بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ہسپتال کا ویکسین نہ لگوانے والے شخص کے دل کی پیوندکاری سے انکار

کووڈ: امریکہ میں ایک ہسپتال نے کورونا ویکیسن نہ لگوانے والے شخص کے دل کی پیوندکاری سے انکار کر دیا

مریض

،تصویر کا ذریعہCBS

امریکی شہر بوسٹن کے ایک ہسپتال نے ایک مریض کا ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنے سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیا کیونکہ اس نے کووڈ کے خلاف تحفظ کی ویکیسن نہیں لگوائی ہوئی تھی۔

مریض کے والد ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ 31 برس کے ڈی جے فرگوسن کو دل کے ٹرانسپلانٹ کی اشد ضرورت ہے مگر بوسٹن کے بیگھم اینڈ وویمن ہسپتال نے انھیں اپنی ہارٹ ٹرانسپلانٹ یعنی دل کی پیوند کاری کے فہرست سے نکال دیا ہے۔

مریض کے والد ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ کووڈ ویکسین ان کے بیٹے کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھی اور وہ اس پر یقین نہیں رکھتے تھے اس لیے انھوں نے یہ ویکسین نہیں لگوائی تھی جبکہ ہسپتال کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔

بریگھم اینڈ وویمن ہسپتال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انسانی اعضا کی قلت کے باعث ہم یہ یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ جس مریض کی بھی اعضا کی پیوند کاری کی جائے اس کے زندہ رہنے یا بچنے کے زیادہ سے زیادہ امکانات ہوں۔‘

ہسپتال کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ٹرانسپلانٹ کے خواہشمند مریضوں کے لیے کووڈ 19 ویکسین اور ان کی طرز زندگی کے بہتر رویے کی ضرورت ہے تاکہ کامیاب آپریشن کو ممکن بنایا جا سکے۔

ہسپتال کی جانب سے محتاط انداز میں لکھے گئے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مریض کے دل کی پیوندکاری کے لیے نااہلی کی وجوہات میں کووڈ ویکسین کے علاوہ دیگر عوامل بھی شامل ہیں تاہم اس نے مریض کی پرائیوسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ہسپتال کا مزید کہنا تھا کہ تقریباً ایک لاکھ ایسے مریض ہیں جو انسانی اعضا کی پیوند کاری کے لیے اعضا کی فراہمی کے منتظر ہیں تاہم ان اعضا کی قلت کے باعث ممکنہ طور پر اگلے پانچ سال تک انھیں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

مالی مدد کی ویب سائٹ ’گو فنڈ می‘ کے مطابق فرگوسن گذشتہ برس نومبر میں تھینکس گیونگ ڈے سے ہسپتال میں داخل ہیں اور انھیں دل کی شریانوں میں مسائل کا سامنا ہے جس سے ان کے پھیپھڑوں میں خون اور پانی بھر جاتا ہے۔

فرگوسن کے لیے عطیات جمع کرنے والے آرگنائزر کا کہنا ہے کہ فرگوسن نے کووڈ ویکسین سے متعلق خدشات کا اظہار اس لیے کیا تھا کیونکہ انھیں دل میں سوزش کا خطرہ ہے اور یہ اس ویکسین کا ایک ممکنہ ردعمل یا نقصان ہو سکتا تھا، جس کے متعلق امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کا کہنا ہے کہ اس کے امکانات بہت ہی کم اور عارضی ہیں تاہم یہ دل کی صحت اور حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمزور دل کے مریضوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول نے ایسے مریضوں، جنھیں اعضا کی پیوند کاری کی ضرورت ہے اور ان کے قریبی جاننے والوں سے کووڈ ویکیسن اور بوسٹر خوراکیں لگوانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

امراض قلب

،تصویر کا ذریعہScience Photo Library

نیویارک یونیورسٹی کے گراسمین سکول آف میڈیسن کے شعبہ میڈیکل ایتھکس کے سربراہ ڈاکٹر آرتھر کپلان نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ اعضا کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کا مدافعاتی نظام مکمل طور بند ہوتا یا بہت زیادہ کمزور ہوتا ہے اور ایسے میں عام نزلہ زکام ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انسانی اعضا کی پہلے ہی بہت قلت ہے اور یہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں لگا سکتے جس کے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوں جبکہ اس کے برعکس دوسرے لوگ ویکسین شدہ ہیں اور ان کے زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

فرگوسن کے قریبی عزیزوں نے بتایا کہ وہ دو بچوں کے باپ ہیں اور ان کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔

فرگوسن اب بھی ہسپتال میں داخل ہیں۔ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی کمزور ہیں اور انھیں دوسرے ہسپتال منتقل کرنا ممکن نہیں اور ’ان کے پاس وقت ختم ہو رہا ہے۔‘

فرگوسن کے والد ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ ’میرا بیٹا بڑی بہادری سے اس حالات کا مقابلہ کر رہا ہے اور جس طرح وہ اپنے اصولوں اور مؤقف پر ڈٹا رہا ہے اس نے میرے دل میں اس کی عزت مزید بڑھا دی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ اس کا جسم اور اس کی مرضی ہے۔‘

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی غیر ویکسین شدہ مریض کو امریکہ میں علاج کے لیے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

اس ماہ کے اوائل میں مینسوٹا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنے مقامی ہسپتال کے خلاف اس وقت مقدمہ درج کروا دیا تھا جب ڈاکٹروں نے ان کے غیر ویکسین شدہ شوہر کو وینٹی لیٹر سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ ان کے شوہر گذشتہ دو ماہ سے زائد عرصے سے وینٹی لیٹر پر تھے۔

واضح رہے کہ امریکہ میں 63 فیصد آبادی نے کووڈ ویکسین کی دو خوراکیں لگوائی ہیں جبکہ 40 فیصد آبادی نے بوسٹر ڈوز کی تیسری خوراک بھی لگوا لی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.