کینیڈا میں ’اسلاموفوبیا‘: کینیڈا میں مقیم حجاب لینے والی پاکستانی نژاد خواتین کو کیا خدشات ہیں؟
- محمد صہیب
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام
‘مجھے ڈر تھا کہ وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر میرا حجاب نہ کھینچ لے۔ میں سوچ رہی تھی کہ میں بس ڈرائیور سے کتنا دور بیٹھی ہوئی ہوں، تھوڑا قریب بیٹھ جاؤں کہ وہ دیکھ لیں کہ میرے ساتھ ایسا حادثہ ہوا ہے۔’
گذشتہ چند برسوں سے کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد عائشہ ناصر معمول کے مطابق اپنے دفتر سے گھر کے لیے جانے والی بس پر بیٹھی تھیں کہ اچانک ان کے پیچھے بیٹھی ہوئی ایک خاتون چلانے لگیں: ‘ان مسلمان خواتین کے حجاب پہننے سے خواتین کی تحریک کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔’
عائشہ کہتی ہیں کہ ‘یہ بات کسی نے مجھے انٹرنیٹ پر نہیں کہی تھی، بلکہ ایک چلتی بس میں میرے ساتھ سفر کرنے والی خاتون نے کی تھی۔ یہ صرف ایک میرے ساتھ ہی نہیں ہوا، یہ کینیڈا کی حقیقت ہے۔’
گذشتہ اتوار کو کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر لندن میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان خاندان کے چار افراد کو ایک 20 سالہ شخص نے گاڑی تلے روند کر ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی تھی۔
عام تاثر یہ ہے کہ کینیڈا بین المذاہب ہم آہنگی کے اعتبار سے ایک مثالی ملک ہے اور وہاں اسلاموفوبیا سے منسلک واقعات پہلے نہیں ہوا کرتے تھے۔
لندن میں ہونے والے واقعے کے بعد سے کینیڈین خواتین سوشل میڈیا پر یہ کہہ رہی ہیں کہ اب وہ باہر چہل قدمی کرنے سے بھی ڈرنے لگی ہیں، خاص طور پر وہ جو حجاب یا نقاب کرتی ہیں۔
ہم نے کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں مقیم چند حجاب پہننے والی پاکستانی نژاد خواتین سے بات کی، اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کینیڈا میں حجاب پہننے والی مسلمان خواتین کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔
،تصویر کا ذریعہCourtesy Khadija Zafar
خدیجہ ظفر کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر برلنگٹن میں مقیم ہیں اور و اس واقعے کے بعد وہ اپنے والد کو یہ تلقین کر چکی ہیں کہ وہ والدہ کو اکیلے چہل قدمی پر نہ جانے دیا کریں
’ایک خاتون نے مجھے دیکھ کر زمین پر تھوکا‘
خدیجہ ظفر کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر برلنگٹن میں مقیم ہیں اور اتوار کے واقعے کے بعد وہ اپنے والد کو یہ تلقین کر چکی ہیں کہ وہ والدہ کو اکیلے چہل قدمی پر نہ جانے دیا کریں۔
‘میری والدہ ذیابیطس کی مریض ہیں اور وہ ہر شام اکیلے چہل قدمی کرنے نکل جاتی ہیں۔ وہ بہت بہادر ہیں، انھیں انگریزی آتی ہے لیکن اتنی اچھی نہیں۔
‘اب مجھے یہی ڈر ہے کہ یہ ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، یہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔’
صرف 13 برس کی عمر میں خدیجہ پاکستان سے کینیڈا منتقل ہو گئی تھیں اور ان کی مادری زبان سرائیکی ہے۔
تاہم کینیڈا میں کئی دہائیوں سے مقیم خدیجہ کے اس ڈر کی وجہ صرف یہ حالیہ واقعہ نہیں ہے، خدیجہ کے ساتھ اسلاموفوبیا سے منسلک نفرت انگیز واقعات اس سے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔
یہ سنہ 2014 کی بات ہے جب خدیجہ سات ماہ کی حاملہ تھیں اور خریداری کے لیے وہ ایک قریبی مال ڈرائیو کر کے پہنچیں۔ انھوں نے اپنی کار عین اس جگہ کھڑی کی جہاں حاملہ خواتین کے لیے مخصوص جگہ بنائی گئی تھی۔
تاہم جب وہ خریداری کر کے واپس آئیں تو انھیں اپنی گاڑی پر ایک نوٹ پڑا ہوا ملا۔ خدیجہ کو پہلے تو ایسے معلوم ہوا کہ شاید اُن پر جرمانہ عائد کر دیا گیا ہے، تاہم جب انھوں نے نوٹ اٹھا کر پڑھا تو اس پر لکھا تھا: ‘حاملہ خواتین کے لیے مخصوص جگہ پر گاڑی پارک کر کے تم نے خاص اسلام پسند افراد والی حرکت کی ہے۔’
خدیجہ کہتی ہیں کہ میڈیا نے مسلمان خواتین کا لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسا خاکہ بنا دیا ہے جس کے مطابق: ’میں ایک مظلوم خاتون ہوں، جو پڑھی لکھی نہیں ہے اور اسے انگریزی نہیں آتی۔‘
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتی ہیں: ’پتا نہیں وہ ہمیں انسان بھی سمجھتے ہیں یا نہیں۔‘
خدیجہ بتاتی ہیں کہ انھیں دیکھ کر ایک مرتبہ ایک خاتون نے ان کے سامنے زمین پر تھوک دیا اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ لوگ گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔
تاہم خدیجہ کا کہنا ہے کہ ’اب ایسے واقعات کے بعد ہمیں حکومت کا احتساب کرنا ہو گا، کیونکہ یہ کہنا کہ اسلاموفوبیا کی کینیڈا میں کوئی جگہ نہیں ہے، کافی نہیں۔‘
‘مجھے ڈر یہ ہوتا ہے کہ میرے اوپر حملہ ہو گا، میں کوشش کرتی ہوں کہ میں ایسے حجاب پہنوں جس پر کوئی ایسے رنگ نہ ہوں جسے دیکھ کر کوئی ایسی شکل بنائے جیسے ان کے سر میں درد ہو رہا ہے۔’
’ہلکے رنگوں کے حجاب پہنتی ہوں تاکہ کسی کو ناگوار نہ گزرے‘
کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر ہیملٹن میں مقیم عائشہ ناصر اس ملک میں گذشتہ تین سالوں سے مقیم ہیں تاہم جب بھی وہ گھر سے باہر جانے لگتی ہیں تو ان کے ذہن میں بہت سارے خدشات منڈلانے لگتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں باہر جاؤں گی تو مجھے کوئی ایسے دیکھے گا جو عجیب سی نظر ہو گی، جیسے میں نے کچھ غلط پہنا ہوا ہے یا غلط کیا ہے۔
’مجھے ڈر یہ ہوتا ہے کہ میرے اوپر حملہ ہو گا، میں کوشش کرتی ہوں کہ میں ایسے حجاب پہنوں جس پر کوئی ایسے رنگ نہ ہوں جسے دیکھ کر کوئی ایسی شکل بنائے جیسے ان کے سر میں درد ہو رہا ہے۔‘ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر ہلکے رنگ کے حجاب پہنتی ہیں تاکہ یہ کسی کو ناگوار نہ گزریں۔
اتوار کو لندن میں ہونے والے واقعے کے بعد سے عائشہ کے گھر میں اداسی چھائی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے دل میں پہلے بھی ایک خوف موجود تھا، ایک ڈر سا تھا کہ کہیں ہمارے ساتھ کچھ ایسا نہ ہو جائے۔‘
’پھر میں سوچتی تھی کہ ایسے خوف نہیں ہونا چاہیے، میرے ساتھ ایسا کیوں ہو سکتا ہے۔ لیکن اب میں سوچ رہی ہوں کہ ہمارے خاندان کے ساتھ بھی یہ ہو سکتا ہے۔‘
’کینیڈا اپنے بارے میں دنیا کو جو بتا رہا ہے وہ سچ نہیں‘
دو روز قبل کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران لندن میں ہونے والے واقعے کی مذمت کی تھی اور اسے ایک دہشتگرد حملہ قرار دیا تھا۔ تاہم جب ان سے صوبہ کیوبیک میں زیرِ بحث بل 21 کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کے خاتمے سے انکار کیا۔
بل 21 دراصل صوبہ کیوبیک میں حکومتی اہلکاروں کو کام کے دوران مذہبی علامات پہننے سے روکتا ہے۔ یعنی اگر کوئی حجاب پہننے والی مسلمان خاتون اس صوبے میں سرکاری نوکری کرنا چاہے تو اسے کام کے اوقاتِ کار میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’صوبوں کو اپنی ترجیحات کے اعتبار سے قوانین بنانے کا حق ہے اور لوگوں کو ان قوانین کے خلاف عدالت جانے کا بھی حق ہے۔‘
یہ بل گذشتہ اتوار کے واقعے کے بعد سے ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور مختلف تنظیموں کی جانب سے اسے عدالت میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔
عائشہ کہتی ہیں کہ ’یہ منافقت ہے کہ ایک طرف آپ کہیں کینیڈا میں متعدد ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ آباد رہ سکتے ہیں اور دوسری جانب میں کینیڈا کے اتنے بڑے صوبے میں سرکاری نوکری نہیں کر سکتی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’کینیڈا دنیا کو اپنے بارے میں جو کہانیاں سناتا ہے ان میں سچائی نہیں ہے۔‘
’دل کے کسی کونے میں ڈر بیٹھ گیا ہے‘
سیما سلیم لندن، اونٹاریو میں ہی مقیم ہیں اور ان کے گھر سے جائے وقوعہ محض چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔
انھوں نے انٹرویو کے دوران افضال فیملی کو یاد کیا اور بتایا کہ ’جب اچانک ایک ہی خاندان کے چار افراد جنھیں آپ جانتے ہوں، ان سے مل چکے ہوں، اس دنیا سے چلے جائیں ۔۔۔ ہم شدید صدمے میں چلے گئے تھے۔‘
سیما کہتی ہیں کہ ان کے دل کے کسی کونے میں خوف ضرور موجود ہے لیکن وہ اس جگہ بھی جا چکی ہیں اور روزانہ چہل قدمی بھی کرتی ہیں تاکہ دہشتگرد کو اس کے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیں۔
سیما کے ساتھ بذاتِ خود کوئی نفرت انگیز واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے۔
سیما مقامی طور پر دوسرے مذاہب کی جانب سے ایسے موقع پر ساتھ دینے کے حوالے سے بھی بات کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’اس مشکل گھڑی میں جس طرح دیگر مذاہب کے افراد ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے اور جیسے کینیڈا کے وزیرِ اعظم نے اسے دہشتگردی کا واقعہ کہا، ہمیں اس حوالے سے بہت خوشی ہے۔‘
خیال رہے کہ کینیڈا میں گذشتہ برس ستمبر میں ٹورونٹو کی ایک مسجد کے باہر ایک رضا کار کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس کی جانب سے اس واقعے کو بھی مبینہ طور پر نفرت کی بنیاد پر کیا گیا عمل قرار دیا گیا تھا۔
اس سے قبل سنہ 2017 میں صوبہ کیوبیک میں اسلامی ثقافتی مرکز میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
Comments are closed.