کینیڈا میں دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک ہونے والے افضال خاندان کی تدفین، ہر مذہب کے سینکڑوں افراد کی شرکت
- محسن عباس
- کینیڈا
’لندن میں ہم نے چار خوبصورت انسانوں کو کھو دیا اور اس غم کی گھڑی میں ہم سب ایک خاندان کے طور پر ان کی آخری رسومات کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔‘
عمر خامسیہ نیشنل کونسل آف کینیڈین مسلم کی جانب سے کمیونٹی انگیجمنٹ آفسر ہیں۔ ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ البرٹا کے صوبے میں پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایسے ایسے دن دیکھے ہیں جو آج بھی ہمارا دل چھلنی کرتے ہیں۔۔۔ حجاب پہننے والی عورتوں پر متعدد حملے ہوتے آئے ہیں اور اب اس میں 6 جون کا دردناک دن بھی شامل ہو گیا ہے جس میں ایک خوبصورت خاندان کو نفرت سے بھرے ایک شخص نے گاڑی تلے کچل ڈالا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ آج جو اتنے افراد یہاں جمع ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیار محبت سے ہم ہر طرح کی نفرت پر قابو پا سکتے ہیں۔
کینیڈا میں کورونا کے باعث بین الصوبائی سفری پابندیاں عائد ہونے کے باوجود ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے کینیڈین شہری مختلف شہروں سے سینکڑوں میل کا سفر کرکے سنیچر کے روز لندن پہنچے۔
کینیڈا میں دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک ہونے والے چار پاکستانی نژاد افراد کو سنیچر کی سہ پہر انٹاریو صوبے کے شہر لندن کے اسلامک قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
اس خاندان کی آخری رسومات لندن شہر میں واقع اسلامک سنٹر آف ساؤتھ ویسٹ انٹاریو میں ادا کی گئی جس میں سینکڑوں مسلمان کے علاوہ دوسرے مذاہب کے بے شمار افراد نے بھی شرکت کی۔۔ اس موقع پر مسلمانوں کی آنکھیں تو اشکبار تھیں ہی لیکن غیر مسلموں کو بھی شدتِ غم سے روتے دیکھا گیا۔
سخت گرمی اور شرکا کی کثیر تعداد کی وجہ سے جنازہ مقررہ وقت سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد پڑھایا گیا۔ جنازے کے شرکا میں لندن شہر کے مئیر کے علاوہ بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
یاد رہے گذشتہ ہفتے کینیڈا میں دہشت گردی کے واقعے میں ایک خاندان کی تین نسلیں ہلاک ہوئی ہیں جس میں 46 سالہ فزیوتھریپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ اور پی ایچ ڈی کی طالبہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، نویں جماعت کی طالبہ 15 سالہ یمنیٰ سلمان اور اُن کی 74 سالہ ضعیف دادی شامل ہیں جبکہ اسی خاندان کے نو سالہ فائز سلمان زیرِعلاج ہیں۔
یہ واقعہ اتوار کی شام اونٹاریو کے شہر لندن میں پیش آیا تھا جب 20 سالہ مقامی شخص نے اپنی گاڑی اس خاندان پر اس وقت چڑھا دی تھی جب وہ اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے۔
عمر خامسیہ کہتے ہیں کہ ہم اسلاموفوبیا کے خلاف نیشنل ایکشن سمٹ چاہتے ہیں جس میں ہم یہ یقینی بنانا چاہیں گے کہ ہم سے صرف وعدے ہی نہ کیے جائیں بلکہ ایکشن بھی نظر آئے اور اگر ہماری مسلمان بہنیں اور بھائی کینیڈا میں خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے تو اس کے لیے ہم سیاستدانوں کو جوابدہ ٹھہرائیں گے۔‘
کراچی سے تعلق رکھنے والی عینی تقریباً گذشتہ دو دہائیوں سے لندن کی رہائشی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس واقعے کے بعد سے اب تک ’حیرت زدہ‘ ہیں اور انھیں اس بات پر غصہ بھی ہے کہ اس طرح کے واقعات کے باوجود سیاستدانوں نے اس سلسلے کوئی ایکشن نہیں لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ تو قرار دیا ہے لیکن اب ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ان کا اگلا اقدام کیا ہے۔
عینی نے بتایا کہ انھوں نے یوٹیوب پر کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں کچھ افراد اس واقعے کو ’سیلیبریٹ‘ کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سیاستدان اس حوالے سے کیا ایکشن لیں گے، اسی سے ہمیں پتا چلے گا کہ وہ جو باتیں کر رہے ہیں وہ صحیح ہیں یا صرف دکھاوا ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی فرد اگر مسلمانوں یا دوسری ثقافتوں کے متعلق مذاق میں بھی کچھ کہتا ہے تو حکام کو اسے سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کے بعد ہی بڑی چیزیں بڑھنے لگتی ہیں اور ہم کمیونٹی کے طور پر تو ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں لیکن اصل ذمہ داری سیاستدانوں اور سکیورٹی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔‘
عمر الغبرا مسلم رکنِ پارلیمنٹ اور لبرل پارٹی آف کینیڈا کی جانب سے وفاقی وزیرِ برائے ٹرانسپورٹ ہیں۔ انھوں نے ہلاک ہونے والے پاکستانی خاندان، کمیونٹی اور لندن کے شہریوں سے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ دشت گردی کے اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب کو اکھٹے ہو کر ہلاک ہونے والے خاندان اور ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے اور نفرت انگیزی اور اسلاموفوبیا کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے۔‘
عمر الغبرا کے مطابق ان کی حکومت گذشتہ کئی سالوں سے اسلاموفوبیا پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے اور انھوں نے اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی تفصیلات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سب کے باوجود اب ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ یہ ساری کوششیں کافی نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا حکومت اب کمیونٹی کے ہرنماؤں کے ساتھ مل کر مزید اقدامات اور پالیسز پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں آن لائن نفرت انگیز مواد پر پابندی اور کئی دوسرے اقدامات پر عمل درآمد شامل ہیں۔
عمر کا کہنا تھا کہ اگرچہ کینیڈا دنیا کا سب سے محفوظ ملک ہے لیکن ہمیں معلوم ہیں کہ اس کے باوجود یہاں نفرت اور پرتشدد واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ہمیں ان واقعات کی شرح زیرو پر لانے کے لیے ہر قسم کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر شہری خود کو محفوظ سمجھے۔
جنازہ گاہ سے قبرستان لے جانے کے دوران شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے سڑک کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ عمر الغبرا نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس خاندان کو انصاف دلانے کا عزم رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کریں گے۔
ہلاک ہونیوالوں کے تابوت کینیڈین جھنڈوں میں لپٹے ہوئے تھے اور ان کے جنازہ کو قومی ٹی وی پر براہِ راست دکھایا گیا اور لندن پولیس کے افسران نے گارڈ مارچ بھی پیش کیا۔
نماز جنازہ میں خاندان اور رشتہ داروں کے علاوہ سیاسی، سماجی حلقوں کے ساتھ ساتھ کئی سرکاری حکام، اراکین پارلیمنٹ اور صوبائی و وفاقی وزرا نے بھی شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیے
اس موقع پر کینیڈا میں پاکستان کے سفیر رضا بشیر تارڑ نے بھی خطاب کیا۔
پاکستان کے سفیر نے جنازے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورا پاکستان اس مشکل گھڑی میں سوگوار خاندان کے ساتھ کھڑا ہے۔
کینیڈا اور امریکہ کی سرحد کورونا کے باعث بند ہے جس کی وجہ سے سلمان افضال کے کئی دوست جنازے میں شریک نہیں ہو سکے۔
Comments are closed.