات کا ذکر کرتے تھے کہ کیسے انھوں نے اپنی زندگی کو مزید گہرائی سے دیکھنا شروع کیا تھا اور وہ روحانیت کے بارے میں گانے گایا کرت تھے۔‘
اس کی مثال وہ سنہ 1987 کے ہپ ہاپ کلاسک ’پیڈ اِن فل‘ سے دیتے ہیں جو ایرک بی اینڈ راکم نے گایا ہے۔ اس گانے میں راکم کہتے ہیں کہ ’وہ پہلے ایک شرارتی لڑکے ہوا کرتے تھے لیکن پھر انھیں اندازہ ہوا کہ یہ جینے کا صحیح طریقہ نہیں ہے اور اب وہ صبح نو سے شام پانچ کی نوکری کرنا چاہتے ہیں۔‘
’میں سوچتا تھا کہ انھیں کس بات نے اس زندگی سے نو سے پانچ کی زندگی جینے کی طرف راغب کیا اور پھر وہ اسلامی الفاظ بولا کرتے تھے، جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔‘
اسماعیل کے لیے اگلا سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب انھیں وسطی لندن میں سپیکرز کارنر کی ایک تقریب میں مدعو کیا گیا جس میں کیش کریو نامی ریپ بینڈ نے شرکت کرنی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ہائیڈ پارک کارنر گیا اور جاتے ہوئے مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیسی جگہ ہے۔ وہاں پہنچ کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ مجھے مسیحی، مسلمان، یہودی، سوشلسٹ، ایگناسٹک افراد ایک دوسرے سے بحث کرتے دکھائی دیے اور میں نے سوچا یہ جگہ تو بہترین ہے۔‘
وہاں پر ان کی ایک اور مقرر سے بھی ملاقات ہوئی جن کا نام محمد خواجہ تھا۔ یہ اسماعیل کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالنے والے تھے۔ ’وہ بھی میری طرح ایفرو کیریبین تھے اور وہ اسلامی افریقی لباس میں ملبوس تھے اور جب وہ بولتے یا بحث کرتے تو کوئی بھی ان کا مقابلہ نہ کر پاتا۔‘
’میں نے ان سے اسلام کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ میں نے کہا کہ میں اسلام کی کچھ چیزوں سے اتفاق نہیں کرتا، تو انھوں نے مجھے ان باتوں پر وضاحت فراہم کی۔‘
یہ بھی پڑھیے
چھ ماہ بعد اسماعیل کو ان کے ایک دوست کی کال آئی جس نے انھیں مسجد آنے کے دعوت دی۔ وہاں ان کی ملاقات دوبارہ محمد خواجہ سے ہوئی۔
’انھوں نے کہا کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟ میں آپ سے اسلام کے بارے میں مزید بات کرنا چاہتا ہوں اور یوں میں نے مزید سیکھنا اور پڑھنا شروع ہوا۔‘
شروعات میں وہ اسلام قبول کرنے کے بارے میں ابہام کا شکار تھے ’کیونکہ میں چاہتا تھا کہ نوجوانی میں جتنا محظوظ ہو سکتا ہوں ہو لوں‘ لیکن پھر آخر کار انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
تاہم جہاں ہپ ہاپ موسیقی نے انھیں اسلام کی طرف راغب کیا وہیں ان کے خاندان کے لیے اس نئے طرزِ زندگی کو قبول کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ مسیحی تھے۔
’جب میں نے اسلام قبول کیا تو میں نے شراب پینا چھوڑ دی، خنزیر کا گوشت کھانا ترک کر دیا اور میں پارٹی کرنے بھی نہیں جاتا تھا، میری فیملی نے سوچا کے شاید میں پاگل ہو گیا ہوں۔‘
’لیکن پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں اب شادی کرنا چاہتا ہوں اور جب میری والدہ نے یہ سنا تو انھیں تسلی ہوئی اور اب وہ میرے بارے میں فکرمند نہیں ہیں۔‘
اسماعیل نے اپنا ہپ ہاپ ایکٹ بھی بنایا جسے انھوں نے ’مکہ ٹو مدینہ‘ کا نام دیا۔ اسماعیل ’سلام پراجیکٹ‘ کے بانی ہیں جو بچوں کو متحرک رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے ساتھ انھیں مسائل میں امداد فراہم کرتا ہے۔
Comments are closed.