daty hookup hookup Millerton gina valentina melissa moore hookup hotshot hookup Stafford CT hookup sites like craigslist hookup Vincentown New Jersey

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیوبن میزائل کرائسس: تاریخ کا وہ باب جس نے سرد جنگ کو سرد رہنے پر مجبور کیا

کیوبن میزائل کرائسس: تاریخ کا وہ باب جس نے سرد جنگ کو سرد رہنے پر مجبور کیا

کیوبا امریکہ

کیوبن میزائل کرائسس شاید سرد جنگ کے سب سے خطرناک ادوار میں سے ایک تھا۔ اکتوبر 1962 میں پیدا ہونے والے اس بحران کے دوران 13 دن تک دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی نظر آئی۔ مگر اس بحران کی شدت نے دنیا میں جوہری ہتھیاروں سے ممکنہ تباہی کے بارے میں آگاہی دی اور اس کے بعد عالمی طاقتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی محدود کرنے کے سلسلے میں بات چیت شروع کی۔

یہ سرد جنگ کی ان چند مثالوں میں سے ایک ہے جہاں دو اہم عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تصادم کی زد میں آ گئی تھیں۔ یعنی ایسے سمجھیں کہ یہ وہ بحران تھا جس نے سب کو ڈرا کر امن کی طرف گامزن کیا۔ مگر اس بحران کے دوران کون سے اہم لمحے آئے، یہ جاننے کے لیے اس پر ایک مرتبہ پھر نظر ڈالتے ہیں۔

پس منظر

کیوبا فلوریڈا کے ساحل سے صرف 90 میل دور ایک جزیرہ ہے۔ سنہ 1959 تک یہ دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والے آمر جنرل بٹیسٹا کی قیادت میں امریکہ کا قریبی ترین اتحادی تھا۔

امریکہ نے اس جزیرے پر خاطر خواہ سرمایہ کاری کر رکھی تھی اور بہت سی امریکی کمپنیاں یہاں کام کر رہی تھیں۔ اس جزیرے پر بیشتر کاروباروں، بینکوں، چینی اور تمباکو کے باغات کے ساتھ ساتھ امریکی ایک بڑے بحری اڈے کے مالک بھی تھے۔

امریکہ کیوبا میں پیدا ہونے والی چینی اور تمباکو کا سب سے بڑا صارف تھا۔ سنہ 1959 میں فیڈل کاسترو کی قیادت میں اس جزیرے پر ایک انقلاب برپا ہوا اور بٹیسٹا کا تختہ الٹ دیا گیا۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد کاسترو کی پہلی چال یہ تھی کہ وہ اپنی حکومت کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ جائیں، لیکن اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے اُن سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

کیوبا امریکہ

امریکی صدر کے اس انکار کے بعد نیو یارک میں اقوام متحدہ کے دفتر میں کاسترو کی سوویت یونین کے نمائندوں سے بات ہوئی جنھوں نے کاسترو کی نئی حکومت کے لیے تعاون کا ہاتھ بڑھا دیا۔

کاسترو 1960 سے پہلے کمیونسٹ نہیں تھے، لیکن وہ کمیونزم کی جانب اس وقت متوجہ ہوئے جب سوویت یونین نے ان کو سپورٹ فراہم کرنے کی حامی بھری۔ اور پھر کاسترو نے کیوبا میں کام کرنے والی تمام امریکی کمپنیوں کو نیشنلائز کر دیا اور اس کے عوض انھیں کسی قسم کا معاوضہ دینے سے انکار کر دیا۔

ان اقدامات کے بعد اب امریکہ کے اتنے قریب ایک کمیونسٹ نواز ریاست بن گئی جو امریکی پالیسی اور ان کے صبر کا امتحان لینے والی تھی۔

کیوبا میں ہونے والی جدوجہد دنیا بھر میں برپا سرد جنگ کا ایک حصہ تھی، اور اس بات کی عکاسی کرتی تھی کہ کمیونزم آگے بڑھ رہا ہے اور اب امریکہ کی دہلیز تک جا پہنچا ہے۔

منرو ڈاکٹرائن

اس صورتحال کے پیشِ نظر امریکہ نے منرو ڈاکٹرائن کا حوالہ دیا۔ منرو ڈاکٹرائن کی جڑیں 1823 سے جا ملتی ہیں جب امریکہ نے اعلان کیا تھا انھیں نہ صرف اپنے بلکہ اپنے زیر اثر علاقوں کے دفاع کا حق حاصل ہے۔ امریکہ کا موقف تھا کہ اس سے کسی بھی ایسے اقدام کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے جہاں کوئی بھی یورپی طاقت ان کے مفادات کو خطرے میں ڈال رہی ہو۔

مگر دوسری جانب سوویت یونین نے منرو نظریے کے امریکی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ‘مردہ’ قرار دے دیا۔

امریکہ نے سوویت یونین کو خبردار کیا کہ منرو نظریے کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کے باعث اس پر بڑی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔

درحقیقت امریکہ اس نظریے کو ان خفیہ کارروائیوں کے جواز کے طور پر استعمال کر رہا تھا جو مستقبل میں رونما ہونے والے تھے۔ دوسری طرف سوویت یونین نے خبردار کیا کہ اگر کیوبا پر امریکہ نے حملہ کیا تو وہ کیوبا کا دفاع کریں گے۔

کیوبا امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکجہ نے کیوبا میں میزائلوں کی سائٹ کی فضائی تصاویر کو بطور ثبوت پیش کیا

امریکہ کے اقدامات

سنہ 1959 سے سنہ 1961 تک امریکہ نے کیوبا کے ساتھ بغیر کسی براہ راست تصادم کے سرد مہری پر مبنی تعلقات رکھے۔

آئزن ہاور نے تعلقات کو مزید مشکل اس وقت بنا دیا جب امریکہ سے کیوبا کی چینی کی درآمد میں 95 فیصد تک کمی کر دی۔ امریکہ نے کیوبا پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں جس کے باعث کیوبا کو اپنی چینی اور تمباکو کی مارکیٹ سے محروم ہونا پڑا۔

اسی طرح تیل اور دیگر ضروری سامان کی درآمد پر بھی پابندیاں عائد ہو گئیں۔

اکتوبر 1960 میں امریکہ نے کیوبا کی معاشی امداد مکمل طور پر بند کر دی اور کیوبا کے ساتھ امریکہ کی تمام تجارت پر پابندی لگا دی اور بلآخر جنوری 1961 میں امریکہ نے کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔ مگر ان اقدامات کا امریکہ پر بُرا اثر پڑا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ کیوبا اب اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے سوویت یونین کی طرف دیکھنے لگا تھا۔

سوویت اس پر بہت خوش تھے اور جلد ہی انھوں نے کیوبا کو تیل اور ہتھیاروں کی فراہمی شروع کر دی۔

کیوبا امریکہ

،تصویر کا ذریعہBettmann

،تصویر کا کیپشن

ایک اور سائٹ جہاں میزائلوں کے لیے پہنچائے جانے تھے

بے آف پگز

اپریل 1961 میں امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد جان ایف کینیڈی نے کیوبا پر حملہ کرنے اور کمیونزم کا تختہ الٹنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔

سی آئی اے نے کیوبا کے جنوبی ساحل ‘بے آف پگز’ پر 1400 کے قریب ایسے کیوبا کے شہریوں کو لے جا کر چھوڑ دیا جنھیں ماضی میں ملک بدر کیا گیا تھا اور اس کا مقصد کیوبا میں کمیونسٹ مخالف بغاوت کو ہوا دینا تھا۔ مگر ان باغیوں کو باآسانی اس وقت شکست ہو گئی جب ان کا مقابلہ 20 ہزار بھاری مسلح کیوبا فوجیوں سے ہوا۔ سب پکڑے گئے یا مارے گئے۔

صدر کینیڈی اب بیک وقت کمزور اور جارحانہ نظر آ رہے تھے۔ بے آف پگ کے واقعے کے بعد کیوبا کو واضح طور پر امریکہ کی طرف سے خطرہ محسوس ہوا۔ کاسترو سویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات چاہنے لگے جو ملک کو تحفظ فراہم کر سکتا تھا۔

سوویت لیڈر نکیتا خروشیف نے کیوبا میں امریکی مداخلت روکنے کے لیے وہاں جوہری میزائل نصب کرنے کی کیوبا کی درخواست مان لینے کا فیصلہ کیا۔

جولائی 1962 میں خروشیف اور فیڈل کاسترو کے درمیان ایک خفیہ ملاقات کے دوران ایک معاہدہ طے پایا اور اس موسم گرما کے آخر میں میزائل لانچ کرنے کی متعدد سہولیات کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔

جولائی 1962 تک کیوبا کے پاس لاطینی امریکہ کے خطے میں سب سے بہترین انداز میں لیس فوج تھی۔ خروشیف واضح طور پر نئے امریکی صدر کو آزمانے کے لیے تیار تھے کیونکہ وہ انھیں ناتجربہ کار اور کمزور سمجھتے تھے۔

کیوبا فلوریڈا کے ساحل سے صرف 90 میل کے فاصلے پر تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ، بشمول واشنگٹن ڈی سی اور نیو یارک جیسے اس کے بہت سے بڑے شہر ان میزائلوں کی حد میں ہوتے۔ 80 ملین امریکیوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں تھیں۔

کیوبا امریکہ

،تصویر کا ذریعہullstein bild

،تصویر کا کیپشن

امریکی بحری فوج نے کیوبا کا محاصرہ کر لیا

یہ بھی پڑھیے

سویت یونین نے کیوبا پر ایٹمی میزائل کیوں لگائے؟

سوویت لیڈر خروشیف جانتے تھے کہ امریکہ کے پاس درمیانے اور طویل فاصلے کے جوہری میزائل ہیں جو کہ امریکہ نے ترکی میں موجود اپنے اڈوں پر نصب کر رکھے تھے اور یہ بھی سویت یونین کی ‘دہلیز’ پر تھے۔

اس کے علاوہ خروشیف سویت یونین میں اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے تھے اور اپنی حکومت کو دکھانا چاہتے تھے کہ وہ امریکہ کے تیئیں نرم رویہ نہیں رکھتے۔

ساتھ ہی ساتھ خروشیف نئے کمیونسٹ ملک کو امریکی وفاق کی ناک کے نیچے سپورٹ کرنا چاہتے تھے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ امریکی بے آف پگز کی طرح ایک اور واقعہ کی کوشش نہ کریں اور کاسترو کا تختہ الٹنے کی کوشش نہ کریں۔

کینیڈی کا مخمصہ اور امریکہ کا ردعمل

کیوبا کے تازہ ترین خطرے کے دو دن کے اندر صدر کینیڈی نے مختلف آپشنز پر غور کرنے کے لیے ایک خصوصی مشاورتی گروپ تشکیل دیا۔ اسے قومی سلامتی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایگزیکٹو کمیٹی یا ایکس کام) کا نام دیا گیا۔

ایکس کام کے ساتھ بات چیت کے بعد کینیڈی کو کیوبا میں سوویت خطرے سے نمٹنے کے لیے کئی آپشنز دی گئیں۔

وہ کیا کیا کر سکتے تھے:

میزائلوں کو نظر انداز کرنا: یہ سیاسی خودکشی ہوتی اور غالباً سوویت یونین اس کو کینیڈی کی طرف سے کمزوری سمجھتے اور شاید وہ اس سے فائدہ اٹھاتے۔

اقوام متحدہ کو ملوث کریں: سویت یونین اقوام متحدہ کی کسی بھی کارروائی کو روک سکتا تھا اس لیے اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔ کینیڈی کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کو ملوث کرنے سے دنیا میں امریکی طاقت کے حوالے سے مضبوط پیغام نہیں جائے گا یا یہ ملک کی ساکھ کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

میزائلوں کو ہٹانے کے لیے سویت یونین سے بات کریں: وہ بات کر کے وضاحت کر سکتے تھے کہ ان کی موجودگی سوویت امریکہ تعلقات کو کیا نقصان پہنچا رہی ہے۔ تاہم یو ایس ایس آر کی جانب سے ایک ‘شائستہ’ درخواست سننے کا بہت زیادہ امکان نہیں تھا کیونکہ انھوں نے اس معاملے پر اقوام متحدہ کی ہنگامی میٹنگ میں میزائلوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

کیوبا کی ناکہ بندی کریں اور مزید سوویت جہازوں کو کیوبا میں داخل نہ ہونے دیں: اس سے کیوبا میں میزائل یو موجودہ رہیں گے لیکن مذاکرات اسی پس منظر میں جاری رہیں گے جبکہ کینیڈی کو کچھ خاص کرتے ہوئے دیکھا جائے گا۔فوجیوں کے ساتھ حملہ کرنا یا ہوائی حملے شروع کرنا: بلا اشتعال حملہ، جس میں ہوائی حملے شامل ہوتے ہیں لیکن شاید حملے کے بعد جواز پیش کرنا مشکل ہوتا۔ اس سے بھاری امریکی جانی نقصان بھی ہو سکتا تھا اور یہ سیاسی طور پر نقصان دہ ہوسکتا تھا۔ اس میں یقینی طور پر سوویت ہلاکتیں شامل ہوں گی جو مسئلے کو بڑھا سکتی ہیں۔

کچھ مشیران نے فوری طور پر مضبوط کارروائی کا مطالبہ کیا، یا تو حملہ یا ہوائی حملے، لیکن کینیڈی محتاط تھے کیونکہ اس طرح کے اقدامات آسانی سے جوابی کارروائی اور ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتے تھے۔

کیوبا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

180 امریکی بحری جہاز، آبدوزیں، فوجی اور فضائیہ کو مکمل الرٹ پر رکھا گیا۔

اہم واقعات

کینیڈی کا جواب: کیوبا کی بحری ناکہ بندی

کینیڈی کا حتمی فیصلہ کیوبا کی امریکی ناکہ بندی تھا، جسے کینیڈی نے ’قرنطینہ زون‘ کہا۔ یہ سوویت میزائلوں کو کیوبا میں آنے سے روک سکتا تھا اور اس سے سوویت یونین مذاکرات کرنے پر بھی راضی ہو سکتا تھا۔

  • 22 اکتوبر: کینیڈی نے کیوبا کے ارد گرد بحری ناکہ بندی کر دی تاکہ سوویت جہازوں کو جوہری میزائل لے جانے کے شبہ میں کیوبا پہنچنے سے روکا جا سکے۔
  • 23 اکتوبر: کینیڈی کو خروشیف کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ سوویت جہاز ناکہ بندی پر نہیں رکیں گے بلکہ زبردستی اپنے راستے پر سفر جاری رکھیں گے۔
  • 24 اکتوبر: 180 امریکی بحری جہاز، آبدوزیں، فوجی اور فضائیہ کو مکمل الرٹ پر رکھا گیا۔ خروشیف کی ’سخت بات‘ کے باوجود، ناکہ بندی کے قریب آنے والے بیس جہاز واپس پلٹ گئے (غالباً امریکی بحریہ کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے کے لیے)۔
  • 25 اکتوبر: امریکی جاسوس طیاروں نے کیوبا پر میزائل لانچنگ سائٹوں پر عمارت کی تعمیر کے کام میں اضافے کی اطلاع دی۔
  • 26 اکتوبر: کینیڈی کو خروشیف کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر امریکہ ناکہ بندی ختم کرنے پر راضی ہے اور کیوبا پر حملہ نہ کرنے کا وعدہ کرتا ہے تو لانچنگ سائٹس کو ہٹا دے گا۔
  • 27 اکتوبر: خروشیف کی طرف سے ایک دوسرے خط میں کہا گیا ہے کہ لانچنگ سائٹیں تبھی ہٹائی جائیں گی جب امریکہ ترکی میں اپنے میزائل ہٹائے گا۔ کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ایک یو ٹو طیارہ روسی میزائل سے مار گرایا گیا اور پائلٹ ہلاک ہو گیا۔ تاہم کینیڈی اس صورتحال میں غصے سے کام نہیں لیا اور صرف پہلے ٹیلی گرام کا جواب دینے کا انتخاب کیا جبکہ نجی طور پر ترکی سے میزائلوں کو ہٹانے پر غور کرنے کی پیشکش کی۔
  • 28 اکتوبر: بوبی کینیڈی نے سوویت سفیر سے ملاقات کی اور بحران کے حل کے لیے معاہدے پر اتفاق کیا۔ صدر نے انتباہ دیا کہ اگر انھیں 29 اکتوبر تک جواب نہ ملا تو کیوبا پر حملہ شروع ہو جائے گا۔ ماسکو ریڈیو پر نشر ہونے والے صدر کینیڈی کے نام ایک عوامی پیغام میں، خروشیف نے کہا کہ کیوبا میں موجود تمام میزائلوں کو ہٹانے اور ان کی سوویت یونین میں واپسی پر اتفاق کرتا ہے۔

کیوبا میزائل بحران کے نتائج

دنیا جنگ کے دہانے پر آچکی تھی لیکن اسے ٹال دیا گیا۔ کیوبا کمیونسٹ اور انتہائی مسلح رہا حالانکہ سوویت میزائل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہٹائے گئے تھے۔

دونوں فریقوں نے سمجھا کہ انھوں نے فتح حاصل کر لی ہے۔ خروشیف نے کیوبا میں کمیونسٹ حکومت کو امریکہ کے حملے سے بچایا تھا اور ترکی سے ان کے جوپیٹر میزائلوں کو ہٹانے پر امریکہ سے معاہدہ کیا تھا۔ کینیڈی نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کیا اور سویت یونین کے خلاف ڈٹے رہے اور جوہری میزائلوں کو کیوبا سے نکالا۔

دونوں رہنما بحران سے کچھ لے کر ابھرے اور دونوں فریقوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ نے یو 2 طیارے کے نقصان پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور سویت یونین نے سائبیریا میں اپنی فضائی حدود میں یو 2 پرواز پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا یا یہ کہ امریکی بحریہ نے سوویت آبدوز کو سطح پر آنے پر مجبور کیا۔

دونوں نے اپنے مخالف کو کم سے کم نقصان کے ساتھ پیچھے ہٹا دیا۔ کینیڈی نے فتح پر فخر نہیں کیا اور خروشچیف کی امن کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اگرچہ خروشچیف نے ترکی سے متعلق خفیہ معاہدے کو ظاہر نہیں کیا، دونوں طاقتوں نے معاہدوں کا احترام کیا۔

باہمی تعلقات پر اثر

سرد جنگ میں کشیدگی کم ہوئی اور ایٹمی جنگ کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ مستقبل کے تنازع کی صورت میں واشنگٹن ڈی سی اور ماسکو کے درمیان آسان رابطے کو یقینی بنانے کے لیے وائٹ ہاؤس اور کریملن کے درمیان براہ راست فون لنک دیتے ہوئے ایک ہاٹ لائن لگائی گئی۔

امریکہ اور سویت یونین دونوں کو احساس ہوا کہ وہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہیں اور مذاکرات شروع کیے۔ یہ مذاکرات بالآخر 1963 کے ٹیسٹ پابندی معاہدے کی طرف لے گئے جس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات ختم ہوئے۔

1969 میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے ساتھ مزید پیش رفت ہوئی۔ دونوں ممالک نے ‘پرامن بقائے باہمی’ کے تصور کو فروغ دیا۔

تاہم مغربی طاقتیں خوش نہیں تھیں کیونکہ بحران کے دوران ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تھا۔ درحقیقت فرانسیسی رہنما ڈی گال نے احتجاجاً نیٹو سے علیحدگی اختیار کر لی۔

سب سے اہم نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا کو پھر کبھی اس قسم کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کیوبا بحران نے ایک عرصے تک امن کی راہ ہموار کی اور انسانی حقوق، جوہری تخفیف اسلحہ اور تجارت پر سپر پاورز کے درمیان قریبی تعاون تھا۔

طویل المدتی نتائج میں، بحران کے باعث دونوں اطراف میں 1960 کی دہائی کے اواخر میں اسٹریٹجک اسلحے کی حد بندی کے مذاکرات (SALT) شروع کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ سالٹ ون میں، مزید بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBMs) نہ بنانے کا معاہدہ طے پایا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.