امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ کینیڈا میں قتل خالصتان تحریک کے رہنما اور مقامی گوردوارے کے سربراہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں 3 نہیں 6 ملزم ملوث تھے۔
امریکی میڈیا نے یہ دعویٰ عینی شاہدین اور سی سی ٹی وی کیمرہ ویڈیو کی بنیاد پر کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ملزمان نے ایک نہیں بلکہ 2 گاڑیاں استعمال کیں اور نجر کا قتل پہلے رپورٹ کیے گئے واقعہ سے کہیں زیادہ منظم تھا۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ نجر کی گاڑی کو ملزمان کی ایک گاڑی نے پارکنگ ہی میں روکا اور اچانک نمودار 2 نقاب پوش ملزمان نے فائرنگ کی، ملزمان نے 50 گولیاں برسائیں جن میں سے 34 ہردیپ سنگھ نجر کو لگیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اس نے ملزمان کا پیچھا کیا، ملزمان سکھوں ہی کے جیسے حلیے میں تھے، ملزمان بھاگ کر ایک اور سلور کار میں بیٹھ گئے، جو ان کی منتظر تھی۔
عینی شاہد نے بتایا کہ تین ملزمان پہلے ہی اس سلور گاڑی میں موجود تھے، ایک ملزم نے اسے پیچھے آتا دیکھ کر اس پر پستول تان لی تھی۔
عینی شاہد کے مطابق کینیڈین پولیس نجر کے قتل کے 12 سے 20 منٹ بعد جائے وقوعہ پر پہنچی، چونکہ علاقے میں پولیس کی بڑی تعداد پیٹرولنگ کرتی ہے اس لیے پولیس کے دیر سے پہنچنے پر لوگ حیران تھے۔
عینی شاہد کا کہنا ہے کہ اہلکاروں کے درمیان ایک گھنٹہ اس بات پر جھگڑا رہا کہ تحقیقات کون کرے گا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق کینیڈین پولیس نے عوام سے صرف دو ملزمان اور ایک گاڑی سے متعلق معلومات کیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق تحقیقات کے دوران اہلکاروں نے سفید گاڑی اور اس میں موجود دیگر ملزمان کا تذکرہ ہی نہیں کیا، امریکی میڈیا نے ہردیپ سنگھ نجر کے بیٹے بلراج سنگھ نجر سے بھی بات کی جس کا کہنا تھا کہ اس کے والد نے پولیس سے سیکیورٹی بڑھانے کا کہا تھا مگر کچھ نہیں کیا گیا۔
سکھ گوردوارہ کونسل کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ نجر کی گاڑی میں ان کے مکینک نے ٹریکر لگا ہوا پایا تھا۔
ترجمان مومندر سنگھ کا کہنا ہے کہ حکام نے اسے بھی خبردار کیا ہے کہ نجر کی طرح اس کا نام بھی ہٹ لسٹ پر ہے تاہم نہ تو مزید معلومات دی گئیں اور نہ ہی اسے یقین ہے کہ مقامی حکام کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 45 سالہ ہردیپ سنگھ نجر کو 18 جون کو سرے میں گوردوارے کے باہر قتل کیا گیا تھا۔
Comments are closed.